اسامہ عاقل حافظ عصمت اللہ
9534677175
۰۰۰۰۰۰ ایک سانس بھی پو ری نہیں ہو تی ، تیرے خیالوں کے بنا تم نے یہ کیسے سو چا کہ زندگی گذار دیں گے تیرے بنا ارے اس بیڈ نمبر پانچ کا مریض کہاں گیا ؟میں اس لڑ کے سے تنگ آگئی ہوں ، جب بھی میں ڈیوٹی پر آتی ہوں کبھی بیڈ پر نہیں رہتا ، نرس نغمہ کافی غصے میں بو لی۔ آنٹی میں ابھی ڈھونڈھ کر لا تی ہوں ، اک پیاری سی آواز میں نرس نغمہ کا سارا غصہ ٹھنڈا کر دیا ۔ جب انہوں نے پیچھے کی طرف مڑ کر دیکھا تو بیڈ نمبر آٹھ کے مریض کی بیٹی فرحانہ کھڑی تھی ۔ فر حانہ نے باہر آکر دیکھا پھر پو را اسپتا ل چھان مارا ، پر اسے وہ کہیں دکھائی نہیں دیا اور تھک ہار کر واپس جا ہی رہی تھی کہ اس کی نظر بغل کے کینٹین پڑ گئی ، تو دیکھا کہ وہ جناب تو وہاں آرام فر ما رہے تھے اور گر ما گرم چا ئے پی رہے تھے ۔ فر حانہ اس کے اپس گئی اور دھیرے سے بو لی ، آپ کو نرس بلا رہی ہے ۔ اس نے پیچھے گھوم کر دیکھا سفید کرتا سلوار نیلا دوپٹہ لئے سانولی مگر تیکھے نین نقشہ والی لڑکی کھڑی ہو ئی تھی ۔ اس نے اپنے بالوں کی لمبی چو ٹی بنا ئی ہو ئی تھی ۔ ماتھے پر بندی، آنکھوں میں بھرا پڑا کاجل ، ہا تھوں میں رنگ برنگی چوڑیوں کی کھنک ۔ وہ بڑے شاعرانہ انداز میں بو لا ! ارے چھو رئے یہ نرس ورس کی باتیں آپ کو دیکھ کر میرے ذہن میں تو یہی خیال آیا ہے ….ماشا ء اللہ ….آپ بھی نا، کہتے ہو ئے فر حانہ وہاں سے شر ما کر بھا گ آئی ۔اور سیدھے روم میں جا کر آئنے کے سامنے دونوں ہا تھوں سے اپنا چہرہ ڈھک لیا ۔ پھر ہاتھوں کو ملتے اپنے چہرے کو صاف کیا اور بالوں کو قرینے سے سنوارتے ہوئے با ہر آگئی ۔ تب تک وہ مریض جس کا نام صادق تھا ، وہ واپس آچکا تھا ۔ فر حانہ گھبرا کر دوسری طرف منہ کر کے بیٹھ گئی ، صادق نے دیکھا کہ فرحانہ کسی بھی طرح کی بات کرنے کو تیار نہیں ہے ، تو اس نے سوچا کیوں نہ پہلے اس کی امی سے بات کی جا ئے فرحانہ کی ماں کو ملیریا ہو ا تھاجس سے انہیں اسپتال میں بھرتی ہوناپڑاتھا صادق کو کئی دنوں سے بخار نہ اترنے کی وجہ سے اس کی ماں نے اسپتال میں داخل کرایا تھا صادق کی فرحانہ کی امی سے کا فی گھل مل گیا ۔ پر یوں ہی دونوں کو کچھ ہی دنوں بعد چھٹی مللنی تھی مگر تب تک صادق اور فر حانہ اچھے دوست بن چکے تھے ۔ فر حانہ دسویں جماعت میں پڑھتی تھی اور صادق بارہویں جماعت میں پڑھتا تھا ۔ دونوں کے اسکول بھی آمنے سامنے تھے ۔ ایک دن اسکول سے آتے وقت دونوںکی ملاقات ہو گئی ، دونوں ہی ایک دوسرے کو دیکھ کر خوش ہوئے ۔ان کی دوستی اور گہری ہو تی گئی ۔ اسی بیچ فرحانہ کبھی کبھار صادق کے گھر بھی جانے لگی پر وہ صادق کوا پنے گھر کبھی نہیں لے گئی ۔ ایسے ہی دو سال بیت گئے ، پتہ ہی نہیں چلا اب یہ دوستی عشق میں بدل کر رفتہ رفتہ پر وان چڑھنے لگی ۔ ایک دن جب فر حانہ کالج سے گھر میں داخل ہو ئی تو اسے دیکھتے ہی امی چلاتی ہو ئی بولی ! تمہں بتایا تھا نہ کہ تمہیں دیکھنے کے لئے کچھ لوگ آ رہے ہیں ۔ مگر تم نے وہی کیا جو دو سال سے کر رہی ہے ، تمہاری زو یا آپا ٹھیک ہی کہہ رہی تھی کہ تم ایک لڑکے کے ساتھ گھوم تی رہتی ہو ۔ امی آپ میری بات تو سنو ….وہ لڑ کا بہت اچھا ہے ، مجھ سے بہت پیار کرتا ہے ۔ ایک بار مل کر تو دیکھو ویسے تم اس سے مل بھی چکی ہو فر حانہ ایک ہی سانس میں سب کچھ کہہ گئی ویسے امی ابو کون ہو تے ہیں ہما ری نیجی زندگی کا فیصلہ کرنے والے ؟ کبھی دکھ تکلیف میں تمہاری خبر پو چھنے آئے جو آج اس پہ انگو لی اٹھا ئیں گے ؟ ہم مرے یا جئے انہیں کو ئی فرق پڑتا ہے کیا ؟ شا ید آپ بھو ل گئی ہو پر میرے ذہن وہ سب آج بھی ہے جب ابو نئی امی لے کر آئے تھے تب نئی امی نے ابو کے سامنے ہمیں کیسے ذلیل کیا تھا ۔ اتنا ہی نہیں ہم سبھی کو گھر ے بے دخل بطھی کر دیا تھا ۔ تبھی زویا آپا گھر میں آئی ارے زویا تمہیں اس کو سمجھا ئو میں تم دونوں کے لئے جلدی سے چا ئے بنا کر لاتی ہوں ۔ ایسا کہتے ہو ئے امی کچن خانہ میں چلی گئی ۔ کچن خانہ ایک بڑے سے کمرے کو بیچ سے ٹاٹ کا پردہ لگا کر ایک طرف بنا دیا گیا تھا تو دوسری طرف ایک پرانا سا ڈبل بیڈ ، ٹوٹی الماری اور امی کی شادی کا ایک پو رانا بکسہ رکھا تھا ، جس میں امی کے کپڑے کم یا دیں زیادہ بن تھی ، مگرسب کچھ رکھا بڑے قرینے سے تھا تبھی امی چا ئے اور بسکٹ لے کر آئی اور سب چائے کا مزہ لینے لگی ۔ فرحانہ یادوں کی گہرائیوں میں کھو گئی …وہ مشکل سے سات سال کی تھی جب ابو نئی امی لے کر آئے تھے وہ اپنی بڑی سی حویلی کے باغیچے میں کھیل رہی تھی تبھی نئی امی گھر میں داخل ہو ئی ۔ اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے ۔ اس کی امی رو تی ہر وقت کیوں رہتی ہے ؟ جب نئی امی کا بیٹا ہو ا تو زویا اقٓپا اور امی کو بے دخل کر کے اسی حویلی میں نو کروں کے رہنے والی جگہ پر ایک کو نا دے دیا گیا ۔ امی دن بھر سلائی کٹا ئی کر لیتا اور زویا آپا بھی دوسروں کے گھر کا کم کر تی تو بھی دو وقت کی روٹی مہیہ نہیں ہو پا تی تھی ۔ امی تیس سال کی عمر میں پچاس سال کی دیکھنے لگی تھی ۔ ایس نہیں تھا کہ امی خوبصورت نہیں تھی ۔ وہ ہمیشہ ابو کی دیوانگی کے قصے بیاں کر تی تھی ، سبھی نے امی کو دوسرا نکاح کرنے کو کہا ، مگر امی تیار نہیں ہو ئی ادھر کچھ دنوںسے وہ کا فی پریشان تھی ۔ شاید زویا آپا اندر سے بہت بیما ر رہتی تھی گھر کہ جو ذمہ داری اٹھا تی تھی فرحانہ زویا آپ اکی آواز میں فر حانہ کو یادوں سے اپنے طرف کھینچ لیا ، ٹھیک ہے اس لئے کہ اس لڑکے کو لیکر آنا پھر دیکھتے ہیں کہ کیا کر نا ہے لڑکے کا فوٹو دیکھ کر فرحانہ خوشی سے اچھل گئی اور چیکھ پڑی ۔ مستقبل کے سپنے سنجو تے ہوئے وہ سونے چلی گئی ۔ اکژان دونوں کے ملا قات شہر کے باہر ایک گارڈن میں ہو تی تھی ۔ آج جب وہ صادق سے ملی تو اس نے کل کی ساری با ت کا ذکر کیا ۔ جناب ! آپ میرے گھر چل رہے ہیں امی آپ سے ملاقات کر نا چاہ رہی ہے ۔ صادق نے فرحانہ کو اپنی باہوں میں بھر لیا اور کہنے لگا ! مسافرکو اپنی منزل کے سوا اور کیا چا ہیئے مجھ کو تیرے پیار کے سوا اور کیا چا ہیئے فرحانہ شر ما کر بڑے پیار سے صادق کو دیکھنے لگی ، پھر صادق کی گاڑی سے ہی گھر پہنچی ، صادق تو حیران رہ گیا کی کتنی بڑی حویلی سفید سنگ مر مر سی نقاشی درو دیوار اور ایک مغلیہ رہن سہن بیاں کر تا ہری گھاس کا لان ضرور یہ بڑی حیثت والوں کی حویلی ہے ۔ صادق کافی ہچکچا تے ہو ئے اندر گیا تبھی فرحانہ بو لی صادق ادھر نہیں یہ ابو کی حویلی ہے ، میرا گھر ادھر کونے میں ہے۔ حیرانی سے فر حانہ کو دیکھتے ہوئے صادق اس کے پیچھے پیچھے چل دیا ۔ سامنے پرانے سے ایک کواٹر میں فرحانہ در وازے پر ٹنگی پرانی سی چٹا ئی ہٹا کر اندر صادق کے ساتھ داخل ہو ئی ۔ صادق نے دیکھا کہ وہاں دو عورتیں بیٹھی تھیں ، اس کا پہچان فرحانہ نے امی اور زویا آپا کہہ کر کرایا ۔ امی نے صادق کو دیکھا وہ انہیں بڑا بھلا لڑ کا لگا او ر بڑے پیار سے اسے بیٹھنے کے لئے کہا ۔ امی نے کہا ! میں تم دونوں کے لئے چا ئے بنا کر لا تی ہوں ، تب تک ابو اور بھا ئی جان بھی آتے ہوں گے ۔ ابو !آپ نے انہیں کیوں بلا یا ؟ میں نے آپ سے پہلے ہی آپ کو منع کیا تھا ۔ غصے سے چلا تے ہو ئے فرحانہ امی پر برس پڑی ۔ امی بھی غصے میں بو لی چپ چاپ بیٹھو …..ابو کا فیصلہ ہی آخری فیصلہ ہو گا ۔ فر حانہ ترچھی نگا ہوں سے صادق کو دیکھنے لگی ، صادق کی آنکھوں میں اٹھے ہر سوال کا جواب وہ اپنی آنکھوں سے دینے کی کو شش کرتی ۔ تھو ڑی دیر تک وہاں سناٹا چھا یا رہا تبھی سامنے چٹا ئی ہلی اور بھا ڑی بھڑ کم شریر کا آدمی داخل ہو ا ۔ وہ سفید کرتا پاجامہ پہنے ہو ا تھا ، ساتھ ہی ان کے ساتھ سترہ اٹھارہ سال کا لڑ کا بھی اند ر آیا ۔ آتے ہی اس آدمی نے صادق کا کالر پکڑ کر اٹھا یا او ر دونوں لوگ صادق کو کافی برا بھلا کہنے لگے ۔ صادق ایکدم حیرت میں پر گئے ، اس نے سنبھلنے کی کوشش کی تبھی اس میں سے ایک آدمی نے پیچھے وار کر دیا اور پھر وہ وہیں گر گیا ۔ فرحانہ کچھ سمجھ پاتی اس کے پہلے ہی اس کے ابو چلا کر بو لے خبر دار جو اس لڑ کے سے ملی تجھے شرم نہیں آتی ، وہ ایک معمولی سا لڑکا ہے ، اور تم ایک رئیس باپ کی بیٹی ہو ۔ صادق کی طرف مخاطب ہو کر بو لے ، آج کے بعد فرحانہ کی طرف آنکھ اٹھا کر مت دیکھنا ورنہ تمہارا اور تمہارے پریوار کا وہ حال کریں گے کہ پیا ر کا سارا بھوت اتر جائے گا ۔ صادق نے وقت کی نزاکت دیکھتے ہو ئے چپ چاپ چلے جانا ہی صحیح سمجھا ۔ ابو نے فر حانہ کا ہاتھ جھٹکتے ہو ئے امی کی طرف دھکہ دیا اور گرجتے ہو ئے بولے ، نعیمہ ! فرحانہ کا دھیا ن رکھو اور دیکھو اب یہ لڑکا کبھی فرحانہ سے نہ ملے ۔ اس قصے کو یہیں ختم کرو اور کہتے ہو ئے وہ الٹے پیر واپس چلے گئے ابو کے جا تے ہی فرحانہ ابھی تک بیہوش سی پری تھی ، تیزی کھڑی ہو گئی اور امی سے بو لی ! امی یہ سب کیا ہے ؟ آپ نے ان لوگوں کو کیوں ؟ ارے مجھے تو سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ یہ اتنے سالوں میں کبھی تو ہماراحال پو چھنے نہیں آئے ۔ ہم مر رہے ہیں یا جی رہے ہیں پیٹ بھر کھانا کھایا یا ہے کہ نہیں ، کیسے ہم زندگی گذار رہے ہیں ، دو دو پیسے کمانے کے لئے ہم نے کیا کیا کام نہیں کیا ۔ بو لو نہ امی ! تب یہ کہاں تھے ؟ جب ہما ری زندگی میں چند خوشیاں آئی ، تو آگئے باپ کا حق جتانے ، میرا بس چلے تو آج میں سر پھور دیتی ، فرحانہ کہتے ہو ئے امی نے امی نے ایک زوڑ دار چا نٹا فرحانہ کو رسید کر دیا ۔ اور بو لی بہت ہوا …..اپنی حد بھو ل رہی ہے تو بھو ل گئی کے ان سے میرا نکاح ہی نہیں بلکہ دل کا رشتہ ہے ۔ میں ان کے با رے میں ایک بھی غلط لفظ سننا پسند نہیں کروں گی کل سے تمہا را اور صادق کا راستہ الگ الگ ہے ۔ فرحانہ سا ری رات رو ری ہی اس کی آنکھیں سوج کر لال ہو گئی ، صبح جب امی نے فرحانہ کو اس حال میں دیکھا تو انہیں بہت دکھ ہوا ۔ وہ اس کے بکھڑے بالوں کو سمیٹنے لگی مگر فرحانہ نے ان کا ہاتھ جھٹک دیا ۔ بہر حال اسی طرح دن ہفتے مہینے بیتنے لگے ، فرحانہ اور صادق کی کو ئی بات چیت تک نہیں ہو ئی نہ ہی صادق نے ملنے کی کوشش کی اور نہ ہی فرحانہ نے ۔ اسی طرح ایک سال بیت گیا اب تک امی نے مان لیا تھا کہ اب صادق کو بھول چکی ہے ۔ اسی دوران فرحانہ نے اپنی کپڑے ڈیزائن کے کام میں کا فی ترقی کر لی تھی ، اور گھر میں اب تک سب نو رمل ہو گیا تھا سب نے سو چا کہ اب طوفان سانت ہو چکا ہے وہ دن فرحانہ کی زندگی کا بہت خاص دن تھا ۔ آج اس کے کپڑوں کی دھوم مچی تھی وہ تیز تیز قدموں سے سیڑھی چڑھ رہی تھی تبھی سامنے سے صادق کو آتے ہو ئے دیکھا اور وہ ٹھٹھک گئی اور اچانک رک گئی ۔ کیسی ہو فرحانہ ؟ اس نے بو لا ، تم کیسے ہو صادق ؟ اس دن تمہا ری اتنی بعزتی ہو ئی کہ میری ہمت ہی نہیں ہو ئی تم سے کیسے بات کروں ۔ مگر سچ میں میں تمہیں کبھی نہیں بھو لی صادق نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا وہ سب چھورو یہ بتا ئو کہ تم یہاں کیسے ؟ فرحا نہ نے مسکراتے ہوئے پیار بھری آنکھوں سے صادق کو دیکھا ۔ صادق کو لگا کہ اس نے سا رے جہاں کی خوشیاں پا لی ہے ، اچھا سنومیں یہاں کا سارا کام ختم کر کے میں رات میں آٹھ بجے تم سے یہیں ملوں گی ۔ آج فرحانہ کا من اپنے کام نہیں لگ رہا تھا ، اسے لگ رہا تھا کہ جلدی سے صادق کے پاس پہنچ جائیں ۔ فرحانہ کو دیکھتے ہی صادق بو لا ! کچھ اس قدر ہو گئی محبت تنہائی سے اپنی کبھی ان سانسوں کے شور کو بھی تھامنے کی کو شش کر بیٹھے ہیں …..فرحانہ مسکرا تے ہو ئے بو لی شکوا تو بہت ہے مگر شکایت کر نہیں سکتے ….کیوں کہ ہما رے ہونٹوں کو اجازت نہیں ہے تمہا رے خلاف بو لنے کی ، اور وہ دونوں خلخلا کر ہنس پڑے صادق پتہ نہیں آج مدتوں بعد اتنی کھل کر ہنسی ہوں شا ید میں بھی …صادق نے کہا را ت کو دونوں نے ایک ساتھ کھانا کھیا اور دونوں چا ہتے تھے کہ اتنے دنوں کی جدا ئی کی باتیں ایک ہی گھنٹے میں ختم کر دیں جو کہ ممکن نہیں تھا ۔ پھر وہ دونوں دن بھر کے کام کے بعد اسی پرا نے گارڈن میں ملنے لگے لوگ اکثر انہیں ساتھ دیکھتے تھے فرحانہ کے گھر والوں کو بھی پتہ چل گیا ، پر انہیں لگتا تھا کہ وہ شا دی نہیں کریں گے ۔ وہ اس بارے میں فرحانہ کو وقت وقت پر ہدایت دیتے رہتے تھے ، اس طرح سال در سال بیتنے لگے ایک دن رات کے اندھیرے میں ان دونوں نے اپنا شہر چھوڑ کر ایک بڑے سے مہا نگر میں ایسی دنیا بسا لی جہاں اس بھیڑ میں انہیں کو ئی پہچا نتا تک نہیں تھا ۔ چلو ایک اور دنیا میں تمہارے ساتھ چلتے ہیں جہاں حالا ت کچھ بھی ہوں مگر ہم ساتھ رہتے ہیں وہیں پر ایک کمپنی میں نو کری کرنے لگے ان دونوں کا گھر چھو ڑ کر اچانک جانا کسی کو حیرت بھرا نہیں لگا کیوں کہ سالوں سے لوگوں کو انہیں ایک ساتھ دیکھنے کی عادت سی پر گئی تھی ۔ مگر امی کو فرحانہ کا اس طرح جانا بہت کھلا ، وہ کا فی بیمار رہنے لگی زویا آپا کا بھی نکاح ہو گیا تھا ادھر فرحانہ اپنی دنیا میں بہت خو ش تھی ۔ وقت پنکھ لگا کر اڑنے لگا تھا ، ایک دن پتہ چلا کہ اس کی امی کو کینسر ہو گیا اور سب لوگوں نے یہ کہہ کر علاج ٹال دیا تھا کہ اس عمر میں اتنا پیسہ علاج میں کیوں بر باد کریں ۔ فرحانہ کو جب اس بات کا پتہ چلا تو اس نے صادق سے بات کی صادق نے کہا ! تم امی کو اپنے پا س بلا لوہم مل کر ان ک علاج کر ائیں گے ۔ فرحانہ امی کو علاج کرانے اپنے گھر لے آئی امی جب ان کے گھر آئی تو ان کا پیا را سا سنسار بہت خوش ہو ئی ۔ صادق نے بڑی محنت کر کے پیسہ جٹا یا اور ان کا علاج کرایا دھیرے دھیرے ٹھیک ہو نے لگی ، اب تو ان کی بیما ری بھی دھیرے ختم ہو گئی مگر امی کو بڑی شر مدنگی محسو س ہو تی ، صادق ان کی پریشانی کو سمجھ گیا ایک دن شام کو امی فر حانہ کے ساتھ بیٹھی تبھی صادق نے پاس آکر بیٹھ گیا اور بو لا ! امی زندگی میں زیا دہ رشتے ہو نا ضروری نہیں ہے ، مگر رشتوں میں زیا دہ زندگی ہونا ضروری ہے ۔ امی جب بنانے والے نے کو ئی فرق نہیں رکھا تو ہم کو ن ہو تے ہیں ۔ امی ! میری تو ماں بھی نہیں ہے مگر آپ سے مل کر وہ کمی بھی پو ری ہو گئی ہے ، امی نے پیا ر سے صادق کو گلے لگا لیا ، تبھی صادق بو لا آج ایک اور خوشخبری ہے آپ جلد ہی نانی بن نے والی ہیں ۔ اب امی بہت خوش تھی وہ اکثر فر حانہ کے گھر آتی رہتی وقت کے ساتھ ہی فرحانہ نے پیا رے سے بیٹے کو جنم دیا جس کا نام رحان رکھا اس طرح ہمیشہ ہنسی خوشی زندگی بسرکرنے لگے۔ نہ رئیس ہوں ، نہ امیر ہوں، نہ بادشاہ ہوں ، نہ وزیر ہوں تیرا عشق ہے میری سلطنت اسی سلطنت کا فقیر ہوں