از قلم:شیوراج سنگھ چوہان
زرعی ترقی اور کسانوں کی فلاح و بہبود ہماری اولین ترجیح ہے۔ اس اَّن داتا کی زندگی میں، جو ہمیں اناج فراہم کرکے ہماری زندگی کی باگ ڈور سنبھالتا ہے، خوشی اور خوشحالی لانے کا ہمارا عزم ہے ۔ ہم اس عہد کو پورا کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔ ہم نے کسانوں کی آمدنی بڑھانے کے لیے چھ نکاتی حکمت عملی بنائی ہے۔ پیداوار میں اضافہ، کاشتکاری کی لاگت کو کم کرنا، پیداوار کی مناسب قیمتوں کی فراہمی، قدرتی آفات میں مناسب مقدار میں ریلیف فراہم کرنا، زراعت کو متنوع بنانا اور قدرتی کاشتکاری کو فروغ دینا اس کے اہم پہلو ہیں۔ پیداوار بڑھانے اور اخراجات کم کرنے کے لیے سب سے اہم چیز اچھے بیج ہیں جو کم پانی اور خراب موسم میں بھی بہتر پیداوار کی صلاحیت کے حامل ہو ں۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے ایسے بیجوں کی 109 نئی اقسام کو قوم اور کسانوں کے نام وقف کیا ہے۔
گزشتہ 10 برسوں میں زراعت کا منظر نامہ تیزی سے بدلا ہے۔ عالمی درجہ حرارت میں اضافہ اور ماحولیاتی عدم توازن جیسے مسائل کے درمیان پیداواری صلاحیت بڑھانے کا چیلنج سامنے آ کھڑ ا ہوا ہے۔ اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے ہمارا ہدف اگلے پانچ برسوں میں موسم کے موافق فصلوں کی 1500 نئی اقسام تیارکرنا ہے۔ اس وقت کسانوں کی فلاح سائنس کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ مجھے اپنے زرعی سائنسدانوں پر فخر ہے جو آب و ہوا کے موافق اقسام تیار کر رہے ہیں۔ مجھے پورا یقین ہے کہ زراعت میں جو اختراعات کی جا رہی ہیں وہ زراعت اور کسانوں کی فلاح و بہبود کو یقینی بنائیں گی۔
ایک کسان ہونے کے ناطے میں اچھی طرح سمجھتا ہوں کہ اچھی پیداوار کے لیے اچھے بیج کتنے ضروری ہیں۔ اگر بیج کو بہتر اور مٹی اور موسم کی نوعیت کے مطابق بنایا جائے تو پیداوار میں غیر معمولی اضافہ ہوگا۔ مودی جی نے اس بات کو سمجھا اور وسیع وژن کے ساتھ اس سمت میں کام کرنے کی رہنمائی کی۔ تنوع ہندوستانی زراعت کی خاصیت ہے۔ یہاں تھوڑے فاصلے کے بعد کھیتی باڑی کا مزاج بدل جاتا ہے۔ جس طرح میدانی علاقوں میں کھیتی باڑی الگ ہے اسی طرح پہاڑی علاقوں میں کھیتی باڑی الگ ہے۔ ان تمام فَرقوں اور تغیرات کو مدنظر رکھتے ہوئے فصلوں کی 109 نئی اقسام جاری کی گئی ہیں۔ ان میں کھیتی کی 69 اقسام اور باغبانی کی 40 اقسام قوم کے لیے وقف کی گئی ہیں۔ مودی حکومت ہندوستان کو عالمی غذائیت کا مرکز بنانے اور شری ان ّ کو فروغ دینے کے لیے پوری طرح پُرعزم ہے۔
ہمارا عزم ہے کہ کسانوں کی محنت کا صحیح اندازہ لگایا جائے اور انہیں ان کی فصلوں کی مناسب قیمت ملنی چاہیے، اس کے لیے ہم کم سے کم امدادی قیمت پر خرید کر رہے ہیں۔ کسانوں کی آمدنی میں اضافہ ہماری ترجیح ہے اور پیداوار میں اضافے کے ساتھ ساتھ ہندوستان کو ایسی پیداوار کی بھی فکر ہے جو انسانی جسم اور مٹی کی صحت کے لیے بے ضر ر ہو۔ آج ہندوستان ایک نئے سبز انقلاب کا مشاہدہ کر رہا ہے۔ ہمارے خوراک فراہم کرنے والے بھی توانائی فراہم کرنے والے اور ایندھن فراہم کرنے والے بن رہے ہیں۔ مودی جی کی کوششوں سے کھیتی باڑی کے ساتھ ساتھ دیگر متعلقہ شعبے بشمول مویشی پروری ، شہد کی مکھیوں کی پرورش، ادویات سازی میں کام آنے والی کھیتی، پھولوں اور پھلوں کی کھیتی سمیت دیگر شعبوں کو مضبوط کیاجا رہا ہے۔
زراعت اور کسان پچھلی حکومتوں کی ترجیحات میں شامل نہیں تھے۔ وہیں مودی جی کی قیادت میں زراعت کے شعبے میں بے مثال ترقی ہوئی ہے۔ سال 2014-2013 میں وزارت زراعت کا بجٹ 27 ہزار 663 کروڑ روپے تھا جو 2025-2024 میں بڑھ کر 1 لاکھ 32 ہزار 470 کروڑ روپے ہو گیا ہے۔ یہ بجٹ صرف محکمہ زراعت کے لیے ہے۔ زراعت سے متعلقہ شعبوں اور کھاد پر سبسڈی کے لیے الگ بجٹ ہے۔ مودی حکومت کسانوں کو سستے داموں میں یوریا اور ڈی اے پی فراہم کر رہی ہے۔ یوریا پر حکومت کسانوں کو تقریباً 2100 روپے کی سبسڈی دے رہی ہے جبکہ ڈی اے پی کے ایک تھیلے پر 1083 روپے کی سبسڈی دی جا رہی ہے۔ وزیر اعظم کسان سمان ندھی کے ذریعے، کسان خود انحصار اور بااختیار ہوئے ہیں۔ فصلوں کے نقصان کی صورت میں بھی فصل بیمہ اسکیم کسانوں کے لیے حفاظتی ڈھال ہے۔
کسانوں کو بااختیار بنانے کے لیے مودی حکومت میں بیج سے لے کر مارکیٹ تک ہر وہ فیصلہ کیا گیا ہے جو کسانوں کے لیے کھیتی کو آسان بنائے۔ ان کے مسائل کو کم کرے اور منافع میں اضافہ کرے۔ اس سلسلے میں ایک لاکھ کروڑ روپے کے زرعی بنیادی ڈھانچہ فنڈ کے ذریعے زراعت سے متعلق بنیادی ڈھانچہ تیار کیا جا رہا ہے۔ ملک بھر میں 700 سے زیادہ کرشی وگیان کیندر کسانوں کو سائنس کے ساتھ جوڑ رہے ہیں۔ دور دراز علاقوں میں ہماری ماؤں اور بہنوں کو بھی نمو ڈرون دیدی اسکیم کے ذریعے ٹیکنالوجی سے جوڑا جا رہا ہے۔ کرشی سکھیوں کی تربیت کے پہلے مرحلے میں اب تک 35 ہزار کرشی سکھیوں کو تربیت دی جا چکی ہے۔
مودی جی کا وژن یہ ہے کہ ہندوستان کو زراعت میں خود کفیل ہونا چاہیے۔ اس سمت میں بھی حکمت عملی تیار کرکے کام کیا جا رہا ہے۔ اگلے پانچ برسوں میں ہم 18000 کروڑ روپے کی لاگت سے 100 ایکسپورٹ پر مبنی باغبانی کلسٹر بنائیں گے۔ کسانوں کی مارکیٹ تک رسائی کو بہتر بنانے کے لیے 1500 سے زیادہ منڈیوں کو مربوط کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ، وہ 6,800 کروڑ روپے کی لاگت سے تلہن کا مشن شروع کر رہے ہیں۔ سبزیوں کا پروڈکشن کلسٹر بنانے کی بھی تیاریاں ہیں۔ اس سے چھوٹے کسانوں کو نئی منڈیاں اور سبزیوں، پھلوں اور دیگر پیداوار کی بہتر قیمتیں ملیں گی۔ حکومت نے یہ بھی طے کیا ہے کہ دالوں کی فصلوں میں تور، اُڑد اور دال کی پوری خریداری ایم ایس پی پر کی جائے گی۔
یجروید میں بیان کیا گیا ہے‘اننان پتائے نمہ کھیترانام پتائے نمہ’ ہے یعنی اناج کے مالک اور کھیتوں کے مالک ان داتاؤں کو سلام۔ کرشی پراشر میں بھی اس کا ذکر ہے – اناج زندگی ہے، اناج ہی طاقت ہے اور اناج ہی تمام مقاصد کے حصول کا ذریعہ ہے۔ اس ملک کا وجود کسانوں کے بغیر نامکمل ہے۔ اسی لیے ہمارے قدیم صحیفوں میں بھی کسانوں کی تعریف کی گئی ہے۔ زراعت ہندوستانی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے اور کسان اس کی روح ہیں۔ ہمارے نزدیک کسان کی خدمت کرنا خدا کی عبادت ہے۔ آج وزیر اعظم مودی جی کے طویل المدتی وژن اور ہمہ جہت، ہمہ گیر، جامع اور ہر طبقے پر مرکوز ترقی کی سوچ کے ساتھ، ہندوستان اور ہندوستانی زراعت مسلسل آگے بڑھ رہی ہے اور مجھے پورا بھروسہ ہے کہ ہمارے کسان بھائی اور بہنیں بھی آگے بڑھیں گے۔ آزادی کے سنہری دور میں خود کفیل اور خوشحال بنیں گے، اس سے ملک کے اناج کے ذخیرے بھرتے رہیں گے۔
(مضمون نگار حکومت ہند میں زراعت، کسانوں کی بہبود اور دیہی ترقی کے وزیر ہیں)