امتیاز غدر کے ناول علی پور بستی کے اجرا کے موقع پر ذوقی کا انتباہ، لڑو ورنہ مار دیے جاؤگے
لازوال ڈیسک
نئی دہلی؍؍ایوان غالب میں امتیاز غدر کے ناول علی پور بستی کا رسم اجرا کا انعقادحالی پبلشنگ ہاؤس اور سہ ماہی ادب سلسلہ کے زیر اہتمام کیا گیا۔ اجرا کے موقع پر مشہور ناول نگار اور مرگ انبوہ سے خصوصی طورپر چرچا میں آئے مشرف عالم ذوقی نے عہد حاضر کے سیاستدانوں کو للکارتے ہوئے کہا کہ یہ وقت چیلنج کا ہے، تم ہمیں دباؤ، ہلاک کرو، اتر پردیش کے ساتھ پورے ملک میںظلم کی بساط بچھادو مگر اب ہندوستان کا بیدار طبقہ ڈرنے والا نہیں ہے۔ ذوقی نے ناول کے حوالے سے کہا کہ یہ وقت اردو کے جشن کا نہیں، احتجاج کا ہے اور وہ اس اجرا میں اس لیے آئے کہ یہ ناول بھی احتجاج کا ایک حصہ ہے۔یہ ناول ہمارے ووٹنگ سسٹم پر قدغن لگاتا ہے۔ اگر ہم سی اے اے، این آرسی اور این آر پی کی جنگ ہار گئے تو ہم ہندوستان میں نہ صرف اجنبی ہوں گے بلکہ ووٹ کرنے کے شہری حقوق سے بھی محروم کردیے جائیں گے۔ذوقی نے مزید کہا کہ یہ وقت ہمارے لیے چیلنج ہے اور خوفزدہ ہونے کا نہیں ہے۔اس وقت ہندوستان اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ آزادی کے بہتر برس بعد اس آزادی کی جنگ شروع ہوئی ہے جو فرقہ پرست طاقتوں کی وجہ سے غلامی کی زنجیروں میں باندھ دی گئی تھی۔ ملک کے ۶۰ فیصد سے زیادہ سرکاری ملازموں اور کالج یونیورسٹی کے اساتذہ کو بھی اس جنگ میں شامل ہونا ہوگا، ورنہ ہم اگر شکست کھا گئے تو ملک کے سیکولرزم کا اور جمہوری کلچر کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہوجائے گا۔ ذوقی نے جامعہ، علی گڑھ اور بی ایچ یو کے ساتھ ملک کے ۲۵۰ جامعات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے نوجوانوں کے ہاتھوں میں اس ملک کا مستقبل ہے اور اس وقت پورا ملک دو جادوگروں کے ظلم وستم کی زنجیروں کو توڑ نے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا ہے۔رسم اجرا بدست فقیر اردو فاروق ارگلی،ناول نگارمشرف عالم ذوقی، ناول علی پور بستی کے مصنف امتیاز غدر، ادیب وصحافی حبیب سیفیؔ،شاعر بشیر چراغ ،ادیب وناقدعمران عظیم ، محمد سرفراز عالم، ایڈووکیٹ رئیس فاروقی ، انصاری اطہر حسین ومدیر ادب سلسلہ سلیم علیگ عمل میںآئی ۔تقریب کی نظامت ریسرچ اسکالرنوجوان غلام نبی کمار نے انجام دی ۔فاروق ارگلی کے مطابق ناول لکھنا آسان کام نہیں،ایسی تحریریں بیداری کا فریضہ انجام دیتی ہیں،اور قوم کی ترجمانی کرتی ہیں۔بہ ہرحال امتیاز غدر اور ناول کے نام میں موزینیت بھی چیز ِدیگر ہے۔خور شید اکرم نے اس موقع پر اپنی نظم بے وطن کے کچھ مصرع سنا کر شرکاء کو محظوظ کیا ۔حبیب سیفیؔ نے کہامائنارٹیز کی شناخت سمجھی جانے والی غریب بستیوں میںتعلیم کافقدان عام بات ہے یہ اس ناول کے ذریعے بھی باور کرایا گیا ہے،امتیاز غدر چونکہ درس وتدریس سے وابستہ ہیں اس لئے انہوںنے یہ کام بہت ہی سلیقگی سے کیا ہے ۔ عمران عظیم کا خیال تھا کہ امتیاز غدرنے اپنے افسانوں کی طرح ناول میں غلط مردم شماری کے نتائج اور خمیازہ صحیح لوگوں کو بھگتنا پڑتا ہے ۔خورشید اکبر کی زبانی ناول کو صرف مردم شماری تک محدود نہیں کیا جاسکتا۔قوم کی پستی اور زبوںحالی بھی اس ناول کااہم حصہ ہے۔بشیر چراغ کے مطابق احتجاجی لہجہ اگر ادیب کے یہاں پایا جاتا ہے تو اس سے بڑی بات اورکیا ہوسکتی ہے،جو قلمکار اپنا کام بہ احسن انداز انجام دیتا ہے اسے تادیریاد رکھا جا تا ہے۔اہم شرکاء میں سرور نگینوی،ایم آر قاسمی، شیام سندرسنگھ،ڈاکٹر منصورانصاری، شاعر نزاکت امروہوی،ماسٹر محمد انور،ساجد عبید،ارشد حسین، انجینئر ارشاد احمد، محمد مبشر عالم، کشور بدھانی،سرفراز، تابش نیرادب سلسلہ کے مدیر سلیم علیگ نے اظہار تشکر ادا کیا۔