ہم نے ان پر ظلم نہیں کیا بلکہ انہوں نے اپنے اوپر ظلم کیا

0
0
۰۰۰
ریاض فردوسی
9968012976
۰۰۰
انسان جب بدعت کو بدعت نہیں سمجھتا تب وہ اسی پر عمل کرتا رہتا ہے اور پھر  اسے سنت پر عمل کرنے کی توفیق نہیں ہوتی۔ ٹھیک اسی طرح انسان جب اس پر ہو رہے خدا کے عذاب کو عذاب نہیں سمجھتا اور اس کی جگہ یہ سمجھتا ہے کہ اس پر ظلم ہو رہا ہے، وہ معصوم ہے، وہ خطا کار نہیں ہے بلکہ  مظلوم  ہے، تو وہ  اپنی بداعمالیوں سے بیخبر رہتا ہے اور کبھی اپنی اصلاح نہیں کرتا اور وہ خدا کی عذاب میں مبتلا رہتا ہے۔
 یہ بات تو میں نے اصول میں لکھی ہے اور سبھی  تعلیم یافتہ اور اہل  فہم اور اہل بصیرت  معلوم کر سکتے ہیں کہ ہیں اس اصول کا اطلاق کہاں ہوتا ہے۔اللہ تعالی قرآن مجید میں جب قوموں کو عذاب دینے کا واقعہ بیان فرمایا تو اس نے کہا کہ ہم نے ان پر ظلم نہیں کیا بلکہ وہ خود اپنے آپ پر ظلم کیے یعنی خود ان کے بداعمالیوں کی وجہ سے انہیں سزا دی گئی۔
رسولوں کے زمانہ میں جن قوموں کو سزا دی گئی انکے بداعمالیوں کی نوعیت دو طرح کی تھی۔
ایک عقائد میں خرابی تھی یعنی شرک کے مرتکب تھے اور دوسرے انکے اعمال میں اخلاقی پستی اور گراوٹ آ چکی تھی۔
جب رسول اپنی اپنی قوم  کو انکے بداعمالیوں کی طرف متوجہ کرتے تو وہ قوم پیغمبر کی بات ماننے کے لیے تیار ہی نہیں ہوتے بلکہ اپنی عقائد اور اعمال کا دفاع کرتے اور مدافعت میں ایک غلط استدلال پیش کرتے مثلاً وہ پیغمبر سے کہتیکہ جن معبودوں کی عبادت آپ ہم کو چھوڑ نے کو بول رہے ہیں تو ہم نے خود اپنے آباؤاجداد کو ان معبودوں کی بندگی کرتے ہوئے پایا۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ  وہ قوم اپنے عقائد کی اصلاح کرتی لیکن بجائے اصلاح کے ایک غلط استدلال کے بل بوتے پر اپنے فاسد عقائد پر جمے رہے۔رسول بار بار اپنی قوم کو تنبیہ کرتے کہ  تمہارے مشرکانہ عقائد اور اعمال کے لیے اللہ تعالی کی طرف سے کوئی سند بھی تمہارے پاس نہیں ہے لیکن وہ قوم جہالت سے نکلنے کے لیے تیار ہی نہیں ہوتی اور رسول کی بات کا انکار کرتے اور اپنے اسلاف کی تقلید کرتے۔اسی طرح جب شعیب علیہ السلام نے اہل مدین کو ناپ تول میں کمی کرنے سے منع کیا تو ایسا نہیں ہوا کہ وہ قوم کم تولنا بند کر دی بلکہ ڈھٹائی کے ساتھ پیغمبر کو یہ جواب دیا کہ کیا ہم اپنے مال میں اپنی مرضی کے مطابق تصرف نہیں کر سکتے؟ جن قوموں کو رسولوں نے صحیح عقائد کی دعوت دی اور انہیں غلط کاموں کے کرنے سے منع کیا وہ قومیں اگر خدا کی دی ہوئی عقل اور بصیرت کی روشنی میں اپنے عقائد اور اعمال کا جائزہ لیتے تو یقیناً انکو انکے عقائد اور اعمال غلط دکھائی دیتے لیکن ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے اپنی اصلاح نہیں کر سکے۔ وہ اس زعم میں مبتلا تھے کہ ہمارے عقائد اور اعمال سب درست ہیں۔ ٹھیک  ایسا ہی حال یہودیوں کا بھی تھا۔ بعثت رسالت ماب  سے پہلے سے ہی یہودی اپنے آپ کو Chosen People, Chosen Nation کہتے،لیکن ہوا کیا،ہوا یہ کہ  پوری یہودی قوم کو سب سے پہلے Assyrians نے بری طرح سے پٹائی کی اور ان کے دس قبیلوں کا آج تک پتہ نہیں چلا۔وہ سب کے سب اس زمین سے غائب ہو گیے۔پھر یہودہ اور بنیامین کے قبائل کو بابل کے بادشاہ بخت نصر نے پٹایی کی۔
حیرت کی بات ہے جس قوم کو اللہ تعالی نے ماضی میں عزت بخشی،فضیلت عطا کیا،قوموں کے لیڈر (Leader of the nations) بنایا گیا،جن کے بارے میں اللہ تعالی نے خود فرمایا ،اس قوم کی  پٹایی مشرک قوموں کے ذریعہ کی گئی۔ایسا نہیں تھا کہ  Assyrians اور Chaldeans اللہ تعالی کے چہیتے تھے۔بس اس زمانہ میں یہ ہی سپر پاور تھیاور ان دونوں قوموں کو یہودیوں کے خلاف اللہ تعالی نے اپنی عذاب کا آلہ بنایا اور ان کے خلاف استعمال کیا۔
اس سے بڑی ذلت اور بیعزتی یہودیوں کے لیے اور کیا ہو سکتی ہے۔ان یہودیوں کی غلطی کیا تھی؟
ان یہودیوں نے اپنے پیغمبروں کی بات نہیں سنی،ان کے انزار کا انہوں نے مذاق اڑایا،پیغمبروں کی تکذیب کی اور حد تو یہ ہوگء کی اپنے ہی پیغمبروں کا قتل کیا۔ پھر جب عیسیٰ علیہ السلام کی رسالت کا دور آیا تو ان یہودیوں نے عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ پر بہتان باندھا،عیسیٰ علیہ السلام پر اللہ کا بیٹا کہنے کا الزام لگایا یہاں تک کہ ان کو رومن عدالت سے موت کی سزا دلوا دیا لیکن اللہ تعالی نے اپنے رسول کی جان کی خود حفاظت فرمائی۔اس جرم کی سزا ایک بار پھر ان یہودیوں کو دی گئی۔ایک بار پھر ایک مشرک قوم یعنی رومیوں نے سال 70 میں ان کی دھلائی کی۔
رسالت کا انکار کوئی معمولی جرم نہیں ہے،شرک کے بعد یہ جرم دوسرے نمبر پر آتا ہے۔اتنا کچھ ہونے کے بعد یہ لوگ سدھرے نہیں۔ان کے صحیفوں میں صاف حضور  کی آمد کی پیشنگوئی لکھی ہوئی ہے لیکن ان لوگوں نے حضور کی رسالت کا بھی انکار کر دیا اور حضور  کے حیات طیبہ میں بھی ان کا دعویٰ تھا کہ ہم اللہ تعالی کے بیٹے اور چہیتے ہیں۔یہ لوگ اپنی قومی زعم سے اب تک باہر نہیں نکل پایے تھے۔ان کا مرض Chronic ہو گیا تھا لیکن علاج کے لیے بھی تیار نہیں تھے۔بہرکیف محمد مصطفی ? اور انکے ساتھیوں کے ہاتھوں ان کو بھی سزا دی گئی۔جدید دور میں جرمنیوں کے ہاتھوں یہ لوگ پیٹے گیے۔پٹنے کی وجہ یہی تھی کہ ان لوگوں نے اپنی اصلاح نہیں کی۔اب ہماری باری ہے۔
اب ہم پٹ ریے ہیں۔اب ہمیں امریکہ پیٹ رہا ہے۔میانمار میں چند سالوں پہلے بدھ مت کے ماننے والے ایک مشرک قوم نے وہاں کے مسلمانوں کو مارا پیٹا اور ستایا۔
