’ہر بیٹی کو پرایا گھر (سسرال) ’’ اچھا بنانے ‘‘ کا گُر آنا چاہیئے‘

0
0

 

 

 

 

قیصر محمود عراقی
کریگ اسٹریٹ ، کمرہٹی ، کولکاتا ۔۵۸
Mob: 6291697668

یہ بیٹیاں بھی بڑی عجیب ہو تی ہیں ، ماں باپ کے گھر کی رونق ، تتلیوں کی مانند ادھر اُدھر اڑتی رہتی ہیں ، ان کی کلکاریوں سے گھرکے در و دیوار بھی کھلِ اُٹھتے ہیں ، ذرا ذرا سی بات پر ناز نخرے دکھانا ، بھائیوں سے لاڈ اٹھوانا ، چھُٹی والے دن دیر گئے تک سونا یہ ان کا معمول ہو تا ہے ، مگر یہی بیٹیاں جب شادی کر کے پیا کے گھر جا تی ہیں تو شروع شروع میں تو ماحول بدلنے پر جھنجھلا جا تی ہیں ، اگر ماں کی دی ہو ئی تر بیت اچھی ہو تو آہستہ آہستہ نئے ماحول سے مطابقت پیدا کر لیتی ہیں ، بلکہ اکثر کو تو اپنے آپ کو مکمل طور پر بدلنا پڑتا ہے ، اپنی عادتیں ، اپنے روز کے معمولات ، اپنی سر گر میاں ، اپنی دلچسپیاں سب ہی بد لنا پڑتا ہے ، نئے لوگوں کے مطابق انہیںخود کو نئے سانچے میں ڈھالنا پڑتا ہے ۔
میں اپنے آس پاس ایسی بہت سی بچیوں کو دیکھتا ہوں جن میں شادی کے بعد بہت سی تبدیلیاں رونما ہو ئی ہیں وہ بڑی محنتی اور ذمہ دار ہو گئی ہیں اور ایسے کام بھی بڑی خوشی سے انجام دے رہی ہیں جن کو شادی سے پہلے ہاتھ بھی نہیں لگاتی تھیں ۔ مثلاً میں اپنے ایک قریبی دوست کی بیٹی کو دیکھتا ہوں ، شادی سے پہلے بھائی اس کے لاڈ اُٹھاتے تھے ، بھائی کپڑا استری کرتا تو یہ اپنا ایک جوڑا بھی استری کر نے کے لئے انہیں تھما دیتی کہ مجھے استری نہیں آتی نآپ کر کے دیں ، خیر ، بھائی بھی ، استری کے بدلے اس سے دس کام نکلواتے تھے ، اسی طرح گھر میں انڈا فرائی کیا جا تا تو اس کی بوسے بیزاری دکھاتی ، کھانا نہیں کھاتی تھی ، تھوڑا کام کرکے کہتی ، بس بعد میں ہو جا ئے گا ، بندے کو آرام تو کر لینا چاہیئے ، غرض کہ ایسے ہی نخرے اس کی زندگی کا حصہ تھے ، لیکن شادی کے کچھ دن بعد ہی نہ صرف اس نے شوہر کے لئے آملیٹ اپنے ہاتھوں سے بنایا ، اس کے کپڑوں پر استری کی بلکہ بڑی خوشی سے اس نے سارا کام آہستہ آہتہ سنبھال لیا ، وہ بچی جو تھوڑا کام کر کے سستانے لگتی تھی ، کھانے پینے میں نخرے دکھاتی تھی ، اب سارا دن ملازمت بچیوں کی پرو رش اور گھر داری میں جُٹی رہتی ہے ، بلکہ ہنس کر کہتی ہے ’’ مجھے تین بچوں کی دیکھ بھال کر نی پڑتی ہے ‘‘ میں اس کی مصروفیت دیکھتا ہوں تو میری آنکھوں کے سامنے اس کی شادی سے پہلے کا وقت آجا تا ہے ، بڑی حیرانی سے اُسے دیکھتا ہوں ، کہ اب نہ اسے اپنے کھانے پینے کا ہوش ہو تا ہے اور نہ ہی آرام کا ۔ یہ صرف میرے دوست کی بیٹی کے ساتھ نہیں بلکہ میں اپنے آس پاس تمام بچیوں کی یہی حالت دیکھتا ہوں ، شازو نادرچندایک ایسی ہو نگی جو ان مصروفیات سے بھاگتی ہو نگی ۔
میری اپنی بڑی بہن کی بہو جو انجینرنگ یونیورسیٹی سے فارغ اتحصیل ہے ، اسے ایک بھی سالن بنانا نہیں آتا تھا ، نہ ہی اس نے کبھی باورچی کھانے میں جھانکا تھا ، اب وہ اپنے شوہر کے ساتھ قطر میں رہتی ہے ، اسے تمام کام اپنے ہاتھوں سے کر نے پڑتے ہیں اور وہ خوشی خوشی سارے کام انجام دیتی ہے ، اسی طرح ایک بچی کی ماں نے بتایا کہ میری بیٹی شادی کر کے دہلی گئی ، وہاںاُسے تمام کام اپنے ہاتھوں سے کر نے پڑتے ہیں ، کھانا بنانے سے لے کر گھر کی صفائی ، واش روم کی صفائی ، بچوں کو اسکول چھوڑنا پھر لا نا ، اس کے لئے دن و رات میں کوئی فرق نہیں ، میں اس کی شادی سے پہلے والی زندگی سے اب موجود ہ زندگی کا موازنہ کر تی ہوں تو میری آنکھیں نم ہو جا تی ہیں کہ یہ وہی لڑکی ہے جو ملازمت سے شام کو لوٹ کر جوسوتی تھی تو رات کے گیارہ بجے اُٹھ کر حکم صادر کرتی کہ مجھے فلا ں چیز کھانی ہے ، بھوک لگی ہے ، چھٹی والے دن تو بسترسے نکلنے کا نام ہی نہیں لیتی تھی ، زبردستی میں کچن کا کام کراوتی تھی کہ شادی کے بعد کیا کروگی ، تو ہنس کر کہتی تھی ، جب کی جب دیکھی جا ئے گی ، شادی کے بعد ایسی ہی مصروف زندگی گذرتی ہے ، خصوصاً ملازمت پیشہ مائوں کو آفرین ہے اور وہ قابل تحسین ہیں جو اپنی زندگی کی مصروفیات کو بڑے سلیقے اور منظم طریقے سے انجام دیتی ہیں ، لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ گھر یلوں خواتین یا بچیاں منظم اور سلیقہ شعار نہیں ہو تیں ،مجھے ایک بچی نے بتایا کہ میرے تین شرارتی بچے ہیں ان کی مکمل دیکھ بھال ،ان کی پڑھائی کی ذمہداری ، گھر کی ذمہ داری میں اکیلی بندی سر انجام دیتی ہوں ، چاروں باپ بیٹیوں کی نت نئی فرمائشیں ہو تی ہیں ، میرے دن کا زیادہ وقت کچن میں اور صفائی میں گذر جا تا ہے ۔
چند ایسی لڑکیوں کا ذکر کر نا بھی ضروری سمجھتا ہوں جو اس کے بر عکس ہیں ایک خاتوں کی آواز بھر ّا گئی اور آنکھوں میں آنسوں آگئے جب اس نے رندھی ہو ئی آواز میں کہا کہ میں نے اپنی بچیوں کو ایسی تر بیت دی کہ انہوں نے دوسرے گھروں کو جاکر ’’ آباد‘‘ کیا ، لیکن مجھے اس عمر میں وہ بھی کام کر نے پڑ رہے ہیں جو میری بیٹیوں نے بھی کبھی نہیں کروائے ۔ دو بہوئوں کے ہو تے ہو ئے مجھے ناشتا بھی خود تیار کر نا پڑتا ہے ، کپڑے دھو نے کی مشین بھی خود لگانی پڑتی ہے ، آٹا بھی گوندھتی ہوں ، اکثر کچن بکھرا ہو تا ہے جسے سمجھٹنا میرا کا م ہے ، بلکہ بچے گند پھیلاتے ہیں تو جھاڑو بھی لگا لیتی ہوں ، میں اس عمر میں یہ کام کر کے تھک جا تی ہوں لیکن بہوئوں کو شرم نہیں آتی ۔ اسی طرح ایک خاتون کی بہو کے بارے میں مجھے کسی عزیزہ نے بتایا کہ وہ صرف بچوں کی پر ورش میں خاص دلچسپی لیتی ہے ۔ باقی کام یعنی گھر داری وغیرہ میں بالکل دلچسپی نہیں لیتی ، اگر اسے اس طرف تو جہ دلوائی جا تی ہے تو بڑی رکھائی سے کہتی ہے کہ میں فارغ نہیں ، دو بچوں کی پر ورش کی ذمہ داری مجھ پر ہے ، میرا سارا دن اسی میں گذر جا تا ہے ، اس کے سردرویئے کی وجہہ سے اس کا شوہر اور سسرال والے بھی نالاںرہتے ہیں لیکن اسے کسی بات کی فکر نہیں ہے ۔
قارئین محترم !میں جب ان دونوں قسم کی لڑکیوں کا بغور تجزیہ کیا تو کچھ باتیں نوٹ کیں جو آپ سب سے شیئر کرونگا تا کہ بچیاں خود بھی اور ان کی مائیں بھی اس حکمتِ علمی کو اپنائے ۔ وہ بچیاں جو شادی کے بعد جا کر پرائے گھروں کو اپنا بنا لیتی ہیں ، کوئی کام کر نے میں عا ر محسوس نہیں کر تیں وہ بڑی آسانی سے نہ صرف نئے ماحول میں ایڈجیسٹ ہو جاتی ہیں بلکہ سسرال والوں کے دلوں میں ، خاص طور پر شوہر کے دل میں گھر کر لیتی ہیں ، وہ گھر کے چھوٹے موٹے کام کر کے خود بھی اپنے آپ کو اس گھر کا حصہ سمجھتی ہیں ۔ مجھے ایک بچے نے بتایا کہ شروع میں مجھے ساس نے بڑا تنگ کیا ، ملازمت کر نا بھی ضروری تھا ، ظاہر ہے ماں باپ کے گھر میں مجھ پر کام کا اتنا بوجھ نہ تھا ، اب میں تھکی ہاری گھر آتی تو کھا نہ بنانا پڑتا ، اگر کوئی کام رہ جا تی تو ساس سخت ناراض ہو جا تی ۔ والدہ نے سمجھایا بیٹا ! اپنے ذاتی کام چھوڑ کر پہلے کھانہ بنا لیا کرو اور کچھ کام گھر سے نکلنے سے پہلے کر کے جا یا کرو ، مثلا سبزی کاٹ کر رکھنا یا آٹا گوندھ کر رکھنا وغیرہ ، اس طرح والدہ کی بات پر عمل کر کے مجھے کچھ سہولت ہو گئی اور دوسرے ایڈجیسٹ آسانی ہو گئی ، اب میں ہر کام مہارت اور آسانی سے کر لیتی ہوں جس کی وجہہ سے ساس بھی مجھ سے مطمئین رہتی ہیں اور مجھے بھی سکون رہتا ہے ۔
مذکورہ بالا بچی کے واقع سے آپ کو اندازہ ہو ا ہو گا کہ اس کی حکمت عملی میں اس کی ماں کا ہاتھ شامل ہے ۔ بچیوں کی شادی سے پہلے ہی مائوں کو باور کر انا چاہیئے کہ شادی کے بعد ان کی ذمہ داریاں بڑھ جا ئینگی ، ان ذمہ داریوں کو خوش دلی سے انجام دینے سے ہی گھر بنتے ہیں ، دوسری بات یہ کہ شادی کے بعد اپنی ذمہ داریوں کی انجام دہی کے لئے لڑکیوں کی مائوں کو مثبت مشورے دینے چاہیئے تیسری بات جو سب سے ضروری ہے وہ یہ کہ لڑکی کو خود بھی سمجھداری اور عقل مندی سے گھر داری کے کام خوش اسلوبی سے کر نے کی کوشش کر نی چاہیئے تا کہ نہ صرف اسے اور گھر والوں کو سکون اور آرام میسر ہو بلکہ ،اس نئے گھر کو وہ ’’ اپنا گھر‘‘ بنا سکے اور اس کا حصہ بن سکے ، دوسری طرف سسرال والوں اور شوہر کو بھی ہر قدم پر آنے والی کی حوصلہ افزائی کر نی چاہیئے تا کہ وہ ان سب کو اپنا سمجھے اور سب کی زندگی آسان ہو جا ئے ۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا