بلوِندرسنگھ
رسرچ اسکالر شعبۂ اُردو بنارس ہندو یونیورسٹی وارنسی
ہولی ہندوؤں کا ایک مقدس قومی اور مذہبی تہوار ہے۔ یہ تہوار عوام کا پسندیدہ تہوار ہے۔ اسے فصلوں کا تہوار بھی کہتے ہیں۔ بھگوان شری کرشن کے مخصوص کردار سے بھی یہ تہوار منسوب ہے۔ مثلاً ان کے تعلق سے ایک روایت ہے کہ انہوں نے ایک راکھشنی کو مار ڈالا تھا۔ جو بڑی بے رحم اور ظالم تھی۔ اس کے ظلم سے نجات پانے کی مسرت میں عوام نے رنگ و تاچ کی محفل سجائی تھی اور بڑے دھوم دھام سے جشن منایا تھا۔ جنوبی ہند میں عورتیں اس تہوار کے موقع پر مخصوص گیت گاتی ہیں، جن کے پس منظر میں ’کا ما‘کی بیوی’ رتی‘ کے سوگ کا اعادہ کیا جاتا ہے۔ جسے محبت کی دیوی کہا جاتا ہے۔ ان کی بیوی کے غم سے یہ گیت منسوب ہوتے ہیں۔ بھگوان شیو کی بھگتی میں خلل ڈالنے کی علت میں اس کا قتل ہوا تھا۔ متھرا جو بھگوان شری کرشن کی بھگتی اور پوجا کا ایک اہم مرکز ہے، ہولی کا تہواربڑی شان و شوکت سے منایا جاتا ہے۔ اس تہوار کے موقع پر دور دور سے لوگ یہاں آکر اس میں شرکت کرتے ہیں ۔
ہندوئوں کے مذہبی صحیفے پُر ان میں ہولی کو بھگوان(ایشور) کے بھگتوں کی فتح کا تہوار کہا گیا ہے۔شری مد بھگوت گیِتا اور ہندو دیو مالا میں جگہ جگہ اس بات کا ذکر کیا گیا ہے، کہ اس دن بھگوان بھگتوں کے بہت قریب ہو جاتے ہیں۔ بھگتوں کا ایشورپرمضبوط بھروسا ،جس سے بڑی بڑی آفتیں اور بلائیں ٹل جاتی ہیں اور اس کی بدولت وہ مشکل سے مشکل آزمائش سے گزر جاتے ہیں۔ پُران میں ہرنا کیشپ نامی ایک راجہ کا واقعہ بیان کیا گیا ہے جو بڑا سرکش اور ظالم تھا۔ وہ اپنی طاقت اور شان و شوکت کے تکبر میں خدا کا منکر ہو گیا تھا۔ عوام بھی اس ظلم سے تنگ آچکی تھی۔ اس کا ایک لڑکا پر ہلاد نامی ،جو بھگت تھا،اورایشور کی بھگتی میں لین تھا۔ہر ناکشپ کو اس سے سخت نفرت ہو گئی اور اس نے اپنے بیٹے پر طرح طرح کے ظلم ڈھانے شروع کر دیئے ،مگر پرہلاد کے چٹان کی طرح مضبوط ارادہ کو متزلزل نہ کر سکا۔ اس نے پر ہلا د کو لوہے کے گرم گرم ستونوں سے بندھوایا۔ اونچے پہاڑوں پر سے نیچے پھنکوایا مگر پرہلاد کو کو ئی نقصان نہیںپہنچا۔ اپنے بیٹے کو بھگوان کی بھگتی سے باز رکھنے کے لیے ہرنا کیشپ نے وہ سب کچھ کیا جو اس سے ممکن ہو سکتا تھا۔ لیکن اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ بڑے سوچ و فکرکے بعد اس کے ذہن میں خیال آیا اور اس نے پر ہلاد کو اپنی بہن ہو لیکا کے ساتھ زندہ جلا دینے کا منصوبہ بنایا۔ ہولیکا کے متعلق روایت ہے کہ وہ مافوق الفطرت طاقت کی مالک تھی اور آگ اسے جلا نہیں سکتی تھی چنانچہ پر ہلا دکو ہو لیکا کے ساتھ بٹھا کر آگ لگا دی گئی۔ لیکن آگ نے پر ہلاد کو چھوا تک نہیں اور ہو لیکا جسے آگ جلا نہیں سکتی تھی جل کر راکھ ہوگئی۔ اس کے تھوڑے ہی عرصہ بعد ہر ناکیشپ کو بھگوان شری کرشن نے نرسنگھ کا روپ لے کر ہرنا کیشپ کا خاتمہ کر دیا۔ تب ہی سے ہولی کے تہوار کا آغاز ہوا۔ اسی دن کی یاد میں بازاروں گلیوں، شاہراہوں پر ہولی جلائی جاتی ہے۔ اس ضمن میں پُران میں کہا گیا ہے کہ ظلم کے خاتمہ کی مسرت میں اس تہوار کا آغاز ہوا ہے۔ اور ہولیکا کی بجائے ہولی سے منسوب ہوا ہے۔
اس جشن کو ہولی کے نام سے منسوب کرنے کے تعلق سے ہندوؤں میں ایک اور عقیدہ پایا جاتا ہے، جس میں اس تہوار کی اہمیت اور افادیت بتلائی گئی ہے۔ سنسکرت میں ادھ بھنے ہوئے اناج کو ہو لک کہا جاتا ہے ۔ان ایام میں جب گیہوں اور چنے وغیرہ کی فصلیں پک کر تیار ہو جاتی ہیںتو اناج کے چند دانوں کو ہندو اپنے ہون میں ڈالتے ہیں ۔جہاں تک ہون کا تعلق ہے ،ہندوؤں میں یہ خیال پایا جاتا ہے کہ بارش اور سردی کے درمیان دایو منڈل(دیوی یا دیوتا کی جگہ) خراب ہو چکا ہوتا ہے۔ اس کو پاک وصاف کرنے کے لیے ہون کیا جاتا ہے۔ ہولی کی مقدس آگ کی پوجا کرنے کے بعد جُو اور گندم وغیرہ کی آہوتی دی جاتی ہے۔
ہولی کا جشن موسم سرما کے اختتام پر بھاگن شری پور نمائشی کو منایا جاتا ہے، جبکہ سردی سے منجمد انسانی خون کو ترو تازگی بخشے رنگ و گلال سے ہوئی کھیلنے کے مواقع فراہم ہوتے ہیں۔ موسم کی تبدیلی پر انسان میں نئے رنگ میں ڈوب جانے اور کسی کو قوس قزح کے رنگوں میں شرابور کر دینے کی خواہش انگڑائیاں لینے لگتی ہے۔ جذبے کی اس مناسبت سے ہولی کے تہوار کو خوشیوں اور مسرتوں کا تہوار کہا گیا ہے۔ اس تہوار کے موقع پر جو مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں وہ بڑے دلچسپ اور پر لطف ہوتے ہیں لوگ خوشیوں میں ڈوب کر ہولی کھیلتے ہیں پچکاریوں سے بے شمار رنگوں کی پھوار عجب سماں باندھتی ہے۔ ہولی میں ذات پات، رنگ ونسل کی سب لعنتیں دھل جاتی ہیں۔ اسی لیے ہولی کو مساوات کا تہوار کہا گیا ہے۔ بھگوان شری کرشن نے خود ایسی ہی ہولی منانے کی تلقین کی ہے۔ وہ خود بھی برج کے رہنے والوں کے ساتھ اسی طرح کی ہولی منایا کرتے تھے۔ شری کرشن بھگوان کے تعلق سے یوں تو بہت سی داستانیں مشہور ہیں۔ لیکن یہ واقعہ ان کی زندگی کا ایک دلچسپ واقعہ ہے۔ بھگوان شری کرشن علم و عرفان اور تجریہ کا اعلی نمو نہ ہیں۔ برج کی الڑھ دوشیزائیں ان پر جان چھڑکتی تھیں۔ عظیم شاعر رسکھان نے اس واقعہ کو بڑی خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔
شیش ناگ، گنیش، مہیش، سورج اندرجس کی ہمیشہ مدح کرتے آئے ہیں اور جیسے ویدوں نے اول و آخری، ظاہر و باطن، روح کل اور برتر از قیاس و گمان کہا ہے۔ نارد منی سے لے کرمہارشی ویاس تک کی زبانیں جس کی حمد و ثنا میں سرخ ہیں مگر وہ اس کی چاہت کو نہیں پاسکے۔ اس کو اہیر کی چھور کریاں چھاچھ سے بھرے ہوئے پیالے دکھا کر انگلیوں پر نچایا کرتی تھیں۔
ہولی کی اہمیت اس لیے بھی بڑھ جاتی ہے کہ خود بھگوان شری کرشن نے برج کے رہنے والوں اور گوپیوں کے ساتھ ہولی کھیلی تھی۔ اسی لیے آج بھی برج کی ہولی بڑی مشہور ہے۔ اس کے علاوہ متھرا،انند گام ،بر ندابن، برسانہ،بنارس اور گوکل کی ہولی بھی تاریخی اہمیت رکھتی ہے۔ راجہ بھرتری کا تیاگ اور بے مثال قربانی آج بھی زندہ جاوید ہے۔ ان کے تعلق سے کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے دور حکومت میں ہولی کا تہوارہ بڑی شان و شوکت سے منا یا کرتے تھے ،اور خود بھی اپنے عوام کے ساتھ مل کر ہولی کھیلا کرتے تھے۔ وہ بھکتی کے رنگ میں اس قدر ڈوب گے کہ انھوں نے اپنا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر سنیاس لے لیا۔ بھر تری کی لکھی ہوئی کتابوں کو ہندو بڑی توقیر کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔ بھگتی مارگ(عبادت کے راستوں) کی اہم کتابوں میں انہیں شمار کیا جاتا ہے۔
اتر پردیش کے پوربی علاقوں میں ہولی کے تہوار پر مخصوص لوک گیت گائے جاتے ہیں۔ ڈھولک پر ایک مخصوص گیت بجاتے ہوئے مزاحیہ گیت بھی گائے جاتے ہیں۔ گیت گاتے ہوئے بھری ہوئی رنگ کی پچکاریوں سے بے پناہ رنگ کھیلا جاتے ہیں۔ بنگالیوں کے لیے بھی ہولی کا تہوار بڑا اہم ہوتا ہے۔ اس دن سنت چیتنیہ مہا پربھو پیدا ہوئے تھے ۔بنگالیوں کے عقیدہ کے مطابق مہا پر بھو کو بھگتی اور ریاضت کا اوتار سمجھا جاتا ہے اور ہولی کے دن اُن کی پوجا کی جاتی ہے۔ ان کے بھگتی کے گیت اور بھجن جو کو سارے بنگال میں مشہور ہیں۔ ہولی پر خاص طور سے گائے جاتے ہیں۔ ہندو شاستروں میں حیات انسانی کو بہت ہی مختصر اور فانی بتایا گیا اور اس مختصر اور فانی زندگی میں زمین پر فساد برپا نہ کرنے دوسروں کو تکلیف نہ پہنچانے کی سختی سے ہدایت کی گئی ہے ۔اس لیے ہر سال ہولی کے موقع پر ہندو سب سے مساوی برتاؤ کرنے، اپنی روح اور ضمیر کو گندگی سے بچانے اور اچھے انسان بننے کا عہد کرتے ہیں اور آپس میں خلوص و محبت اور اتحاد و اتفاق سے رہنے کی تجدید کرتے ہیں۔
ہولی کو موسم بہار کی عید بھی کہا جاتا ہے۔ بعض مقامات پر جشن ہولی کے موقع پر دیوی اور دیوتاؤں کے رفقوں کی آرائش کی جاتی ہے۔ ہولی جلانے کے موقع پر خصوصیت کے ساتھ دیو استھان کی آرائش و زیبائش اور رتھوں کی نمائش کی جاتی ہے۔ اسی مناسبت سے اس جشن کو’’ ڈولایا ترا‘‘بھی کہا جاتا ہے۔ پھاگن کے مہینہ میں پو نم سے پہلے تین روز تک یہ جشن منایا جاتا ہے۔ مکرہ سنکراتی میں جب کہ سورج شمال کی جانب مائل ہوتا ہے ۔یہ تہوار مناجاتا ہے الہ آباد کی سالانہ یاترا بھی اسی موقع پر ہوتی ہے ۔انہی ایام میں جنوبی ہند میں پونگل کا تہوار منایا جاتا ہے ۔نئے سال کی آمد اور ہولی کے درمیان سرسوتی ماتا کی پوجا کی جاتی ہے ۔ سرسوتی ماتا کو علم و ہنر کی دیوی کہا جاتا ہے ۔
Balvinder Singh
Research Scholar Of Urdu BHU,
Varanasi-221005