شام اور عراق کے مسلمانوں کی زندگیوں کو امریکہ نے برباد کیا۔خود ہم جس ملک میں رہتے ہیں وہاں ہمارے ساتھ کیا ہو رہا ہے ہم اپنی انکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ کیا اللہ تعالی یہ پسند کرے گا کہ جن جگہوں پر مسلمان اس کی عبادت کرتے ہیں اور جن جگہوں پر اللہ تعالی  کے دین کی تعلیم دی جا رہی ہو وہ مقامات برباد کر دیا جائے،لیکن یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔ہم بھی ایک قومی زعم  کا شکار ہیں اور وہ یہ کہ ہم خیر امت ہیں۔
اللہ تعالی نے یہ لقب صحابہ کرام کی جماعت کو انکے صحیح عقائد،اعمال صالحہ،دین کی دعوت اور دین کی نصرت کے وجہ سے عطا کیا تھا اور  آج ہم اس لقب کا استعمال اپنے لیے کر رہے ہیں حالانکہ ہم کبھی یہ نہیں سوچتے کہ ہم اس لقب کے حقدار ہیں بھی یا نہیں؟
سورہ سبا آیت نمبر 35 میں اللہ تعالی نے ایک قوم کے آسودہ اور خوشحال لوگوں کے ایک غلط عقیدہ کا نقل کیا۔ان لوگوں کے پاس مال اور اولاد کی کثرت تھی۔ اسی کثرت مال و دولت کو انہوں نے  دلیل بنایا کہ ان پر کبھی عذاب نہیں ہوگا۔”اور کہنے  لگے ہم زیادہ ہیں مال اور اولاد میں اور ہم پر آفت نہیں آنے والی”۔
بظاہر ان کے قول کا مطلب یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ہم قابل عذاب ہوتے تو ہمیں اتنی دولت و عزت کیوں دیتا،لیکن اللہ تعالی نے آگے کی آیت میں ان مترفین لوگوں کے اس دلیل کو خارج کر دیا کہ لوگوں کے پاس کثرت مال و اولاد کا ہونا  لازماً اس بات کی نشاندہی نہیں ہے کہ وہ اللہ تعالی کے یہاں مکرم و مقبول ہے۔اللہ کے نزدیک مقبولیت کا مدار صرف ایمان اور عمل صالح پر ہے۔
ارشادِ باری تعالی ہے”اور تمہارا مال اور اولاد ایسی چیز نہیں کہ تم کو ہمارا مقرب بنا دیں۔ہاں (ہمارا مقرب وہ ہے) جو ایمان لایا اور عمل نیک کرتا رہا۔ایسے ہی لوگوں کو ان کے اعمال کے سبب دگنا بدلہ ملے گا اور وہ خاطر جمع سے بالاخانوں میں بیٹھے ہوں گے”( سورہ سبا آیت نمبر 37)۔
یعنی کوئی فرد ہو یا قوم تقرب الا اللہ کا معیار عقیدہ صحیحیہ اور اعمال صالحہ  ہے،اور اسی کے عدم موجودگی سے قوم یا فرد اللہ تعالی کے عذاب کا مستحق ہو جاتی ہے۔پھر  اللہ تعالی اسے آسمانی آفت سے عذاب دینا ہے یا وقت کے کسی سپر پاور سے قوم کی پیٹایی کروانی ہے،یہ فیصلہ اللہ تعالی کرتا ہے۔
سورہ کہف میں اللہ تعالی نے دو ساتھیوں کا ایک واقعہ بیان فرمایا۔ایک کے پاس پھلوں کا باغ تھا۔وہ اپنے رب کے ساتھ  شرک کرتا تھا اور قیامت برپا ہونے پر یقین بھی نہیں کرتا تھا اور یہ بھی کہتا کہ بالفرض اگر قیامت یو بھی گیی تو وہاں بھی وہ اس سے بہتر مقام پایے گا۔ ساتھ ہی ساتھ وہ اپنے ساتھی کی یہ بول کر تحقیر کرتا کہ مال و افراد میں وہ اس سے بہتر ہے۔ حالانکہ اس کا ساتھی جو خدا پرست اور متقی تھا اسے سمجھاتا رہا لیکن وہ اپنے خیالات سے باز نہیں آیا اور پھر ایک دن اللہ تعالی کا عذاب آیا اور اسکا پورا کا پورا باغ برباد ہو کر رہ گیا۔اس پورے واقعہ میں اس شخص پر جو عذاب الہی ایا اس کے چند ہی اسباب تھے۔ رب کے ساتھ شرک کرنا، آخرت کا انکار اور مال و افراد کی کثرت سے پیدا شدہ استکبار جس کے نتیجے میں وہ اپنے ساتھی کی تحقیر کرتا تھا۔قرآن مجید نے اس شخص کے کسی اور خرابیوں کا بیان ہی نہیں کیا مثلاً وہ شرابی تھا، زانی تھا وغیرہ۔بس دو تین جرائم کے پاداش میں اس پر اللہ تعالی کا عذاب آ گیا۔اسی سے ملتا جلتا ایک اور  باغ والے کا واقعہ سورہ القلم میں بیان یوا ہے۔باغ کا جو مالک تھا وہ بہت ہی حریص تھا۔ وہ اللہ تعالی کی عطاکردہ نعمت میں سے مسکینوں کا حق بھی نہیں دیتا تھا۔بس ایک دن اللہ تعالی کا عذاب آیا اور اس کا پورا باغ کٹی ہوئی فصل کی مانند ہو گیا۔ یہاں بھی اس باغ والے پر عذاب جس اسباب  سے آیے وہ یہی تھے کہ وہ شخص مستکبر تھا،اپنے رب کی تسبیح نہیں کرتا اور مسکینوں کا حق ادا نہیں کرتا۔
قران مجید کے اس طرح کی مثالوں سے یہ بتانا مقصود ہے کہ قوموں پر جو عذاب آتی ہے وہ گناہوں کی وجہ سے آتی ہے۔ اللہ تعالی کسی قوم کی ہلاکت سے متعلق فرماتا ہے فاہلکناھم بذنوبھم۔ کیا آج دنیا میں ایسی بھی قوم بشمول مسلمانوں کے بھی موجود ہے جو یہ دعویٰ کر سکے کہ وہ گناہ گار نہیں ہے۔تو اگر کسی قوم پر آفت یا مصیبت آتی ہے تو بجائے شکوہ شکایت اس قوم کو اپنے اندر جھانکنے کی ضرورت ہے کہ اس سے کون کون سے گناہ سرزرد ہویے ہیں۔
جب بنی اسرائیل کو اللہ تعالی نے سزا دینے کا فیصلہ کیا تو فرمایا:ہم نے تمہارے مقابلے پر اپنے ایسے بندے اْٹھائے جو نہایت زور آور تھے اور وہ تمہارے ملک میں گھْس کر ہر طرف پھیل گئے۔ ماضی میں عراق کا بادشاہ بخت نصر  کے ذریعہ یہودیوں کو سزا دی اور دور جدید میں جرمنی کے چانسلر ہٹلر کے ہاتھوں۔اس لیے سزایافتہ قوم کو سزا دینی والی وقت کی عالمی قوت  کے خلاف مظاہرہ کرنے، ریلی نکالنے کے بجائے اپنے گناہوں اور غلطیوں کو ٹٹولے اور اس رب کی طرف رجوع کرنا چاہیے جس نے اس عالمی  قوت کو سزا دینے کے لیے اس قوم کے خلاف بھیجا۔
قرآن مجید میں ایک عالمگیر سنت الہی کا بیان ہے جس سے کوئی بھی گناہ گار قوم مستشنٰی نہیں ہے:اور  کوئی بستی ایسی نہیں ہے جس کو قیامت سے پہلے ہم ہلاک نہ کر چھوڑیں یا اس کو کوئی سخت عذاب نہ دیں۔یہ بات کتاب میں لکھی ہوئی ہے۔
ٔٔٔٔٔٔٔ٭٭٭
FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا