جعفر حسین ماپکر مہاراشٹر
86685 56701
کُچھ ماہ قبل ایک قریبی شناسا نے مُجھ سے کہا کہ بھائی، آپ جن لوگوں کے قصیدے اپنے مضامین میں لکھا کرتے ہو، کیا آپ صحیح طور سے انہیں جانتے بھی ہو، یا یونہی مرّوت میں یا پھر بے سبب ان کی مدح سرائی کی گئی ہے. میں نے اُس وقت اُن صاحب کو سُنا ان سُنا کردیا تھا. اب دو چار روز پہلے بھی کسی صاحب نے مجھ سے وہی بات کہہ دی تو احساس ہوا کہ، میری طرف سے کُچھ باتیں صاف ہوجائیں تو یہ میرے اور میرے قارئین کے حق میں بہتر ہوگا. ورنہ خواہ مخواہ کی چہ میگوئیاں یونہی بڑھتی جائیگی.
جن لوگوں کو بھی میرے مضامین سے اختلاف ہے یا کسی شخصیت یا شخصیات کے بارے میں لکھی گئی مدحیہ باتوں پر اعتراض ہے تو میں اتنا کہتا چلوں کہ میں آپ سے یہ نہیں کہتا کہ، جو لکھا گیا وہ حرف بہ حرف صحیح ہوگا ، مجھے اُس وقت جو محسوس ہوا، وہ میں نے لکھا. اب آپ کو وہ شخص کائیاں یا پھر نام ونمود اور شہرت کا بھوکا محسوس ہوا ہو تو، وہ محسوسات آپ کے تجربات کے ماتحت ہوئے، میرے نہیں تھے.
میں اِس بات کو قبول کرتا ہوں کے، ہر انسان اپنی نیتوں اور رویّوں کے پیچھے چُھپا رہتا ہے اور اُس کی اصل روح بڑی مشکل سے ہاتھ لگتی ہے. ہوسکتا ہے کہ میں نے اُنہیں سمجھنے میں بھول کی ہو. اس لئے میں اپنے قارئین سے التماس کرتا ہوں میرے لکھے گئے مضامین میں کسی بھی شخصیت کے بارے میں اندھا اعتماد نہ رکھیں. بلکہ انہیں جانیں اور پرکھیں. اگر آپ کو وہ پسند آتے ہیں تو ٹھیک، ورنہ آپ پر فرض عائد نہیں ہوتا کہ، میرے مضامین میں کی گئی، مدح سرائی کو بسروچشم قبول کرلیں.
اس تمہیدی عبارت کے بعد کُچھ سُنی ان سُنی باتیں کر لیتے ہیں. آج ہم جس دور سے گزر رہے ہیں، وہاں بیک وقت سیاسی، معاشرتی اور معاشی بساط پر، کئی بازیاں بچھی ہیں. ایک طرف اسلام دشمنی کے پرچار کو نیٹ ورک اور میڈیا میں تھوڑے تھوڑے وقفہ سے دیکھا اور سُناجاسکتا ہے، تو دوسری طرف شر پسند عناصر کے زیر اثر مقامی اہلکاروں کو مسلمانوں کے مقام مقدسہ کی بے حرمتی کرتے ہوئے. کہیں مسلم ریزرویشن کو ختم کیا جاتا ہے تو کسی اور جگہ نئے سرے سے ہماری دلآزاری کی جاتی ہے. دوسری طرف ہم ہے کہ منتظر فردا ہیں. دل و دماغ میں کوئی بقا کی سوچ بھی نہیں کہ مستقبل میں ہم نے اتحاد کا دامن ہاتھ سے نکل جانے دیا تو ہمارا نگہبان کون اور کیسے ہوگا. یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وقت کا شکنجہ ہر اُس شخص پر گھیرا ڈالے ہے، جو اچھائی اور برائی میں تمیز کرنے کی کوشش کرتا ہے، پھر چاہے وہ کسی بھی حسب و نسب یا مذہب و مِلّت یا پھر دِگج یا پولیٹیکل فیملی کا بہت بڑا ممبر ہی کیوں نہ ہو. یا شیخ اپنی دیکھ کے مصداق سبھوں نے چپ سادھ رکھی ہے.
یہ حقیقت ہے کہ آج ہم مسلمان ٹکڑیوں میں بٹے ہوئے نظر آرہے ہیں. ہمارا وجود، آپس کے حسد ونفاق کے درمیان مٹتا نظر آرہا ہے اور یہی اختلاف ہمیں صدیوں پیچھے ڈھکیل رہا ہے. ہر اسلامی ادارہ دوسرے اداروں سے چپقلش رکھتا ہے تو ہمارے مساجد اور دارالعلوم آپس میں چشمک رکھتے ہیں.ہم بدعتوں کے رموز میں اُلجھے ہوئے ہیں مگر معروف اور منکرات کے احکامات کو بھولے ہوئے ہیں. حتیٰ کے انسانیت اور بھائی چارے کو بھی. رفتہ رفتہ حال یہ ہوگیا ہے کہ ایک عام آدمی بھی، کسی سے سلام و کلام نہیں کرتا. یا شیخ اپنی دیکھ. یہ کیسا معاشرہ بنا ہے!
ایک مفتی دوسرے مفتی پر اپنی برتری ثابت کرنے میں تلا ہے تو کم وبیش ہر عالم دوسرے کو کمتر سمجھتا ہے. ہر خودساختہ مفتی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنانے کی فکر میں لگا ہے. فروعی قسم کے مسائل پر بھی منفی مذاکرات ہو جاتے ہیں، جو مستقبل کے لیے نہایت ہی خطرناک بھی ہے اورافسوسناک بھی. حالانکہ اُمت کا کوئی بھی اختلاف ایسا نہیں، جس کا تصفیہ آپس میں بیٹھ کر نہ ہو سکے. سیاسی اتار چڑھاؤ خطرناک ہوتا ہے. ایسے میں، مسلمانوں کو اتفاق اور اتحاد کی پہلے سے بھی زیادہ ضرورت ہے. قومی یکجہتی، انسانیت، ایمان اور صالح اعمال ہی ہمیں اللہ تعالیٰ کا قرب دے سکتے ہیں، ورنہ نہیں.
سوئے ظن، ایسا لگتا ہے کہ یہاں نہ سچ بولنے کی ضرورت ہے اور نہ ہی کسی رشد ہدایت کی. ویسے بھی، ہمارے نام نہاد قومی قائدین، شاعر ، ادیب اور ذی شعور حضرات، اپنے اپنے ذاتی مفادات کو حاصل کرنے کی تگ و دو میں سیاسی دگج لوگوں کو رجھانے مصروف ہیں. یہ سمجھے بغیر کے سیاسی لوگوں کا کوئی نصب العین نہیں ہوتا اگر ہوتا ہے تو پس پردہ مفادات کو مقدم رکھنا. پھر بھی یہ حضرات لیڈروں اور ارباب اختیار کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے جلسہ منعقد کرانا باعث فخر سمجھتے ہیں. اپنے آپ کو سمجھانا کہ دنیا جائے بھاڑ میں، ہمارا بیگن تو سیاسی مفاد کے آنچ پر بھُن رہا ہے، اب دنیا جلے تو جلے. ان کے رَوِش پر اعتراض کرو تو جھٹ سے کہتے ہیں کہ بھائی صاحب خوشنودی ہی سہی، ہم تو محض اپنے گوشئہ عافیت کو تحفظ فراہم کررہے ہیں. ایسا لگتا ہے کہ ان کے ترقی اور تحفظ کے ترکش میں، بس یہی تیر بہدف ہے … مولوی اور مفتیوں کو اپنے اپنے گھروں کی فکر ہے تو، ایک عام مسلمان کو اپنے بقا کی. آج کل مساجد میں وہ دُعائیں بھی بند ہیں، جو کبھی کبھار ہم ان معصوم بچوں کے لئے کیا کرتے تھے جو این آر سی اور دوسرے معاملات میں آج تک جیلوں میں بند ہیں. جو ادارے ان کو چھُرانے/یا پھرضمانت پر رہا کرانے کی کوشش کر رہے ہیں، ان کے پاس محدود وسائل ہیں. کیا وہ آپ کے زکوٰۃ کے حقدار نہیں؟ کم از کم اتنا تو ہم ضرور کرسکتےہیں.
زکوٰۃ کی بات کی جائے تو ہر صاحب نصاب، اپنی من مانی سے زکوٰۃ نکالتا ہے اور دیتا ہے کہ مُبادا کسی کو بھنک نہ پڑے کے ہماری آمدنی کتنی ہے؟ نہ بیت المال ہی بنتا ہے اور نہ ہی زکوۃ کا کوئی اجتماعی نظام. ایک عام مسلمان کے پاس نہ جائے رفتن ہے اور نہ ہی پائے ماندن. آنے والا وقت نہ جانے کیا کُچھ ہمیں دکھائے. اللہ تعالیٰ سے دُعاہے کے وہ ہمارے خطاؤں اور گناہوں کو معاف کر دے. عام مسلمان کو، عافیت، راحت نصیب ہو. آمین یا رب العالمین.
جعفر حسین ماپکر