فیروز بخت احمد
26984517
آج تما م ا سکولوںاور کالجوں و دیگر تعلیمی اداروں میں "یو م اسا تذہ” منا یا جا رہا ہے۔کچھ طا لب علم اپنے استا دوں و استا نیوںکو بطور تعظیم پھول یا مبا رکبا دی کارڈ پیش کریںگے۔تمام تعلمی اداروں میں استا دوں کی اہمیت پر تقار یر کی جا ہیںگی اور کئی جگہ دعوتیں بھی ہوںگی ۔اس قسم کی تقریبا ت ہرسال ہوا کرتی ہیں مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے معاشرے نے اساتذہ کو وہ مقام اور احترام دیا ہے جو ان کا مقدر ہے ؟ ہوتا یہ ہے کہ ہر سال ’’یوم اساتذہ‘‘ پر محض ایک ڈرامہ سا ہو جاتا ہے اور استادوں کو یہ تسلی دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ سماج میں ان کا بڑا وقار وعزت ہے ۔ مگرحقیقت کچھ اور ہی ہے ۔پچھلے دنوں جنوبی ہند سے نکلنے ایک انگریزی روزنامے میں ایک مضمون شائع ہوا تھا کہ خواتین کو کس طرح کے مرد شادی کے لئے در کار ہیں۔ایک سروے اس سلسلے میں کیا گیا جس میں انھوں نے بزنس، کارپوریٹ ہائوسزکے افسران ، سول سروسز،ڈاکٹروں،انجینئروں وغیرہ کو سب سے زیادہ اہمیت دی ۔جہاں تک اساتذہ کا تعلق تھا،خواتین کی فہرست میں یہ آخری چوائس تھی۔اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ استادوں کا کیا مقام رہ گیا ہے ہمارے سماج میں۔
دراصل اس میں اساتذہ کا اتنا قصور نہیں ہے جتنا ان ذہن ساز افراد یا تنظیموں کا کہ جو ہر چیز کو روپیہ پیسہ ودولت کے اعتبار سے پرکھتے ہیں ۔حالانکہ زمانے کا مزاج کچھ یہی بن گیا ہے کہ ہر چیز کو روپیے کی افراط کی ترازو پر تولا جاتا ہے۔ تصویر کا ایک رخ یہ بھی ہے کہ استادوں کی گھروں میں اکثر ان کی فیملی کے مختلف ممبر یہ کہتے سنے جاتے ہیں کہ استاد بن کر آپ نے کون سا تیر مار لیا ،پیسہ کمانا آپ کے بس کا نہیں، ایمانداری سے آپ گھر کیسے چلا لیں گے وغیرہ ۔اس قسم کی ذہنیت کا اثر یہ ہوا کہ استاد بھی اس بات کو سوچنے لگے کہ واقعی یہ بات صحیح ہے اور وہ ٹیوشن وغیرہ کے چکروں میں پڑنے لگے۔پھر بھی زیادہ تر استاد ایسے نہیں ہیںکہ جو پیسے کو اہمیت دیتے ہیں ۔ان کے نزدیک درس وتدریس کا سلسلہ تبلیغ کی طرح ہے کہ جس میں خدا کی رضا دیکھی جاتی ہے نہ کہ یہ بات کہ ان کا بینک بیلنس کتنا ہے یا یہ کہ وہ اسے کتنا بڑھا سکتے ہیں ۔
۶۶۔۱۹۶۴ء کی کوٹھاری کمیشن کی رپورٹ میں اساتذہ کو کتنی اہمیت دی گئی ہے، اس بات کا اندازہ اس رپورٹ کے اس پہلے جملہ سے لگایا جا سکتا ہے کہ جس میں تحریر کیا گیا ہے، ’’ہندوستان کے مقدّر کی تشکیل اس کے کلاس رومز میں ہو رہی ہے ۔‘‘یہ کوئی عام جملہ نہیں ہے بلکہ اس کے معنیٰ میں بڑی گہرائی ہے۔رپورٹ میں یہ بات بالکل بجا کہی گئی ہے کہ آزاد ہندوستان کا مستقبل ہمارے اساتذہ کے ہاتھ میں ہی ہے۔ ملک کی تعلیمی، سائنسی، سماجی، جمہوری و فنّی ترقّی کے لئے یہ اشد ضروری ہے کہ اساتذہ کی اہمیت کو سمجھا جائے اور خود اساتذہ اس بات کو سمجھیں کہ ملک کی قسمت میں چار چاند لگانے کا اہم کام وہی کر سکتے ہیں۔
تمام نظامِ تعلیم میں کلاس روم میں تدریس کا کام بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ ہم سبھی اس بات کو بخوبی سمجھتے ہیں کہ معاشرہ اور ملک کے مفاد میں سب سے زیادہ ضروری بات یہ ہے کہ بچوں کو سب سے اچھی تعلیم دی جائے۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ اُن کی جسمانی، اخلاقی، ذہنی، روحانی اور سماجی تربیت کو بھی اہمیت حاصل ہونی چاہیے کیوں کہ یہ تمام چیزیں کسی بھی بچہ کی روحانی نشونما کے لیے ازہد کارگر ہوتی ہیں۔
کلاس روم میں محض اُستاد کا جانا ہی خود میں بڑی بات ہوتی ہے کیوں کہ بچے اُس کی ہر بات کو بغور نوٹ کرتے ہیں چاہے وہ اُس کا جماعت میں داخل ہوکر، چل کر اپنی سیٹ پر بیٹھنا ہو یا سیدھے بلیک بورڈ تک جانا ہو۔بچے ہر چیز کو بڑے غور کے ساتھ دیکھتے ہیں اور اس حد تک کہ وہ یہ بھی دیکھ لیتے ہیں کہ اُستاد کی قمیض یا کُرتہ میں کس طرح کے بٹن لگے ہیں یا یہ کہ اُس کے جوتے چپّل چمک رہے ہیں۔ یہ تو خیر معمولی سی تفصیلات تھیں مگر سچّائی تو یہ ہے کہ آج کے دور میں پرائمری سے لے کر یونیورسٹی سطح تک ایک اچھے اُستاد کا ملنا بہت دشوار سا ہو گیا ہے۔
جیسا کہ پہلے بھی ہم عرض کر چکے ہیں اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ موجودہ دور مادّیت کا دور ہے اور اس میں زیادہ تر لوگ بجائے اُستاد بننے کے دوسرے پیشوں کو اپنانا زیادہ پسند کرتے ہیں جیسے ڈاکٹر، وکیل، انجینئر، سول سروسز، چارٹر اکائونٹنٹ، بزنس منجمنٹ، صحافت،تجارت وغیرہ۔ ایسا دیکھا جارہا ہے کہ تدریس کا کام وہی شخص کر رہا ہے کہ جو شوق کے نہیںبلکہ مجبوری کے تحت اس جانب آیا ہے۔ اس دور میں اُستادی کے فن کی اہمیت اتنی گھٹ گئی ہے، اس بات کا اندازہ ہم اس سے کر سکتے ہیں کہ مختلف اخبارات میں آئے دن’’میٹریمونیل‘‘(matrimonial) اشتہارات شائع ہوتے رہتے ہیں جن میں دولہا کی ڈمانڈ کے لیے پیسے والے لوگوں کی چاہت رہتی ہے۔ مگر یہ لائن کہیں پڑھنے کو نہیں ملتی کہ شادی کے لیے اُستاد کی ضرورت ہے۔اس کے علاوہ سماج میں بھی آج اُستاد کا وہ مقام نہیں جو کہ آج سے پچاس برس قبل تھا کہ گائوں، قصبہ میں اگر ایک ماسٹر جی ہوا کرتے تھے تو کوسوں دور اُن کا نام بڑی عزّت کے ساتھ لیا جاتا تھا۔ اساتذہ کا المیہ یہ ہے کہ اُنہیں آج کوئی نہیں پوچھتا۔
اب سماج میں ایسا سوچا جانے لگا ہے کہ جو شخص ہر طرف سے ناکامیاب ہو جاتا ہے ، وہ ٹیچر بن جاتا ہے۔ حالانکہ یہ بات ٹھیک نہیں ہے مگر دنیا ایسا ہی سوچتی ہے۔ پھر پڑھانے سے متعلق ایک عام غلط فہمی یہ بھی پھیلی ہوئی ہے کہ درس و تدریس کے لیے کسی خاص ڈگری کی ضرورت نہیں اور یہ کہ ہر وہ شخص بچوں کو پڑھا سکتا ہے کہ جو اُن سے معلومات میں چند قدم آگے ہوتا ہے۔ بچے کا کام تو بس سیکھنا ہوتا ہے اور ماسٹر کا کام پڑھانا۔ لہٰذا کیا پڑھانا اور کیا پڑھنا۔ یہ تو ایک بہت عام بات ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اس فن کے بارے میں اس طرح سے سوچ لینا ایک بڑی غیر مناصب سی بات ہے کیوں کہ اُستاد کا فن کوئی چھوٹا موٹا ذریعہ معاش نہیں۔ یہ تو صحیح معنوں میں ڈاکٹری یا انجینئری کی طرح ہی ایک پروفیشنل لائن ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اُستاد ہی یہ سمجھ سکتا ہے کہ اُسے کس کو پڑھانا ہے، بچوں کی عمر کیا ہے، اُن کی قابلیت کیاہے، اُن کی خوبیاں و کمزوریاں کیا ہیں اور یہ کہ وہ کس طرح کے ماحول سے آ رہے ہیں۔ اُس کے بعد یہ دیکھنا بھی بہت اہم بات ہے کہ کس بچّے میں کس موضوع کے لیے کتنی صلاحیت ہے یا یہ کہ وہ مستقبل میں کس سمت میں جانا چاہے گا۔یہ اُستاد ہی ہے جو کہ کسی بھی شخص کو کامیابی کی بلندیوں سے ہمکنار کرتا ہے۔اگر اُستاد اس بات پر عبور نہ رکھے کہ کس مضمون میں اور کس موضوع پر کتنی گہرائی سے طلبہ کو سمجھانا ہے، تو اُس کی محنت رائیگاں جائے گی۔
ایک اچھے اُستاد کی نشانی ہے کہ وہ اپنے مضمون پر عبور تو رکھتا ہی ہے، ساتھ ہی بچّوں کو اپنے طور طریقوں پر ڈھال لیتا ہے۔ ویدک سوسائٹی میں تو بچوں کے لیے اُستاد کا وجود ایک دیوتا کی طرح ہوتا ہے کہ جسے بچے پوجنے لگتے ہیں اور اُس کی ہر بات کو سہی جانتے ہیں۔ اچھے اُستاد کو عام طور پر اس بات کی ضرورت نہیں پڑتی کہ وہ اپنے طلبہ کو ڈانٹ ڈپٹ، غصّہ اور جھنجھلاہٹ سے پیش آئے یا اُن کو سزا دے۔ اگر ایک اُستاد کا ہر کلاس میں یہی رویہ ہے تو یہ باتیں خود اُس کی خامیوں کو عیاں کرتی ہیں۔ جہاں تک اُردو میڈیم اسکولوںکا تعلق ہے، جب بھی کسی اسکول کی انتظامیہ سے سابقہ پڑا تو یہی سننے کو ملا کہ اچھے و تربیت یافتہ اُستاد بڑی دُشواری سے ملتے ہیں۔ اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ پہلی وجہ تو یہ کہ ہمارا اُردو میڈیم کا نظامِ تعلیم پورا کاپورا درہم برہم ہے۔ کہ جس میں اگر کوئی اُّستاد بن بھی جاتا ہے تو وہ اپنی قابلیت کی بنا پر اُستاد نہیں بنتا بلکہ امتحانوں میں نقل کر کے یا اس قسم کی دیگر باتوں سے جیسے کچھ پیسہ دے کے ڈگری خرید لینا وغیرہ سے ہی آگے بڑھتا ہے۔ لہٰذا اس قسم کا اُستاد بچوں کو کس طرح سے قابل بنا سکتا ہے؟ ایک اُردو میڈیم اسکول میں ایک عجیب واقعہ دیکھنے کو ملا کہ جب پرنسپل صاحب رائونڈ پر نکلے تو اُنہوں نے پایا کہ بریک یعنی آدھی چھٹّی کے بعد ایک اُستاد بجائے اپنی کلاس لینے کے اسٹاف روم میں قریب کے ہوٹل سے منگائی گئی نہاری کے چٹخارے لے رہے تھے۔ پرنسپل صاحب نے باز پرس کی تو حضرت اُستاد بولے، ’’توفوراً یہاں سے دفعہ ہوجا ہماری نہاری کا مزہ خراب نہ کر۔‘‘ اب جب اساتذہ کا یہ معیار ہو جائے گا تو وہ بچوں کو کیا پڑھائیںگے اور بچے اُن سے کیا تعلیم حاصل کریں گے۔اچھے اُستادوں کی کمی کی ایک دیگر وجہ یہ بھی ہے کہ اُن کو مناسب معاوضہ نہیں ملتا ۔ جو اُستاد ایمانداری و جفا کشی اور محنت کے ساتھ تدریس کے عمل میں سرگرم رہتے ہیں، اُن کو بھی مناسب تنخواہیں نہیں دی جاتیں لہٰذا ہوتا یہ ہے کہ کچھ عرصہ بعد وہ بھی عام و معمولی اُستادوں کی طرح ہی کام سے جی چُرانے لگتے ہیں۔ کچھ اساتذہ اپنی کم تنخواہ کی وجہ سے ٹیوشن کا کام شروع کر دیتے ہیں جس سے وہ اتنے تھک جاتے ہیں کہ اگلے روز جماعت میں آکر وہ اپنے فنِ تدریسی کا بہترین مظاہرہ نہیں کر پاتے۔
جہاں تک اساتذہ کے انتخاب کا تعلق ہے، کسی سفارش یا دوسری باتوں یا پیر پریشر کا لہاذ نہیں رکھنا چاہیے ایک ناقص اُستاد ہزار ہا طلبہ کی زندگی خراب کر سکتا ہے۔ اُسی طرح سے اگر اُستاد قابل ہو تو پوری ایک نسل اُس کی ذات سے فیضیاب ہوتی ہے۔ منجمنٹ کے لوگوں کو اس بات کا اشد دھیان رکھنا چاہیے کہ جس اُستاد کو اسکول میں پرنسپل کی جگہ دی گئی ہے، وہ اس کے لائق بھی ہے یا نہیں۔ عام طور سے ہندوستان کے تعلیمی قوانین کے مطابق ہوتا یہ ہے کہ سینیارٹی کے اعتبار سے کسی بھی اسکول میں پرنسپل کا تقرر ہوتا ہے۔ اس میں اکسر ایسا بھی ہوتا ہے کہ کچھ پرنسپل ناقص اور نالائق قسم کے کُرسی پر جم جاتے ہیں اور کئی ہزار بچوں کی زندگی کو برباد کر دیتے ہیں۔ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہو کہ پرنسپل نہ صرف سینیارٹی بلکہ صلاحیت کے اعتبار سے بھی قابلیت رکھتا ہو اور اپنے اسٹاف کے لوگوں میں اُس کی عزّت بھی ہو۔ اگر پرنسپل کے اندر کچھ خامیاں ہوںگی تو یہ ظاہر سی بات ہوگی کہ دیگر اساتذہ و اسٹاف اُس کے کنٹرول میں نہیں آئیںگے۔اچھے اُستاد کسی بھی تعلیمی ادارے کی شان ہوتے ہیں اور اُن کی اپنے طالبِ علموں و سماج میں بے تحاشہ عزّت بھی ہوتی ہے۔ (راقم مولانا آزاد کے پوتے ہیں)lll