ایم۔یونس ؔ، کمرہٹی کولکاتا
9903651585
یہ چیونٹیوں کا دیس تھا۔ ان کے ملک پر بد مست ہاتھیوں کو مسلط کر دیا گیا تھا۔ ان کا اپنا کوئی ملک نہیں تھا۔ جس تیس کے ملک میں اپنی زندگی گزاررہے تھے ۔ ایک ملک کے سربراہ نے ان کی مکاری اور بگڑی عادتوں سے اتنا برہم ہوا کہ انہیں بے دریغ قتل عام کیا ۔ تاریخ میں یہ سانحہ ہولو کاسٹ کے نام سے مشہور ہے۔ جو زندہ بچے انہیں ملک سے کھدیر دیا گیا۔ یہ کہا ںجاتے !؟ کون سی حکومت انہیں قبول کرتی۔ بڑے ہی عقل والے تھے یہ بد مست ہاتھی۔ شاطر سربراہوں سے مل کر سازشیں رچیں۔ گورے گورے سفید نسل والی جارح قوم جن کی حکومت بیشتر دنیا میں تھی ۔ ان کے حال پر ترس کھایا اور اس مکار قوم کو چیونٹوں کے ملک میں اپنی طاقت کے بل بوتے پر بسا دیا۔ کمزور جتنا بھی چنگھاڑ لے وہ طوفان کا مقابلہ نہیں کر سکتاہے۔ چیونٹیوں کے دیس کے ارباب اقتدار کمزور ہو چکے تھے۔ ان کی چھاتی پر، ان کی زمین کا ٹکڑا چھین کر اس ظالم خونخوار ، انسان نما حیوان کی آبادکاری کی گئی(یہ منصوبہ ۱۴؍ مئی ۱۹۴۸ء کو عمل میں آیا)۔ اس بد مست شعبدہ باز ہاتھیوں کے ملک کا نام ’اسرائیل‘ پڑا۔ چیونٹیوں کے گھر میں ان سفاک ہاتھیوں کا گھسنا، یہیں سے چیونٹیوں کی زندگی کی بربادی کی کہانی شروع ہو تی ہے۔
آج پچھہتر سال بیت گئے۔ ان چیونٹیوں کا ملک اپنی حدود میں دن بدن سمٹا چلا جا رہا ہے جیسے کوئی سرکش سمندر اپنے جزیرہ کو دھیرے دھیرے سانپ کی طرح نگلتا رہتا ہے۔ چیونٹی ہو یا انسان ضمیر زندہ ہے تو وہ سیسہ پلائی دیوار ہے ورنہ بے جان ہے۔ چیونٹی کا مقابلہ ہاتھی سے کیا!؟، ہاتھی اپنا ایک پائوں چیونٹی کے جھونپڑے پر رکھ دے تو آن کی آن میں اس کا جھونپڑا ریزہ ریزہ ہو جائے۔ اس زمینی تقسیم کے وقت یہ چیونٹیاں اپنی دفاعی قوتوں سے کمزور و لاچار ضرور تھیں مگر ان کا ضمیر مردہ نہیں ہوا تھا۔ ان کی انا زندگی تھی۔ یہ حقیقت تھی کہ فلسطین کی زمینی تقسیم نے فلسطینیوں کا چین و سکون چھین لیا تھا۔ انہوں نے ’اسرائیل‘ کو بحیثیت ملک قبول کرنے سے نکار دیا ۔ ان چیونٹیوں نے اپنی کمزور دفاعی طاقتوں کو منظم کرنا شروع کر دیا۔ دشمن کی طاقت کی تفاوت، زمین و آسمان کی طرح تھی روبرو جنگ لڑنا ان کے لئے آسان نہیں تھا۔ دوسری طرف اس بات کا اعادہ کر لیں کہ یہ نا ممکن بھی نہیں تھا۔ ہر فلسطینی اپنے ملک کی بقا و سا لمیت کے لئے ہتھیار اٹھانے کا حلف لے رہا تھا۔ وہ سب جنگجو، اس بدمست ہاتھیوں کی سونڈ کاٹ ڈالنا چاہتے تھے۔ انہیں اپنی اللہ کی ذات پر بھروسہ تھا۔ ان کے پاس مستحکم ایمان تھا جو انہیں جہاد کی دعوت دے رہی تھی ۔ یہ جنگ بہت لمبی تھی جو قتل و خون مبنی تھا۔ بے اسلحہ چیونٹیوں کی یہ قوم اپنے سر پر کفن باندھ لیا تھا۔ نتیجتاً یہ چیونٹیاں ان خونخوار، بد مست ہاتھیوں کے پائوں تلے روندی جانے لگیں۔ اس قتل عام اور اس کشت و خون کی خبریں دنیا کے ہر گوشے میں پہنچتی رہی۔ دنیا کا کوئی ملک ان مظلوم چیونٹیوں کا اعلانیہ مددگار یا مسیحا بن کر سامنے ابھر کر نہ آسکا۔ چیونٹیوں کا یہ خوب صورت ملک، جنہیں دنیا فلسطین کے نام سے جانتی ہے۔ ان کی مقدس عبادت گاہ ’’ بیت المقدس‘‘ پر یہ انسان نما حیوانوں کی طاقت کے زور پرغاصبانہ قبضہ ہو گیا۔ فلسطین کی آبادی دھیرے دھیرے غزہ تک سمٹ کر رہ گئی ہے۔ چیونٹیوں کے دیس میں کئی جہادی تنظیمیں پیدا ہوئیں جن کا بنیادی نصب العین اپنے ملک کو غاصبانہ صیہونی طاقتوں سے آزاد کرانا تھا۔ دوسری طرف جارحیت و بربریت سے لیس طاقتیں ،اپنے جدید ہتھیاروں سے ان چیونٹیوں پر حملہ آور ہوتی رہیں جو کبھی اتنی گہری اور شدید ہوتی تھیں کہ ان مظلوم فلسطینیوں کے خون سے ان کی ہی اپنی زمین لال ہو جایا کرتی تھی۔اس بربریت کی کھلی تصویریں فلسطینی دنیا والوں کے سامنے دکھلا تے رہے۔ انصاف کی دُہائی چاہتے تھے۔ دنیا کا سب سے بڑا منصب، اقوام متحدہ کو بھی سانپ سونگھ گیا تھا بلکہ ان کی جگہ انصاف پسند و ہمدرد ملکوں نے ان روح فرساجھڑپوں اور شب خون کی ہمیشہ سخت الفاظ میں مذمت کی۔ بہت سارے ممالک نے ان صیہونی طاقتوں کی اس سفا کا نہ قتل عام پر احتجاجی جلوس بھی نکالا۔ پھر بھی معاملہ وہیں کا وہیں، پتھر کی طرح جمود رہا۔ ہٹلر کی کٹرپن حکومت میں یہ اجڑے ہوئے بدمست ہاتھی قوم اس نئے ملک میں آباد ہوتے ہی اپنے پائوں مضبوط کرنے لگے۔ جدید ہتھیاروں سے اپنی دفاعی طاقتوں کو اندرونی طور پر خوب مضبوط کیا۔ انہیں جرمنی سے اجڑنے اور انخلا ہونے کی الم ناک داستان اچھی طرح یاد تھی۔ اس ہولو کاسٹ سانحہ میں تقریباً چھ میلین یہودی موت کے گھاٹ اتار دیئے گئے تھے۔ وہ فلسطین میں اپنے اوپر دوسرا ’ہولو کاسٹ‘ کبھی برداشت نہیں کر سکتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ جدید سائنس و ٹیکنو لوجی کی طرف زیادہ متاثر ہوئے۔ وہ اپنے اس مشن میں کامیاب بھی رہے۔ کچھ ہی دنوںمیں وہ دنیا کے اسلحہ بردار طاقتوں میں شامل ہو گئے۔
اونٹ اور مالک کا کھیل چلتا رہا۔ صیہونی طاقتیں جو ہٹلر کی حکومت میں مظلوم اور معتوب بنی ہوئی تھیں۔آج اسی ہٹلر کے فارمولے پر عمل کرتے ہوئے فلسطینیوں کی عرصۂ حیات کو تنگ کر رہی تھیں۔ خیمہ اور زمین دونوں ہی ان چیونٹیوں کا تھا۔ انہیں ہر حال میں اپنے ملک کو بچانے کے لئے ہمہ تن تیار رہنا تھا۔ سات دہائیوں سے یہ چیونٹیاں اپنی کمتر جنگی اسلحہ کے باوجود خون ریز تصادم سے بنرد آزما ہوتی رہیں۔ ان چیونٹیوں کی قوم میں بہت ساری مدافعتی تنظیمیں پیدا ہوئیں۔ ان سب کا ایک ہی مقصد تھا۔ وہ اپنے ملک کے وجود کو بچانا چاہتی تھیں۔’فلسطینی لبریشن فرنٹ‘ کی مجاہدہ ’ لیلیٰ خالد ۱۹۶۸ء میں ہوائی جہازوں کی ہائی جیکنگ کر کے فلسطینیوں کے مسائل کو دنیا کے پردے پر لائیں۔کتنے فلسطینیوں کو اس ہائی جیکنگ کے بدلے قید سے رہائی کرائیں۔اسی طرح یاسر عرفات، فلسطین کا ایک عظیم رہنما تھے۔ ان کی ’الفتح‘ تحریک پوری دنیا کو متاثر کیا۔ ان تحریکوں کے باوجود فلسطین کی سرحدیں اوران کی زندگی کے وسائل مسدود ہوتے جا رہے تھے۔ امن کی چاہ میں فلسطینی تحریک نے کئی معاہدے کیے مگر یہ بد مست ہاتھی اپنے وعدہ خلافی سے باز نہیں آئے۔ وہ فلسطینیوں پر خطرناک حملے کرتے رہے۔ کبھی نوجوانوں کو تو کبھی معصوم بچوں کو گولی کا نشانہ بناتے رہے۔ فلسطین دنیا کے سامنے گریہ و زاری کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا ۔ ان بد مست ہاتھیوں کو اس طرح کے نقصان پہچانے سے دنیا کی کوئی طاقت روک نہ سکی۔ ان ظالم طاقتوں کے پیچھے دنیا کی سب سے بڑی طاقتور ملک امریکہ کی پشت پناہی حاصل تھی۔ فلسطین رہنما، یا سر عرفات، کے تعلقات مسلم ممالک کے علاوہ دنیا کے اعتدال پرست ملکوں سے بھی خوش گوار تعلق تھے۔ ۱۳؍ ستمبر ۱۹۹۳ء میں اسرائیلیوں سے ’اوسلو‘ معاہدہ کے بعد یاسر عرفات کی ’الفتح‘ تحریک سرد پڑنے لگی۔ اس وقت فلسطین کی اس کرب زمین پر ۱۹۸۷ء میں ایک اور اسلامی مدافعتی تنظیم ’حماس‘ پیدا ہوئی۔ یہ تنظیم ایک مستحکم اسلامی بنیادوں کو ماننے والی جنگجوئوں کی تھی۔ ان کے پاس بھی ان بد مست ہاتھیوں سے دو بدو لڑنے کے لئے توپ بندوق، بم اور جدید اسلحہ نہ تھے لیکن ان کے پاس ایمان کی حرارت ضرور تھی۔ انہوں نے اپنے فلسطینی بھائیوں کو، ان کے دو ہاتھوں کی قوتوں کو فولادی طاقتوں سے تشبیہہ دی۔ ایک ہاتھ میں پتھر اور دوسرے ہاتھ میں غلیل، دشمنوں کو بھگانے کا ایک انوکھا طریقہ تھا۔ یہ طریقہ دشمنوں کو ہرا تو نہیں سکتا تھا مگر ہراساں ضرور کر رہا تھا۔ نوجوان، بوڑھے، خواتین، بچے ، صیہونی فوجوں کے بکتر بند گاڑیوں کو دیکھتے ہی ان پر پتھر و غلیل چلانا شروع کر دیتے تھے۔ اس دفاعی جنگ کا انجام بھی وہی تھا جو کدو اور چھری کے درمیان چلنے والے وار کا ہوتا ہے۔ کدو چھری پر پڑے یا چھری کدو پر پڑے۔ دونوں ہی حالتوںمیں موت کدو کی ہونی تھی۔ مگر حماس کی یہ تحریک فلسطینیوں کے سوتے ضمیر اور حوصلوں کو جگانے کا ایک منفرد طریقہ تھا۔ اس خشت باری میں چیونٹیوں کی قوم کی جانیں ان دشمنون کی گولیوں سے جاتی رہیں۔ اسرائیلی دستوں کو فلسطین کی زمین پر کھلی چھوٹ تھی ہے وہ جتنا چاہے فلسطینیوں پر استبداد کر لیں۔ دنیا کی کوئی عدلیہ انہیں سزا نہیں دے سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیلی فوجیں فلسطینیوں کو سڑی گلی سبزیاں سمجھ کر اپنے بوٹوں سے روندتے رہتے ہیں ۔ وہ آئے دن کبھی ’ہیکل ِ سلیمانی‘ کبھی فلسطینیوں کو نماز پڑھنے سے باز رکھنے کے لئے بیت المقدس کی بے حرمتی کرتے رہتے ہیں ۔ جس کی وجہ سے دونوں فرقوں میں جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں۔ یہ بندوق بردار ان معصوم نہتھے فلسطینیوں کو پکڑ کر زدوکوب کرتے ہیں اور انہیں بندوقوں کی نوک پر قیدی بنا کر گھسیٹتے ہوئے لئے چلے جاتے ہیں۔ اس طرح کتنے فلسطینی ، اسرائیلی جیل کے تہہ خانوں میں پڑے سڑ رہے ہیں۔ ان کی رہائی کی کوئی صورت حال نہیں ہے۔ ۲۰۲۱ء میں اس وحشی درندوں نے غزہ میں گیارہ دنوں تک ہوائی بمباری کرتے رہے ۔فلسطینیوں کی تباہی و بربادی کے المناک مناظر دنیا اپنی آنکھوں سے دیکھتی رہی۔اس ایئر اسٹرائیک میں انسانی امواتیں بھی ہوئیں۔
حماس جیسی مدافعت تحریک اپنے ملک کی تباہی کو کیسے برداشت کر سکتی تھی۔ وہ اپنے گلے میں پڑے ہوئے نیزے اوراس سے رستے خون کو کب تک سہتے رہتے ۔ یہ چیونٹیوں کا دل جو کل تک ہاتھوں میں پتھر لئے ہوئے تھے۔ آج وہ میزائیل اور خطرناک ہتھیاروں سے لیس ہونے پر مجبور تھا۔ ان گوریلا جنگجوئوں نے ۷؍ اکتوبر ۲۰۲۳ء کا دن چنا۔ اس دن انہوں نے اچانک اسرائیلیوں پر پانچ ہزار راکٹ زمین، سمندر اور فضا سے داغے ۔ اس ناگہانی حملے میں ۲۵۰؍ اسرائیلی ہلاک ہوئے ۔ ۵۰ سے زائد یر غمال بنا لئے گئے۔ دنیا کے منظر نامہ پر یہ جیالے مدافعتی قوتوں سے صیہونی طاقتوں کے دانت کھٹے کر دیئے ۔ تکبر اور غرور کی طاقتوں کا پرخچہ چند لمحوں میں نکل گیا۔ حماس نے اس آپریشن کا نام’’ الاقصیٰ طوفان‘ رکھا ہے۔ دشمن کا گھر جلا تو ساری دنیا میں آگ لگ گئی۔ غیر منصفانہ طاقتوں کی سربراہی کرنے والی حکومتیں ماتم کناں بن گئیں۔ فاشسٹ طاقتوں نے ان مظلوم جنگجوئوں کی اس یلغار کو دہشت گرد ہونے کا تمغا دیدیا ہے۔ ان بدمست ہاتھیوں نے اس خون ریزی کا بدلہ لینے کے لئے اندھا دھند جنگی طیاروں کے ذریعہ غزہ پر بم گرا رہے ہیں۔ بھری آبادیاں لقمۂ اجل بنتی جا رہی ہیں۔ اونچی اونچی عمارتیں ملبوں کی ڈھیر بن گئی جن کے اندر مظلوم فلسطینیوں کی لاشیں دبی سڑ رہی ہیں ۔ فلسطینیوں سے نفرت و انتقام کی منافرت کے اثرات امریکہ کے شہر شکاگو میں دیکھنے کو ملا۔ ایک 70سالہ جویس (jewis) نے ایک فلسطینی بچے پربدلے کی آگ میں چاقو سے 26وار کیا۔ ساتھ ہی بچے کی 32سالہ ماں کو بھی زخمی کر ڈالا۔ بچہ توموقع واردات ہی پر مرگیا مگر ماں کو کسی طرح سے بچا لیا گیا۔ آج ۲۳ دنوں سے زائد دن گزر چکے ہیں ۔ جنگ جاری ہے ۔ اسرائیلی دفاع کے ایئر اسٹرائیک سے ایک ہسپتال بھی زد میں آگیا۔ جہاں 500کے قریب فلسطینی جان بحق ہوئے ہیں۔ ابتک کی لڑائی میں شہید ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد آٹھ ہزار سے زیاد ہ تجاوز کر چکی ہے۔ پانی ، ایندھن، رسد، بجلی سب کچھ بند ہے۔
یہ بد مست ہاتھیوں سے مظلوم چیونٹیوں کی جنگ، ان کے اپنے ملک کی بازیابی کی جنگ ہے۔ یہ چنگاری ۱۴؍ مئی ۱۹۴۸ء کو لگی تھی۔ اس کے اختتام کی کوئی منزل نظر نہیں آرہی ہے۔ اس جنگ و جدال کے شعلوں میں کتنی نسلیں اپنے وطن کی سابقہ ہیّت کو پا نے کے آہوتی دیتی آرہی ہیں ۔ یہ جنگ اس وقت تک جاری رہے گی جب تک ان فلسطینیوں کی رگوں میں خون کا آخری قطرہ باقی رہے گا۔
آج دنیا کا ہر مسلمان فلسطینیوں کے اس درد ناک مصائب میں آنسو بہا رہا ہے۔ یہ ملک نبیوں کی آمدکی پاک سر زمین ہے۔آپ ﷺ نے اس پاک زمین پر قائم قبلہ اول ’مسجد اقصی‘ میں نبیوں کی امامت کی تھی۔ شہر کنعاں بھی اسی وادی میں ہے۔ اس وقت ہر مسلمان فلسطینیوں کی فتح یابی کے لئے رب العزت کے دربا ر میں دعا گو ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمتوں سے کبھی مایوس نہیں ہوناچاہئے ۔ وہ جب چاہا تو فرعون دریابرد ہوا۔ وہ جب چاہا تو ابرہہ کی لشکر تباہ و برباد ہو گئی۔ وہ جب چاہا تو آتشِ نمرود ابراہیم علیہ السلام کے لئے سلامتی کا باعث بن گئی۔ ایک دن یقینا اللہ تعالیٰ کی رحمتوں سے ان مظلوم فلسطینیوں کی وادی میں فتح مبین کا سورج ضرور طلوع ہو گا جو برسوں سے ہو رہے جور و ظلم کے سیاہ بادلوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے تہہ و بالا کر دیگا آمین!میں اس شعر سے اپنے مضمون کا اختتام کر رہا ہوں۔
گھیرائو میں ہم صدیوں سے تھے ہمیں کوئی بچانے نہ آیا
اک دن ہم نے گھیرا ڈالا ہر ظالم نے شور مچایا