ہمارے بارے میں زائد از ضرورت صنعتی پیداوار کا دعوی بے بنیاد: چین

0
113

بیجنگ، // چین کے صدر شی جن پنگ نے صنعتی شعبے میں زائد از ضرورت چینی پیداوار کے دعوے کی تردید کی اور یورپی یونین سربراہان کے ساتھ زیادہ قریبی تعاون کی خواہش ظاہر کی ہے۔
چین وزارت خارجہ کے جاری کردہ بیان کے مطابق صدر شی نے دورہ فرانس کے دوران صدر امانوئیل ماکرون اور یورپی یونین کمیشن کی سربراہ اُرسولا وان ڈر لیئن کے ساتھ سہ فریقی اجلاس کیا ہے۔
مذاکرات میں صدر شی نے کہا ہے کہ اس وقت دنیا ایک نئے انقلاب و تغّیر کے مراحل میں داخل ہو چُکی ہے۔ اس دور میں چین اور یورپ کا، بحیثیت دو اہم طاقتوں کے ایک دوسرے کو ساجھے دار کی نگاہ سے دیکھنا، ڈائیلاگ اور تعاون کے اُصول پر ثابت قدم رہنا اور دو طرفہ اعتماد اور اسٹریٹجک مفاہمت کا ماحول پیدا کر کے، عالمی امن و ترقی میں کردار ادا کرنا ضروری ہے۔
انہوں نے کہا ہے کہ چین یورپ کے ساتھ تعلقات کا جائزہ اسٹریٹجک اور طویل المدّتی پس منظر میں لیتا ہے۔ ہم چین کی جدیدیت میں یورپی یونین کو ایک اہم ساجھے دار کی حیثیت سے دیکھتے ہیں اور یورپی یونین کے ساتھ ہمارے تعلقات ، بحیثیت ایک بڑے ملک کے، چینی ڈپلومیسی کا ایک بلند پیمانہ ہیں۔
صدر شی نے کہا ہے کہ چین کی نیو انرجی انڈسٹری نے کھُلی رقابت کے ماحول میں متغّیر پیداواری صلاحیت حاصل کی ہے۔ اس صلاحیت نے نہ صرف گلوبل رسد کو بڑھا کر افراط زر کے دباو میں توازن پیدا کیا بلکہ عالمی ماحولیاتی تبدیلیوں کے خلاف جدوجہد اور سبز ارتقاء میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔
انہوں نے کہا ہے کہ "چین کے بارے میں صلاحیت سے زائد پیداوار کا دعوی ، تقابلی فوائد کے حوالے سے بھی ا ور عالمی طلب کے حوالے سے بھی، ایک بے بنیاد دعوی ہے۔
تاہم ماکرون نے کہا ہے کہ ” اس وقت دنیا کو کثیر تعداد مسائل کا سامنا ہے اور بین الاقوامی حالات نہایت نازک نقطے پر پہنچ گئے ہیں۔ فرانس اور یورپی یونین کو چین کے ساتھ باہمی تعلقات کو پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ یورپ کے مستقبل کا انحصار اسی پر ہے”۔
یورپی یونین کمیشن کی سربراہ ارسولا وان ڈر لیئن نے بھی سہ فریقی اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کی ہے۔
پریس کانفرنس سے خطاب میں انہوں نے کہا ہے کہ” چین کا اپنی برقی گاڑیوں اور اسٹیل کی صنعت کے ساتھ سرکاری تعاون یورپی صنعت کے لئے ایک سنجیدہ خطرہ بن گیا ہے۔ چینی صنعت کے لئے حکومتی سبسڈیاں یورپی صنعت کے خاتمے کا سبب بن سکتی ہیں۔ دنیا، چینی پیداوار کو جذب نہیں کر سکتی”۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا