یو این او اور عالمی عدالت غیر جانب داری میں ناکام ہے

0
0

بینام گیلانی

جہاں کہیں عدالت کا نام آتا ہے وہیں ذہن کے دریچے پر انصاف کی دیوی رقصاں نظر آتی ہے۔بلا شبہ عدل و عدلیہ کا ذکر خیر اطمینان بخش ہوتا ہے۔جب بھی عدل عمر یا عدل جہانگیر کا ذکر ہوتا ہے۔انسانوں کے سنہرے دور کا خود بخود خیال آ جاتا ہے۔لیکن یہ ہماری کم نصیبی ہے کہ عدل و انصاف اور عدلیہ کے لحاظ سے اب ہمارا حال انتہائی مایوس کن اور غیر یقینی ہی نظر آتا ہے۔کسی بھی ملک کی بقا کے لئے آئین و عدل ناگزیر ہیں۔ورنہ انسانوں کے ملک اور جنگلوں میں کوئی امتیاز نہیں رہ جائیگا۔حالانکہ کہنے والے لوگ کہتے ہیں کہ جنگلوں کے بھی آئین ہوتے ہیں۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہاں ایسا کچھ نظر نہیں آتا ہے۔جنگلات کی مخلوقات کے ہاں احساسات و جذبات تو نہیں ہوتے ہیں کہ انہیں اپنی خانگی و معاشرتی ذمہ داری کا احساس ہو۔ تاہم وہ سب کے سب ان ہی جنگلوں میں باہم رہتے ہیں۔اس باہمی رہائش کو جماعت نہیں جھنڈ کہا جاتا ہے۔کیونکہ اس جھنڈ میں شامل مخلوقات میں نہ کوئی اصول و ضوابط ہوتے ہیں اور نہ ہی وہاں کسی آئین کی پاسداری ہی ہوتی ہے۔جب کوئی آئین ہی نہیں ہوتا ہے تو عدل و عدلیہ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے۔لیکن انسانوں میں عہد قدیم سے ہی عدل و عدلیہ کا وجود قائم ہے۔جب ہماری تہزیب تشکیل اور فروغ پا رہی تھی۔عدل و عدلیہ کے کئی قابل فخر ادوار گزرے ہیں۔ان میں عدل فاروقی اور عدل جہانگیر کو اہم حیثیت حاصل ہے۔لیکن یہ انتہائی افسوس کے ساتھ رقم کرنا پڑ رہا ہے کہ بعد کے ادوار خصوصاً اس اکیسویں صدی میں عدل و عدلیہ کے تعلق سے عالمی منظر نامے کا جائزہ لیا جائے تو حالات ناگفتہ بہ نظر آتے ہیں۔صرف مایوسی و محرومی ہی ہاتھ آتی ہے۔یہ کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ انسانی معاشرے میں عدل و عدلیہ کی زبوں حالی ایک بہت بڑا المیہ بن کر ابھری ہے۔جسے ہر ذی شعور اور اہل فہم انسان سمجھ سکتا ہے۔ایسے میں کسی بھی ملک کا داخلی معاملہ و مسئلہ نہیں سلجھایا جا سکتا ہے۔عدلیہ سے کچھ اور ہو یا نہ ہو لیکن اس سے مجرمانہ واقعات میں ضرور کمی آتی ہے۔کیونکہ حفاظتی دستہ خود عدلیہ سے خوفزدہ ہوتا ہے کہ کہیں ہماری زرا سی کوتاہی کے باعث ہم سے بھی مواخذہ نہ ہو جائے اور ہم بھی سزا کے مستحق نہ قرار دے دئے جائیں۔چنانچہ معاشرے میں توازن بنا رہتا ہے۔جس سے فروغ کے عمل کو تقویت حاصل ہوتی ہے اور ملک کو استحکام استقلال حاصل ہوتا ہے۔اگر ایسا ممکن نہیں ہو پاتا ہے تو ملک غیر مستحکم ہی نہیں بلکہ تباہ و برباد ہو کر رہ جائیگا۔
متذکرہ بالا امور کے پیش نظر اگر معاصر منظر نامے میں عدل و عدلیہ کا جائزہ لیا جائے تو بہت ہی خراب صورت حال نظر آئیگی۔سب سے پہلے ناچیز وطن عزیز کے عدلیہ کے حالات سے انتہائی متفکر ہے۔یہاں 2014 ئ سے جو مذہبی منافرت کا بازار گرم ہے وہ انتہائی روح فرسا صورت حال ہے۔اس صورت حال کا ذمہ دار صرف اور صرف برہمن واد ہے یا دوسرے لفظوں میں آر ایس ایس ہے۔اس فسطائی تنظیم نے کچھ اس طرح سناتنوں کی ذہن سازی کی ہے کہ صدیوں پرانے ہندو مسلم اتحاد کی روایت کی بیخ کنی کر دی ہے۔۔جب سے سیاست اور دھرم کو خلط ملط کر دیا گیا ہے تب سے یہاں کی جمہوریت اور سیکولرزم نیز آئین کی بالا دستی کو زبردست ضرب پہنچی ہے۔یہ ضرب نہ صرف ہندو مسلم کے لئے زیاں رسا ہے۔بلکہ اس کے منفی اثرات عالمی طور پر بھی مرتب ہونے کے شدید اندیشوں کو جنم دیتے ہیں۔۔حیرت انگیز امر یہ ہے کہ عدلیہ کی زبوں حالی کا سبب بہت ہی شرمناک و عبرتناک ہے۔کیونکہ یہ خود وفاقی حکومت کے اشارے پر عمل پزیر ہو رہا ہے۔جبکہ اگر کوئی دوسرا اس طرح کی صورت حال پیدا کرتا تو اس وفاقی حکومت کی ذمہ داری تھی کہ اس پر مکمل طور پر قدغن لگاتی۔چنانچہ اب اس منافرت پر مبنی حالات پر قدغن لگنا اگر ناممکن نہیں تو دشوار ضرور نظر آتا ہے۔اس منفی عمل میں وزارت داخلہ سے لے کر وزارت عظمیٰ تک ملوث نظر آتی ہے۔ اس کے بعد وطن عزیز کا کون سا شعبہ ہوگا جو ان کی آنچوں سے محفوظ رہ سکے گا۔چنانچہ اس میں حکومتی حفاظتی مشینری سے لے کر عدلیہ تک ملوث نظر آتے ہیں۔ایک اور خاص امر یہ ہے کہ بات صرف آئینی بے راہ روی کی نہیں بلکہ ایک مخصوص تنظیم کے آئین شکن افراد کے ظالمانہ رویہ کا بھی ہے جسے حکومتی تحفظ حاصل ہے۔ حتیٰ کہ یہاں کی عدلیہ بھی فرقہ واریت سے پاک نہیں ہے۔جس کا کئی ثبوت وطن عزیز میں حالیہ ماہ و سال میں نظر آ چکا یے۔جب مسلم عبادت گاہوں،مسلم ریت رواج،مسلم پرسنل لائ کی بات ہو عدلیہ مسلم مخالف ہونے میں ذرہ برابر بھی تامل سے کام نہیں لیتی ہے۔مثال کے طور پر بابری مسجد کا فیصلہ لیا جا سکتا ہے۔اس کے علاؤہ بھی اذان،تین طلاق کا معاملہ وغیرہ۔جب ہندوستان کا بنیادی آئین مسلمانوں کے مذہبی امور کو تحفظ دینے کا وعدہ کرتا ہے تو پھر اذان کا مائک پر ہونا یا تین طلاق کا معاملہ یا کسی مسلمان کا مسجد کے علاوہ کہیں اور نماز ادا کرنے کا معاملہ غیر آئینی کیونکر ہو سکتا ہے۔یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ہندوستان آئینی طور پر ایک جمہوری اور سیکولر ملک ہے۔ یہ دیگر امر ہے کہ امسال ہی بی جے پی حکومت نے آئین ہند سے لفظ "سکولر” کو حذف کر دیا ہے۔یہ بھی غیر آئینی طور پر ہی انجام دیا گیا ہے۔کیونکہ آئین ہند کی کتاب سے بنیادی قانون کے کسی لفظ کو خارج کرنے کے لئے پارلیمان میں دو تہائی اکثریت کا حاصل ہونا ناگزیر ہے۔اب یہاں آئین کی یہی حیثیت رہ گئی ہے کہ بغیر کسی عدالت کے حکم کے کسی بھی گھر خصوصاً مسلمانوں کے کھروں پر یا پھرمساجد و مقابر پر بولڈوزر چلا دیا جاتا ہے اور سارے عوام تماشائی بنے تماشا دیکھتے رہتے ہیں۔الغرض ہندوستان میں اب آئین کی نہ کوئی حیثیت رہ گئی ہے اور نہ ہی کوئی ضرورت رہ گئی ہے۔کیونکہ اب تو ہر کام کے لئے صرف صوبائی یا مرکزی حکومت کے اشارے کی ضرورت ہوتی ہے۔کسی تحریری حکم نامے کی بھی نہیں۔ان حالات میں عوام کے حالات کیا ہوں گے وہ سمجھا جا سکتا ہے۔ناچیز کے خیال سے جس قدر ہندوستان میں جمہوریت اور آئین خطرے میں ہے۔اس قدر کسی اور ملک میں شاید ہی ہو۔ویسے یہاں کی وفاقی حکومت جس سیاسی جماعت سے منسلک ہے اس کا تو اعلان ہی ہے کہ ہندوستان کو موجودہ آئین کی اب کوئی ضرورت نہیں رہی۔یہاں کے لئے منو سمرتی کافی ہے۔جتنے بھی بھگوا دھاری ہیں بیشتر اسی بات کے حامی ہیں۔انتہا تو یہ ہے کہ آر ایس ایس اور اس کے ذرائع ابلاغ نے سناتنوں کی ایسی ذہن سازی کی ہے کہ ان کے طفل نادان بھی اسلام اور اہل اسلام سے شدید نفرت کرنے لگے ہیں۔یہ کتنے افسوس کا مقام ہے کہ آر ایس ایس والے سناتنوں کو دھرم کی بنیاد پر یکجا کرنے کی سعء بلیغ فرماتے رہے اور مسلمانوں کے نام نہاد علمائ خصوصاً میلاد خواں سنی،شیعہ،بریلوی اور دیو بندی کرنے میں اپنی تمام توانائی صرف کرتے رہے نیز مسلمانوں کے خود ساختہ رہبران مسلمانوں کو صرف آر ایس ایس سے خوفزدہ ہی کرتے رہے۔کسی نے بھی مسلمانوں کے مسائل کے حل کے لئے کوئی عملی اقدام نہیں کیا۔۔ہاں اتنا کرم ضرور فرمایا کہ جذباتی تقاریر کر کے مسلمانوں کے درمیان کی خلیج کو مزید گہرا کیا ہے۔اتنا گہرا کر دیا ہے کہ فی زمانہ جو مسلمانوں کے مابین اتحاد کی شدید ضرورت درپیش ہے وہ ناممکن سا نظر آنے لگا ہے۔دوسری جانب حکومت ہند کی نگاہ میں نہ کوئی دیو بندی ہے اور نہ ہی کوئی بریلوی۔سب کے سب صرف اور صرف مسلمان ہیں جن سے دشمنی اس کا عین مقصد ہے۔ جب ماب لنچنگ ہوتی ہے تو صرف مسلمان کی ہی ہوتی ہے۔جب فرقہ وارانہ فسادات ہوتے ہیں تو صرف مسلمان شہید ہوتے ہیں بریلوی و دیوبندی نہیں۔اب ایک نئی سازش پیش نگاہ ہے۔بلا کسی جواز کسی خطا کے منمانی ڈھنگ سے خود الزام تراشی کرکے بغیر کسی عدالت کے حکم کے مسلمانوں کے گھروں کو منہدم کیا جا رہا ہے۔یہاں بھی شیعہ و سنی اور بریلوی و دیوبندی کے امتیاز کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا جاتا ہے بلکہ ان منہدم کرنے والوں کی نگاہوں میں وہ مکان صرف اور صرف مسلمان کا مکان ہوتا ہے یہاں دو امور قابل توجہ ہیں۔ایک یہ کہ دشمنان دین کی نگاہ میں مسلمانوں کے مسلکی امتیاز کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور دوسری بات یہ کہ مسلمانوں کو تباہی و برباد کرنے کے لئے آئین ہند کو سرے سے خارج کر دیا جاتا ہے۔
اب رہی عالمی پیمانے پر عدل و عدلیہ کے حالات کی بات۔عدلیہ میں حضرت علی کے بعد ہی جانبداری کا آغاز ہو گیا جس سے عدل کا عمل بری طرح متاثر ہوا۔مثال کے طور پر یزید کی حکومت ہی کو لے لیا جائے۔جس طرح یزید نے اقتدار حاصل کیا اس سے عدل و انصاف تو متاثر ہوا ہی کتنوں کی حقیقت بھی اجاگر ہو گئی۔اس کے بعد مسلسل جانبداری کا دور چلا جس سے انصاف مجروح ہوتا رہا۔پھر پہلی جنگ عظیم جس میں کم و بیش 6بلین انسانی ہلاکت عمل پزیر ہوئی۔اس کے بعد عالمی سیاستدانوں کی آنکھ کھلی اور لیگ آف نیشن کا قیام عمل میں ایا۔جو اسی جانبداری کے باعث اپنے مقاصد کو حاصل کرنے میں ناکام رہا۔بعد ازیں دنیا کو ہلاکت سے محفوظ رکھنے کے لئے اور پوری دنیا میں قیام امن کے لئے دوسری جنگ عظیم جس میں کم و بیش 14بلین لوگ ہلاک ہوئے اس کے بعد 1945اکتوبر 24کو اقوام متحدہ کا قیام عمل میں آیا۔جس کا مقصد عین تھا کہ اب مزید خون خرابہ دنیا میں عمل پزیر نہ ہو۔لیکن صد افسوس اس اقوام متحدہ نے عالمی امن کے قیام سے زیادہ امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کو تحفظ فراہم کرنے میں محو رہا یعنی امریکہ کی غلامی میں زیادہ مصروف رہا۔جس کے باعث کئی مشرقی ممالک کو جنگ کی آتش جاں سوز میں جھونک دیا گیا۔اس پر مستزاد اسی امریکہ کے اشارے پر اقوام متحدہ نے ان صیہونیوں کے لئے ایک ملک قائم کیا جس کے لئے فلسطین جیسی متبرک و مقدس اسلامی سر زمین کو دو حصوں میں منقسم کر دیا۔ایک حصہ میں تو مسلمان تھے ہی۔دوسرے حصہ میں ان مکار صیہونیوں کو لا کر آباد کر دیا گیا جن کی مکاری،سازش اور فریب کاری سے مغربی سر زمین پر اہل مغرب پریشان رہ چکے تھے۔
اب رہی بات عالمی عدالت کی۔یہ واحد عالمی ادارہ ہے جو امریکہ کے باہر ہے۔ اس کا قیام 1945ئ میں نیدر لینڈ کے ہیگ شہر میں عمل پزیر ہوا۔یہ یو این او کے 193 ممالک کے آپسی تنازعات کو دور کرنے کے لئے قائم ہوئی۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس کا قیام امریکہ کے باہر عمل میں آیا ہے۔یوں تو کہنے کے لئے یہ ایک غیر جانب دار ادارہ ہے۔لیکن صد افسوس یہ بھی امریکہ کے اثر و رسوخ سے آزاد نہیں ہے۔یہ حق ہے کہ یہ بھی ہندوستانی عدلیہ کی طرح غیر جانب دار کہلاتی ہے۔لیکن اپنی غیر جانب داری کی لاج بچانے میں ناکام ہی رہی ہے۔یہ بھی یو این او ہی کی طرح امریکہ و دیگر مغربی ممالک کے ہاتھوں کی کٹھ پتلی ہی ہے۔اس کی زندہ و تابندہ مثال حالیہ اسرائیلی مقدمہ ہے جوجنوبی افریقہ اور ایران کی جانب سے وہاں داخل کیا گیا ہے۔
یہ معاملہ اسرائیل کے ذریعے ارض فلسطین پر سفاکانہ نسل کشی کا ہے۔جس میں بیدریغ طریقے سے کم و بیش 30000 مردو خواتین و معصوم بچوں کو قتل کیا گیا ہے۔ان مقتولین میں معصوم بچوں کی کثرت ہے۔یہ مقدمہ ان لوگوں کے لئے ایک آئینہ ہے جو عالمی عدالت کو غیر جانب دار تصور کئے بیٹھے ہیں۔گرچہ وہاں بھی امریکہ کے اثر و رسوخ اسی طرح قائم ہیں جیسا کہ یو این او پر۔جس طرح یو این او میں غزہ اور اسرائیل جنگ کے تعلق سے کم و بیش 15 نشستیں عمل پزیر ہو چکی ہیں اور کئی دفع اس جنگ کو بند کرنے کے لئے اتفاق رائے بھی عمل میں آیا۔لیکن چونکہ ظالم و غاصب اسرائیل امریکہ کی اولاد نرینہ ہے۔چنانچہ اس نے ہر بار اکثریت سے منظور شدہ ریزولوشن کو ویٹو کر دیا۔اسی طرح عالمی عدالت میں بھی کم و بیش 30000 انسانوں کے قاتل بنجامن نتن یاہو کو امریکہ اپنا پورا پورا تحفظ دئے ہوئے ہے۔جس کے باعث وہ عالمی عدالت بالکل ہی معذور بنی بیٹھی ہے۔چاہ کر بھی اس جاری نسل کشی پر کسی قسم کا قدغن لگانے سے قاصر ہے۔
المختصر یہ کہ اب دنیا کو ان دونوں ہی عالمی اداروں کی کوئی حاجت نہیں۔کیونکہ یہ اپنا فریضہ غیر جانب دار طریقے سے ادا کر نے سے قاصر ہے۔اج اگر اسرائیل کی جگہ کوئی مسلم ملک ہوتا تو کب کا فیصلہ ہو چکا ہوتا اور وہاں کا وزیر اعظم تختہء دار کی زینت بن چکا ہوتا۔اب یہ بھی ثابت ہو چکا ہے کہ ظالم صرف اسرائیل نہیں ہے بلکہ اس کے باہم امریکہ،انگلینڈ،جرمنی اور فرانس جیسے ممالک بھی اس صف میں کھڑے نظر آتے ہیں۔اس لئے ناچیز کو یہ کہنے میں کوئی پس و پیش نہیں کہ معاصر دور میں سب سے بڑا اسلام دشمن ملک امریکہ ہے جو حقوق انسانی کا علمبردار بنا بیٹھا ہے اور عالمی انصاف کا نعرہ لگائے پھرتا ہے۔یہ انتہائی مکار اور منافق ہے۔ یہ مکاری و منافقت کا فن اس نے اپنی اولاد نرینہ اسرائیل سے ہی سیکھا ہے۔ benamgilani@gmail.com
٭٭٭

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا