قیصر محمود عراقی
کیا دور تھا جب والد صاحب صبح سویرے دفتر جاتے اور شام مغربی سے قبل ہی گھر آجاتے۔ میرے خیال میں شاید ہی کبھی ایسا ہوا ہو کہ والد صاحب اپنے معمول سے ہٹ کر گھر آئے ہوں۔گھر والوں کی تمام ضروریات اکیلے والد صاحب کی کمائی سے ہی پوری ہوجاتی تھیں،تہواروں پر خریداری سے لیکر جیب خرچ تک ، سب اسی تنخواہ میں ہوجاتا جو اس وقت ابو کو ملا کرتی تھی، گھر میں خدا کا دیا سب کچھ تھا، ایک تنخواہ میں گھر بھی چلتا اور بعد مختلف شہروں کی سیر بھی ہوجایا کرتی۔ میں نے ابو کو کبھی مالی طور پر پریشان نہیں دیکھا ۔ یہ صورت صرف ہمارے گھر کی نہیں بلکہ اس دور میں محلے کے گھر گھر میں اسی قسم کے حالات ہوا کرتے تھے۔ کنبہ بڑا ہو یا چھوٹا ، کمانے والا صرف ایک ہوتا جو پورے گھرانے کی تمام ضرورتوں کو پورا کرتا ۔ رفتہ سب کچھ بدلنے لگا ، وقت گذرتا گیا ، آنے والے حکمرانوں نے عوام کیلئے جو پالیسیاں بنانا شروع کیں ان کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہندوستانی روپیہ دن بہ دن دوسرے ممالک سے نیچے کی طرف آتا گیا۔ حکمرانوں کی معاشی پالیسوں نے ملکی معیشت کو تباہ کرکے رکھ دیا، مہنگائی ہر آنے والے دن کے ساتھ بڑھتی گئی، ضروریاتِ زندگی عوام کی پہنچ سے دور ہوتی گئیں، اندورونی اور بیرونی قرضوں کا بوجھ عوام پر ایسا پڑا کہ آج اگر کسی سے کہا جائے کہ وہ ایک تنخواہ میں گھر چلائے تو اس کے لئے ناممکن ہوگا، کیونکہ آج ایک فرد دونوکریاں کرکے بھی صرف دو وقت کی روٹی کمانے پر مجبور ہے۔
اس وقت ہندوستان میں لوگ روزگار کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہیں، بے روزگاری تیزی سے بڑھتی ہی جارہی ہے، اگر کسی سے کہہ سن کر کوئی کام مل بھی جائے تو اس سے کمائے ہوئے پیسوں سے گھر کا چولہا نہیں جلتا ۔ اس ساری صورتحال میں لوگ نفسیاتی مریض بنتے جارہے ہیں، ظاہر ہے جس معاشرے میں بھوک وافلاس ہوگا، بیماریوں کے ساتھ ساتھ وہاں جرائم میں بھی اضافہ ہوگا۔ سمجھا یہ جاتا ہے کہ ان حالات کا سامنا صرف مزدور طبقے کو کرنا پڑتا ہے، ایسا نہیں ہے، بلکہ اب تو یہ صورتِ حال ہو چکی ہے کہ دفتروں میں کام کرنے والے بھی پارٹ ٹائم کام کی تلاش میں رہتے ہیں، ایک تنخواہ ان کے خاندان کیلئے ناکافی ہوتی ہے۔ لیکن حکمرانوں کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ،ان کے نزدیک سب ٹھیک چل رہا ہے۔ اگر کبھی کسی سیاسی رہنماسے بات کی جائے تو اس کا جواب کچھ یوں ہوتا ہے کہ ملک نے زرِ مبادلہ کے ذخائر بڑھتے جارہے ہیں،لوگ خوشحال ہیں، سڑکوں پر گاڑیوں کا سیلاب ہے، ہر شخص موبائل فون استعمال کرتا ہے، ترقی اور کیا ہوتی ہے، خوشحالی اسی کا نام ہے، لوگ تو بلاوجہ روتے رہتے ہیں، بازاروں میں جاکر دیکھوخریداری کس طرح ہورہی ہے یعنی اگر جیب میں مال ہے تو ہر چیز خریدی جاسکتی ہے اور اگر آپ کے پاس پیسہ نہیں ہے تو اس کی ذمہ دار حکومت نہیں۔
قارئیں محترم!اگر حکمرانوں کی بات سنی جائیں تو واقعی اس بات پر یقین کرنے کو جی چاہتا ہے کہ مہنگائی ہے تو کیا ہوا اگر ہم ضروریاتِ زندگی کی کوئی چیز خریدنے کی سکت نہیں رکھتے تو اس میں حکمرانوں کا کیا قصور ہے۔ بات بالکل ٹھیک ہے، اگر حالات کی وجہ سے آپ غربت کی زندگی گذاررہے ہیں تو اس میں آپ ہی کے مالی حالات کا قصور ہے، ورنہ بازاروں میں ہر چیز دستیاب ہے، اس کا الزام بھلا حکمرانوں کو کیوں دیا جائے؟ یہ دوسری بات ہے کہ مہنگائی نے اگر غریب کے منھ سے نوالا چھین لیا تو حکومت کو اس سے کیا؟ خیر بات ہورہی تھی ملک میں غربت سے مجبور ان افراد کی جو دو نوکریاں کرنے پر مجبور ہیں۔ ہندوستان میں نوکری پیشہ خود تو پریشانیوں اور ذہنی الجھنوں کا شکار ہوا ہی ہے، ساتھ ساتھ اس کا پورا خاندان بھی دو وقت کی روٹی کا بندوبست کرنے پر مجبور ہے، حالانکہ کسی بھی شخص کا دوسری نوکری کرنے کا شوق نہیں، وہ بحالتِ مجبوری یہ کام کرتا ہے، اپنا آرام ختم کرکے بھی مالی حالات تبدیل نہ ہو تو انسان مجبوراً غلط قدم اٹھا بیٹھتا ہے، اگر ہم اپنے اطراف میں دیکھیں تو ایسی کئی داستانِ الم سننے کو ملیں گے، مثلاً! میرے علاقے میں میرا ایک واقف کار رہتا ہے کچھ دن قبل میری اس سے ملاقات ہوئی ، باتوں باتوں میں اس وقت میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے جب اس نے بتایا کہ اس کے گھر والوں نے مہینوں پہلے گوشت پکایا تھا، جبکہ وہ بارہ سے چودہ گھنٹہ مزوری کرتا ہے، اب بھلا ایک نوکری کے ساتھ وہ کس طرح اپنے بچوں کو دو وقت کی روتی دے سکتا ہے جب کہ اس کی بیوی گھر میں چھوٹے موٹے کام کرکے کچھ نہ کچھ رقم جوڑ لیتی ہے، لیکن وہ پیسہ صرف گھر کے راشن کیلئے ہی ہوتا ہے۔ مجھے یہاں اپنے واقف کار کے گھر کی کہانی لکھنے کا شوق نہیں، البتہ بتانے کا مقصد صرف یہ ہے کہ غربت کے ہاتھوں تنگ نہ جانے کتنے ایسے لوگ ہمارے معاشرے میں موجود ہیں جو عزت بچانے کی خاطر خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیںورنہ یہ حقیقت ہے کہ سرکاری ملازمین خصوصا چھوٹے اور کم تنخواہ دار طبقے کے ساتھ ناانصافیاں ہوتی ہیں، پراویٹ اداروں میں کام کرنے والوں کا حال تو اس سے بھی کہیں زیادہ بد تر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی ایک فرد کی کمائی سے گھر چلانا ناممکن ہوچکا ہے، اس لئے ہر دوسرے شخص کو دوسرے نوکری کرنا پڑتی ہے، علاوہ ازیںمتعدد دیگر مسائل کی وجہ سے بھی لوگ دو نوکریاں کرنے پر مجبور ہیں۔ مثلاً! کسی کو اپنے والدین کا علاج کروانا ہے ،کوئی قرض اتارنے کیلئے دو نوکریاں کررہا ہے، کسی کو اپنے بچوں کی تعلیم کے اخراجات پورے کرنے کیلئے اس عذاب کو جھیلنا پڑرہا ہے ، تو کوئی بجلی وگیس کے بلو کی ادائیگی کرنے کے لئے اپنی جان ہلکان کرتا ہے۔ یقینادو نوکریاں کرکے کسی بھی فوری مسئلے کا حل تو کیا جاسکتا ہے لیکن اس کے بطن سے نہ جانے کتنے مسائل جنم لے لیتے ہیں۔ جیسے ہم نے خود ہی معاشرے میں موجود غیر ضروری چیزوں کو اپنے لئے ضرورت بنا رکھا ہے ، اس قسم کی کئی غیر ضروری چیزوں کو سہولت کے نام پر حاصل کرنے کی جدوجہد انسانی زندگیاں تباہ کرتی جارہی ہیں، معاشرے میں پھیلی ان غیر ضروری چیزوں استعمال ختم نہیں کیا جاسکتا ، لیکن اس بات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ہمیں چاہئے کہ خود ہی ایسی غیر ضروری اشیاء کی خواہش ترک کردیں جن کے بغیر بھی زندہ رہا جاسکتا ہے۔ آپ مشینوں کی طرح کام کرنے کی بجائے ایسے طریقے اپنائیں جس سے زندگی میں آسانی پیدا ہو دوسری طرف سب سے زیادہ ذمہ داری حکومت وقت کی ہوا کرتی ہے، لہذا حکمرانوں کو بھی چاہئے کہ وہ روز گار کے زیادہ سے زیادہ مواقع پیدا کریں اور سرکاری وغیر سرکاری ملازمین کو معاشی تحفظ فراہم کریں۔
آخر میں حکومت سے التماس کے ساتھ عرض ہے کہ ریاست اور معاشرے میں امن وامان افراد کی خوشحالی پر منحصر ہوتا ہے، اگر ریاست کے باشندے خوشحال نہیں تو معاشرے میں لوٹ مار ، رہزنی اور قتل عام ہوا کرتا ہے، تنگ اور غربت ہی ان تمام مسائل کی جڑ ہے اور یہی معاشرے کی بربادی کے باعث بنتے ہیں۔ ریاست کے ہر فرد میں اتنی ہمت نہیں ہوتی کہ وہ دنیا سے کٹ کر دن رات ایک کرے اور بچوں کا پیٹ پالے، ان حالات میں نسلیںخصوصاً نوجوان بے راہ روی کا شکار ہوجایا کرتے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں خودکشیوں میں اضافے کے رجحان کا موجب بھی یہی مسئلہ ہے۔ لہذا حکومت خود ہی ایسے اقدامات کرے جن کے نتیجے میں ملک سے غربت وافلاس کا خاتمہ ہوسکے اور عوام صرف ایک نوکری سے ہی عزت کے ساتھ دو وقت کی روٹی کماسکیں۔
کریگ اسٹریٹ،کمرہٹی، کولکاتا۔۵۸
موبائل:6291697668