یوم جمہوریہ کویوم تحفظ جمہوریت کے طور پر منائیں!

0
0

 

انگریزی جابرانہ حکومت کی دو سو سالہ غلامی کے بعد15اگست 1947کوہمارے بزرگوں کی انتھک کوششوں اور بے پناہ جانی و مالی قربانیوں کے بدلے ہمیں آزادی کی صبح نصیب ہو ئی۔اس وقت ہمارے ملک کے پاس ایسا کوئی قانون نہیں تھا جس کے ذریعہ سے یہاں کے شہریوں کے بنیادی،تعلیمی،ثقافتی،مذہبی اور لسانی حقوق کی فراہمی کو یقینی بنایا جا سکے۔ایسے میںضرورت تھی ایک ایسے دستور کی جو بلا امتیاز مذہب و ملت انسا نی حقوق کا سچا علم بردار ہو اور اس میں کسی کے ساتھ کو ئی امتیاز و تعصب نہ برتا گیا ہو۔اس کے لیے ایک دستور ساز اسمبلی تشکیل دی گئی۔ڈاکٹر راجندر پرشاد کوآئین ساز اسمبلی کا مستقل صدر بنایا گیا اور ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکرکو مسودہ کمیٹی کے صدر کے طور پر منتخب کیا گیا۔آپ کی سرپرستی میں ہندوستان کا آئین 2سال11مہینے18دن کے طویل جدو جہدکے بعد تیار کیا گیا۔جس کو26نومبر1947کو تسلیم کرلیا گیاتھامگر اس کانفاذ26جنوری1950کو عمل میں آیا۔اس کے تنفیذ سے یہ ملک ایک ایسا جمہوری ملک بن گیا،جہاںہر کسی کو برابر کے حقوق ملے اورسب کو آزادی کی حقیقی روح کے ساتھ پرامن زندگی گزارنے اورمذہب پر عمل کرنے کے ساتھ ساتھ ہر اس طرح کے حقوق میسر آئے جس کی فرد وسماج کو ضرورت ہوتی ہے۔اسی لیے اس دن کو پورے ہندوستان میںبڑے ہی تزک واحتشام کے ساتھ منایا جاتاہے۔ ہندوستان دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک ہے۔یہاں مختلف مذاہب کے ماننے والے لوگ اپنے رسم ورواج کواپنی تشخص کے ساتھ مناتے آئے ہیں ۔ہندوستان کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہاں کے لوگ اپنی مختلف زبانوں اور تہذیب و اقدارپر عمل پیرا ہونے کے ساتھ قومی اتحاد ویکجہتی میں اپنی مثال آپ ہیں۔ہندو مسلم سکھ عیسائی یہاں مل جل کر بڑے ہی اطمینان اور بھائی چارے کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہیں۔یہاں مندروں سے گھنٹے اور مسجدوں سے اذان کی آوازیں گھونجتی ہیں۔ہر کوئی ایک دوسرے کی مذہب کا احترام کرتا ہوا نظر آتا ہے۔اسی جمہوری پاس داری اوراپنی دیگرگوناگوں خصوصیات کی وجہ سے دوسرے ممالک میں اسے عزت اور قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔  لیکن افسوس! اس وقت ہمارا ملک جس برے دور سے گزر رہا ہے وہ سب پر عیاں ہے ۔کسی کو بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ کچھ فرقہ پرست عناصراپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کے لیے جمہوری قدروں کو ختم کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔قانون اور انسانیت کی حرمت کو پامال کرہے ہیں۔اسلام اور مسلمانوں کو ہر ممکن نقصان پہنچا رہے ہیں۔ جب سے مرکز اور صوبے میں بھارتیا جنتا پارٹی کی حکومت بنی ہے اس کے بعد سے ایک منظم سازش کے تحت مسلمانوں کے کردار کو داغدار کیا جارہاہے۔ اسلامی قوانین اوراسلامی تشخص کو بگاڑ کر پرنٹ میڈیا،الیکٹرانک میڈیا اورسوشل میڈیا کے ذریعے عوام میں اسلام اورمسلمانوں کے تئیں نفرت پھیلائی جارہی ہے۔مسلمانوں کی تعمیر کردہ نشانیوں اور عمارتوں کو مسخ کیا جا رہا ہے ۔تاریخ کی کتابوںسے مسلمان حکمراں کے متعلق سنہرے ابواب کو نکالا جا رہا ہے اور اس کی جگہ پر من گڑھت اور نفرت انگیزواقعات ان کی طرف منسوب کئے جارہے ہیں۔تاکہ ایک سادہ لوح تاریخ کا طالب علم یہ سمجھے کہ یہ ہندوستان میںصرف اور صرف دھرم پریورتن کے لیے آئے تھے ۔ بابری مسجدکے انہدام کے نام سے شروع کئے جانے والا ہندتوا،آج گائے کے نام پرپوری انسانیت پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہا ہے۔شک کی بنیاد پراقلیتی طبقہ کے افراد کے خون سے آئے دن ہولی کھیلی جارہی ہے۔اخلاق اور پہلو خان سے لے کر افرازل اور تبریز انصاری تک کی خون سے لت پت دردناک موت کی داستانیں ہندوستانی جمہوریت اور پوری انسانیت کو ہر جگہ سر عام نیلام کر رہی ہیں۔اب تو بیرون ممالک سے بھی یہاں کی ا قلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے مطالبات کیے جارہے ہیں۔پھر بھی ہمارے ملک کے حکمرانوں کو شرم نہیں آتی۔آخر یہ رام بھگت رام کانام لے کرہی کیوں انسانیت کو مارتے ہیں،کہیں ان کا منصوبہ آئین کے نفاذ کے بجائے راون راج کے نفاذ کا تو نہیں۔دھرم کے نام پر قتل کرنے سے دھرم کی بڑائی اور برتری کبھی نہیں ہو سکتی۔رام تو انسانیت کا سبق پڑھاتے تھے اورمحبت و بھائی چارہ کا پیغام دیتے تھے۔اب ایسے وقت میں جب کہ رام کا نام لے کر انسانیت کا خون کیا جارہا ہو ،سچے رام بھگتوں کو آگے آکر پوری دنیا کو یہ بتانا چاہیے کہ یہ لوگ رام بھگت نہیں ،رام کے دشمن ہیںجورام کے نام پر اپنی سیاسی روٹیاں سینک رہے ہیں۔سب سے بڑا سوال تو یہ ہے کہ ان کے دل ودماغ میں اتنا غصہ اور اقلیتی طبقہ کے خلاف نفرت کہاں سے آتی ہے کہ جان لے کر ہی ٹھنڈی ہوتی ہے؟کون بھڑکاتا ہے اس بھیڑ کو جو موت کی سوداگری کرتے ہیں؟کیا انہیں قانون سے ڈر نہیں لگتایا قانونی محکمہ ہی ان کے کنٹرول میں کام کرتا ہے؟یہ وہ بھیانک سوال کے گوشے ہیں جو ہرسچے دیش بھگت کے دل ودماغ میں گونج رہے ہیں۔ وقت نے انسان کو ضرورتوں کا ایسا غلام بنایا اور اس سے اس کا حافظہ ایسا چھیناکہ کسی کو تصویر سے آگے پیچھے دیکھنے سننے اور سوچھنے سمجھنے کی فرصت ہی نہیںرہی۔لوگ صرف افواہوں پر کان دھرنے کے عادی ہو گئے،چاہے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق ہو یا نہ ہو۔میڈیا جس کوجمہوریت کاچوتھا ستون کہا جاتاتھا،شایداب نہیں،جس کا بنیادی کام معلومات واطلاعات کو حاصل کرکے غیرجانبدارانہ طریقے سے نشر کرنا تھا۔کل جومیڈیاسیاست واقتدار کا حریف ومقابل،عوام کے مفادات کا پاسبان ومحافظ اورشرپسند عناصراور اداروں کو ان کی اوقات دکھانے کا کام کرتا تھا،آج وہ اپنے مؤقرمنصب سے ہٹ کر انہی کا فریق وشریک بن گیا ہے اور جانبدار ہو کر اپنا سارا زور کسی بھی تصویر کوبنانے اوربگاڑنے میں صرف کررہا ہے۔وطن عزیز کا حال آپ کے سامنے ہے کہ کل دیش بھکتی کا الگ تصور تھا اور آج گودی میڈیا نے دیگر بنا دیاہے۔اس کا بھی معاملہ کسی ذی شعور ہندوستانی سے مخفی نہیںکہ ہندوستان کے مسلمانوں کو تقسیم کا گنہگار ثابت کرنے کا کھیل آزادی کے پہلے سے کھیلا جا رہا ہے۔ہندوستان کے مسلمان جواپنی تصویر مولانا عبدالکلام آزاد کی صورت میں دیکھنا چاہتے تھے اور جنہوں نے گاندھی جی کی ایک ایک بات پر قربانیاں دی تھیںان کو پاکستان اور جناح سے جوڑ کردیکھنے اور دکھانے کے پیچھے ان کو نا کردہ گناہ کے لیے احساس ندامت میں مبتلا کرکے ملک کے ماحول کو ان کے لیے ناقابل رہائش بنانا ہے اور دوسرے درجے کی شہریت پر زندگی بسر کرنے کے لیے مجبور کرنا ہے۔ایسے پرفتن اور تعصب زدہ ماحول میں مجھے ملک کے سچے سپوتوں اور جیالوں سے یہ خدشہ ہے کہ کہیں وہ گودی میڈیا کے دام فریب میں آکر اور ان کے نفرت انگیز خیالات اورفرقہ پرست ڈبیٹر سے متأثرہوکرتصویر سے آگے دیکھنے اور سمجھنے کی صلاحیت نہ کھو دیںاور ہر چیز کومیڈیا کے نقطہ نظر سے دیکھنا شروع کردیں۔ ہندوستان کے موجودہ حالات پر برطانوی جریدہ’دی اکانومسٹ‘ نے اپنی رپورٹ میں بھارتی وزیر اعظم مودی جی اور ان پارٹی بھارتیہ جنتا پارٹی کی پالیسیوں کو بھارت میں جمہوریت کے لیے بڑا خطرہ قرار دیا ہے۔متنازع غیر آئینی قانون نے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے۔رپورٹ کے مطابق موجودہ حکمراں جماعت کی متعصبانہ رویوں کے باعث جہاں 30کروڑمسلمانوں کوخوف وہراس اور بے اطمینانی کی زندگی گزارنے کے خدشات لاحق ہیںوہیں رام مندر کی تحریک کا تذکرہ کرتے ہوئے اس رپورٹ نے یہ بھی صاف کیا ہے کہ این آر سی کے ذریعہ غیر ملکیوں کی نشان دہی کے عمل سے بھارت کی ایک ارب 30کروڑ آبادی متأثر ہوگی۔یہ عمل سالہا سال رہنے کی وجہ سے اس دوران عوامی جذبات مشتعل رہیں گے جس سے پورے ملک میں بے چینی رہے گی۔ پچھلے چار پانچ سالوں کا بغور جائزہ لینے کے بعد ایسا لگتا ہے کہ ملک میں جمہوریت دم توڑ رہی ہے۔آئینی اداروں پر مسلسل کاری ضرب کے ذریعہ ان پرسے عوام کا اعتماد وبھروسہ اٹھتا جا رہا ہے۔چاہے وہ الیکشن کمیشن کی ساکھ کا معاملہ ہو یاسی بی آئی کا سیاسی استعمال ۔الغرض جس طرف بھی نظر اٹھائیں ہر طرف جمہوری قدروں پر فسطائیت کے بادل منڈلا رہے ہیں۔اسی چیزکو دیکھتے ہوئے سپریم کورٹ کے چار بڑے ججوں کو عوام کے سامنے پریس کانفرس کرنی پڑی تھی کہ ہندوستانی جمہوریت کو خطرہ ہے۔اگر موجودہ غیر آئینی قانون کی جبراً نفاذ کی طرف غور کریں تو کافی حد معاملہ صاف ہوجاتا ہے کہ ہمارا ملک آمریت اور ڈکٹیٹر شپ کے راستے پر چل رہاہے۔پورے ملک میں عوامی احتجاج کو دبانے کے لیے جس طور پر پولیس اور دیگر اداروں کا استعمال کیا گیا ہے وہ یقیناجمہوریت کے چہرے پر بدنما داغ ہے۔اب ایسے ماحول میں تمام جمہویت پسند افراد کے اوپر یہ بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم 26جنوری یعنی یوم جمہوریہ کوجہاں جشن کا ماحول برپا کریں وہیں پر لوگوں کو جمہوریت کو درپیش خطرات سے بھی آگاہ کریں۔اپنے اسکولوں ،کالجوں ،مدرسوںوغیرہ جہاں بھی موقع میسر آئے دستور ہند کی تعلیم کا اہتمام کرکے گھر گھرشہر شہر اور گاؤں گاؤں میں اس کو عام کرنے کا کام کریں اور آئین ہند کی بقا اور اس کے تحفظ کے لیے ہر ممکن کوشش کریں ورنہ تو ہمارے آباء واجداد کی بے لوث قربانیوں ،محنتوں اور ان کی انتھک کوششوں کے بعد بھی ان کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکے گااور ہماری نسلیں پھر سے غلامی کی بد ترین زندگی گزارنے پر مجبور ہوں گی

۔نعیم الدین فیضی برکاتی،ریسرچ اسکالررانی پور،پورندرپور،مہراج گنج(یوپی)mohdnaeemb@gmail.com9792642810

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا