۰۰۰
امتیاز رومی
9810945177
۰۰۰
- قدیم ہندوستانی اساطیر اور دیومالائی عناصر کا حامل کولکاتا ہندوستان کا تہذیبی و ثقافتی مرکزہے۔ ہگلی ندی کے مشرقی کنارے پر آباد یہ خوشیوں اور محلوں کا شہر فیضان گنگا سے شرف یاب ہے۔ گنگا کے پاون پوتر جل سے یہ شہر سیراب اور تہذیب گنگ وجمن سے فیضیاب ہے۔ یہاں کی فضا میں قاضی نذرالاسلام کی نظموںکی نغمگی اورگداز ہے ، رابندر ناتھ ٹیگور کے گیتوں کا سوزو ساز ہے اور یہی اس سرزمین کی روحانیت کا راز ہے۔ٹیگور کے جسم کی ریاضتیں اور روح کی عبادتیں الفاظ کا جامہ زیب تن کرکے ’گیتانجلی ‘ کا روپ دھارن کرگئی۔ قاضی صاحب کی ریزہ خیالی نظموں میں سماگئی۔اس شہر کی آب و ہوا کو پاکیزگی بخشنے اور یہاں کے باشندوں کا پاپ دھلنے کے لیے گنگا نے خود اپنا دھارا ادھر موڑ دیا۔ ہندو دیومالا کے مطابق یہ مقدس شہر ’ستی ‘ کے فیضان روح سے بھی لبریز ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ’ستی‘ کی وفات کے بعد وشنو جی نے اپنا کڑا جب ’ستی ‘ کی لاش پر مارا تو وہ اکیاون ٹکڑوں میں بٹ کر مختلف خطۂ زمین پر بکھر گئی اور جہاں جہاں اس کے ٹکڑے گرے وہ زمین مقدس بن گئی ۔ گویا وہ زمین ستی کے فیضان روح سے لبریز ہوگئی۔ ان میں کولکاتا بھی شامل ہے۔ قدیم ہندوستانی اساطیر اور دیومالائی عناصر کا حامل کولکاتا ہندوستان کا تہذیبی و ثقافتی مرکزہے۔ ہگلی ندی کے مشرقی کنارے پر آباد یہ خوشیوں اور محلوں کا شہر فیضان گنگا سے شرف یاب ہے۔ گنگا کے پاون پوتر جل سے یہ شہر سیراب اور تہذیب گنگ وجمن سے فیضیاب ہے۔ یہاں کی فضا میں قاضی نذرالاسلام کی نظموںکی نغمگی اورگداز ہے ، رابندر ناتھ ٹیگور کے گیتوں کا سوزو ساز ہے اور یہی اس سرزمین کی روحانیت کا راز ہے۔ٹیگور کے جسم کی ریاضتیں اور روح کی عبادتیں الفاظ کا جامہ زیب تن کرکے ’گیتانجلی ‘ کا روپ دھارن کرگئی۔ قاضی صاحب کی ریزہ خیالی نظموں میں سماگئی۔اس شہر کی آب و ہوا کو پاکیزگی بخشنے اور یہاں کے باشندوں کا پاپ دھلنے کے لیے گنگا نے خود اپنا دھارا ادھر موڑ دیا۔ ہندو دیومالا کے مطابق یہ مقدس شہر ’ستی ‘ کے فیضان روح سے بھی لبریز ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ’ستی‘ کی وفات کے بعد وشنو جی نے اپنا کڑا جب ’ستی ‘ کی لاش پر مارا تو وہ اکیاون ٹکڑوں میں بٹ کر مختلف خطۂ زمین پر بکھر گئی اور جہاں جہاں اس کے ٹکڑے گرے وہ زمین مقدس بن گئی ۔ گویا وہ زمین ستی کے فیضان روح سے لبریز ہوگئی۔ ان میں کولکاتا بھی شامل ہے۔ کلکتہ(Calcutta)جو 2001میں کولکاتا (Kolkata)سے تبدیل ہوگیا۔ اس کی وجہ تسمیہ اور ماخذ کے تعلق سے مختلف روایتیں ہیں۔مثلا Kalikshetra/Kalikheta/Kalikota وغیرہ جو بن بگڑ کر کلکتہ (Calcutta)بنا اور پھر کولکاتا ہوگیا۔ مشہور اور مستند روایت کے مطابق یہ شہر کالی دیوی سے موسوم ہے۔مسٹر اے کے رائے کے حوالے سے مولوی بدرالزماں اپنی کتاب تاریخ کلکتہ میں لکھتے ہیں:’’خطہ کلکتہ باشندوں کے بود وباش کے قابل بارہ صدی عیسوی کے پیشتر ضرور ہوچکا تھا۔ آباد ہونے کے ساتھ ہی وہ نامزد بھی ہوا۔ خطہ مذکور کا نام کالی کھیترا ہی تھا۔ جس کی وجہ تسمیہ کالی ہی کا نام ہے‘‘۔ ( ص 67) ہندوستانی تاریخ میں کولکاتا بہت اہمیت کا حامل ہے۔ جہاں سے انگریزوں نے تجارت ، سیاست اور پھر حکومت کا آغاز کیا۔ سترہویں صدی کاتین گائوں جو مغل جاگیرداری میں نواب بنگال کے ماتحت تھا، ترقی کرکے عظیم الشان شہر بن گیا۔ 1690ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی کو تجارتی پروانہ دیا گیا اس کے بعد یہ علاقہ تیزی سے ترقی کرنے لگا۔1756ء میں نواب سراج الدولہ نے اس پر اپنا قبضہ جمالیا مگر اسی سال کمپنی نے اسے واپس بھی لے لیا۔ پھر انگریزوں نے اپنی حکومت قائم کرنے کے بعد کولکاتاکو دارلحکومت بنادیاجو 1911ء تک قائم رہا۔ اس درمیان کولکاتا کو تجارتی اور اقتصادی مرکزیت حاصل رہی۔ انیسویں صدی کے نصف اور بیسویں صدی کے اوائل میں بنگال کی نشاۃ ثانیہ ہوئی۔ فورٹ ولیم کالج کے قیام سے تعلیمی سرگرمیوںمیں اضافہ ہوا اور اردو کو لسانی اعتبار حاصل ہوا۔ کولکاتا ہندوستان کا پہلا شہر ہے جہاں 1902ء سے اب تک ٹرام چل رہی ہے۔ہندوستان کا پہلا اخبار یہیں سے جاری ہوا۔نیز کولکاتا نے تحریک آزادی میں بھی مرکزی کردار ادا کیا۔ مذہب، رنگ و نسل اور زبان و تہذیب کے لحاظ سے یہاں بوقلمونی پائی جاتی ہے۔ ڈراما، آرٹ، فلم، تھیٹر اور ادب میں کولکاتا کی اپنی مستحکم روایت ہے۔ اس شہر نے اپنے سایے میں سب کو شرن دیا ۔ کیا امیر، کیا غریب، کیا افسر، کیا ان پڑھ اور کیا مزدور سبھی یہاں مزے سے جیتے ہیں۔ یہاں کے لوگوں میںجذبہ اخوت و مودت ، اپنی زبان و تہذیب سے بے انتہا محبت اور اپنے کام کے تئیں اتساہ پایا جاتا ہے جو انھیں ہرنئی صبح توانائی بخشتا ہے۔گلیوں اور سڑکوں پر عوام اور مزدوروں کا ہجوم اور ہاتھ سے کھینچنے والا رکشا مین کی جفا کشی ، اس شہر کی تعمیر و ترقی اور نقل وحمل میں معاون ہے۔جگہ جگہ سستے داموں میں کھانے پینے کی چیزیں جہاں غریب بھی شکم سیر ہوجاتے ہیں۔اسی خاک سے رابندرناتھ ٹیگور اور قاضی نذرالاسلام جیسے مفکر و فلسفی پیدا ہوئے۔ یہاں کے کل کل میں گیتانجلی کا رس اور قاضی صاحب کا سرتال بسا ہوا ہے۔اسی سرزمین سے کھودی رام بوس، نیتا جی سبھاش چندر بوس،اور مولانا ابولکلام آزاد وغیرہ نے آزادی کا نعرہ بلند کیااور سی وی رمن، رابندر ناتھ ٹیگور،مدر ٹریسااورامریتا سین نے نوبل انعام پاکر ہندوستان کا نام روشن کیا۔ مذکورہ علمی ، ادبی اور سماجی ہستیوں کی بدولت یہاں کے لوگوں کا شعور بالیدہ ہوا اور ان میںعلم پروری، حب الوطنی، انسان دوستی اور ادب نوازی کا رجحان پروان چڑھا۔ تاریخ وتہذیب کے اس مرکز میں چند ماہ قبل اردو کے ’انیس ‘نے باغ ’نعیم‘ آراستہ کیا تھاجس کو مقامی اور بیرونی ادیب ودانشور کی شرکت نے گل گلزار بنا دیا۔راقم کو بھی اس محفل ادب سے خوشہ چینی کا شرف حاصل ہواجو ڈاکٹر نعیم انیس کی تگ ودو سے مغربی بنگال اردو اکیڈمی کے مولانا ابوالکلام آزاد آڈیٹوریم میںمنعقد ہوا۔یہاں سیمینار کا ماحول بھی خوب تھا ۔ طلبا وطالبات کے علاوہ نوجوان اور بزرگ ادیب و شاعر نہ صرف موجود تھے بلکہ اپنی موجودگی کا احساس بھی دلاتے تھے۔ادب دوست، با ذوق اور خوش مزاج سامعین ’واہ واہ بہت خوب ‘کے ذریعے داد وتحسین سے بھی نوازتے اور مقالہ نگاروں کی حوصلہ افزائی بھی کرتے۔ خطبہ صدارت بغور سماعت کرتے۔درمیان میں ایک دوسرے پر چوٹیں بھی کی جاتی اور کوئی جملہ کس دیا جاتا جس سے ماحول لالہ زار ہوجاتا۔ دودن کا یہ خوبصورت اجتماع نہایت کامیابی کے ساتھ انجام کو پہنچا۔یہ دوروزہ قومی سیمینار ڈاکٹر نعیم انیس کی انتھک محنت اور مغربی بنگال اردو اکیڈمی کی معاونت کا ثمرہ ہے۔ اس پروگرام کے آغاز سے انجام تک کا سفر طے کرانے میں ڈاکٹر نعیم انیس نے جتنی تگ و دو کی ہے وہ ناقابل بیان ہے۔ ان کی جد وجہد اور محبت نے اردو کے نامور تخلیق کاروں اور نوجوان قلم کاروں کو یکجا کیا۔جن میں حسین الحق، سید محمد اشرف اور ترنم ریاض خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔کولکاتا کے ادبی افق پر اردو کے بے شمار درخشاں ستارے ہیںجن کی تابندگی کاروان ادب کو نشان منزل بتارہے ہیں۔انیس رفیع، عاصم شہنواز شبلی، ف س اعجاز، نعیم انیس، دبیر احمد،ابوذر ہاشمی، جاوید نہال حشمی،نوشاد مومن،احمد کمال حشمی،شبیر احمد،اصغر شمیم، شاہد اقبال و غیرہ۔ ان کے علاوہ بھی بہت سے بزرگ اور نوجوان ادیب وشاعر اور صحافی ہیں جن تک راقم کی رسائی نہیں، یہ تمام نئے پرانے چراغ اپنا خون جگر جلا کر بزم اردو کو جگمگا رہے ہیں۔اس سلسلے میں مغربی بنگال اردو اکیڈمی کی خدمات بھی قابل ستائش ہے جو بنگال اور بالخصوص کولکاتا میں اردو زبان وادب کے فروغ اور اس کی ترویج واشاعت میں کوشاں ہے۔اس اکیڈمی کے تمام ارکان اور ممبران قابل مبارکباد ہیں۔کیا جانے کہ ہوگی سیر میں سیر:۔ادبی محفل کے اختتام کے بعد تاریخی اور تفریحی مقامات کی سیربھی کافی دل چسپ رہی۔دیرینہ رفیق مولانا ابرار عالم مصباحی کی رفاقت، ضیافت اور معیت دوبارہ جانے کی خواہش دل میں بار بار پیدا کر رہی ہے۔ کولکاتا کے معروف اور کثیر مسلم آبادی والا علاقہ خضرپور میں ان کی رہائش اور مشہور اصلاحی و فلاحی تنظیم ’’دعوت قرآں‘‘ سے ان کی وابستگی ہے۔ اس تنظیم کا بنیادی مقصددعوت قرآن کو عام کرنا اور معاشرے میں امن و آشتی، انسان دوستی اور جذبہ خیر سگالی کو فروغ دینا ہے۔ کالج میں زیر تعلیم طلبا کی تربیت اور ان میں تفہیم قرآن کی صلاحیت پیدا کرکے دینی و عصری علوم کے مابین خلا کو پر کرنا اس کا مشن ہے۔ گویا ایک ہاتھ میں سائنس ہو تو دوسرے میں قرآن بھی ہو تاکہ افراط و تفریط سے نکل کر خوب صورت معاشرہ کی تشکیل ممکن ہوسکے۔ اس کے لیے کتابوں کی اشاعت و تقسیم، سمر کلاسیز کا اہتمام، کیریئر کائونسلنگ اور پیس اینڈ ہیومنیٹی ڈے کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ دوسری طرف غریب و نادار طلبا/ افراد کی کفالت، بیماروں کی عیادت اور علاج معالجہ اس کے فرائض میں شامل ہیں۔ کل ملاکر ’دعوت قرآن‘ بے حد فعال تنظیم ہے ۔ میرا خیال ہے ملک بھر میں ایسی تنظیموکی کثرت ہونی چاہیے جو خلوص اور نیک نیتی سے قرآنی تعلیمات کو عام کرے ۔خیر! ان کے ساتھ کولکاتا کی شان وکٹوریہ میموریل کی سیر پر ہم نکلے ۔وسیع و عریض رقبے کے درمیان میں سنگ مرمر کی عالیشان عمارت ملکہ وکٹوریہ کی یاد میں تعمیر کی گئی ہے جو میوزیم کی شکل میں آج بھی سیاحوں کو ملکہ کی یاد دلاتی ہے۔ اس میوزیم میں ملکہ وکٹوریہ اور انگریز حکمراں سے متعلق یادگار کے علاوہ فارسی اور اردو کے بہت سے مخطوطے بھی نمائش کے لیے موجود ہیں۔ سنگ مرمر کی یہ خوب صورت اور عالیشان عمارت زائرین کو دعوت نظارہ دے رہی ہے ساتھ ہی ساتھ عبرت آموز بھی ہے کہ اپنے وقت کا کتنا بھی بڑا شہنشاہ ہو ’اس سرا میں نہیں قیام بہت‘۔ میوزیم کے اندر دیواروں پر ملکہ وکٹوریہ کا فرمان انگریزی اور اردو میں کندہ ہے جس میں لکھا ہے کہ کسی بھی بنیاد پر تعصب اور حق تلفی روا نہیں نیز جو جس کام اور عہدہ کا اہل ہو اسی کو وہ ملنا چاہیے ۔ ایک بہتر معاشرہ کی تشکیل کے لیے اس فرمان کی کتنی اہمیت ہے سبھی جانتے ہیں۔ یہاں سے ہم چڑیا خانہ گئے۔ چڑیا خانہ بھی خوب قید خانہ ہے جہاں رنگ برنگے چرند و پرند قید و بند کی زندگی گزار کر انسانوں کو تفریح طبع فراہم کر رہے ہیں۔ دنیا کے مختلف گوشوں میں پائے جانے والے پرندے اور جانور یہاں موجود ہیں جنھیں دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ یہ اپنے ڈار سے بچھڑ گئے ہیں۔بڑے بڑے مگر مچھ، شیر اور دیگر جنگلی جانور یہاں بے بسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔’تفریح کے ساماں ہوں میسر توسزا کیا‘ان درندوں کو انسانوں کے بیچ رکھنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کی درندگی والی صفت انسانوں میں در آئی ۔ اب جانورں سے ڈر نہیں لگتا بلکہ انسانوں سے ڈر لگتا ہے۔ ان کے اندر چھپی درندگی سے ڈر لگتا ہے۔ نہ جانے کب اس کے دانت اور پنجے نکل آئے اور انسان اور انسانیت کا خون پی جائے۔ جانوروں اور انسانوں میں ایک بڑا فرق یہ بھی ہے کہ جانور محض انسان کو نقصان پہنچا سکتا ہے تاہم انسان ، انسان کے ساتھ ساتھ انسانیت کو بھی زک پہنچا سکتا ہے۔ پھر ہم علی پور میں واقع نیشنل لائبریری بھی گئے تاہم وقت کی کمی کے باعث ایک دروازہ سے داخل ہوکر دوسرے سے نکل گئے۔ حکومت ہند کے وزارت تہذیب و ثقافت اور سیاحت کے زیر انتظام تیس ایکڑ کو محیط یہ ہندوستان کی سب سے بڑی لائبریری ہے۔ یہاں مختلف موضوعات پر 2.2 ملین کتابیں موجود ہیں مگر افسوس کہ استفادے سے ہم محروم رہے شاید یہ محرومی اور تشنگی پھر اس دیس میں لے جائے ۔ بہر حال اس علمی وا دبی سفر میںسیر و سیاحت کا بھی لطف خوب آیا۔ اس انجمن میں اب تو جانا ہے بار بار دیوار و در کو غور سے پہچان لیا ہے