گجرات کا نگاڑا، بھارت جوڑو یاترا

0
0

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

رام مندر افتتاح کے بعد میڈیا کا شور کچھ کم ہوا۔ اس سے قبل میڈیا کا پورا فوکس رام مندر پر تھا۔ ہر روز نت نئی خبریں آرہی تھیں، چھوٹی چھوٹی تفصیل بتائی جا رہی تھی۔ مثلاً راجستھان سے 600 کلو دیسی گھی آرتی کے لئے بیل گاڑی سے ایودھیا پہنچ گیا۔ مندر کو گجرات کے آرکٹیکٹ نے ڈزائن کیا ہے۔ سونے چاندی سے مزین 500 کلو کا نگاڑا اور 1100 کلو کا دیپک گجرات سے ایودھیا پہنچا ہے۔ یہ دیپک 501 کلو گھی 15 کلو کی بتی سے روشن ہوگا۔ 44 فٹ اونچا جھنڈا اور 2100 کلو کا گھنٹہ مندر میں لگایا گیا ہے۔ مندر کے دروازوں پر سونے کی پرت چڑھائی گئی ہے۔ پرساد کے لئے گجرات نے 1256 کلو کا لڈو ایودھیا بھیجا ہے۔ ویسے جگہ جگہ سے مندر میں لڈو بھیجے جانے کی خبریں آرہی تھیں۔ بتایا گیا ہے کہ 4400 کلو لڈو کا بھوگ لگایا جائے گیا۔ پرساد کے لڈو چھ ماہ تک خراب نہیں ہوں گے۔ رام کا بت کالے رنگ کے شالی گرام پتھر سے بنایا گیا ہے۔ جسے کرناٹک کے بت گر ارون یوگ راج نے تیار کیا ہے۔
وشو ہندو پریشد کے نائب صدر اور رام جنم بھومی ٹرسٹ کے جنرل سکریٹری چمپت رائے نے بتایا تھا کہ پران پرتیشٹھا کے وقت گربھ گرہ میں پانچ لوگ رہیں گے۔ ان میں آر ایس ایس کے چیف موہن بھاگوت، وزیراعظم نریندر مودی، یوپی کی گورنر آنندی بین پٹیل، یوگی ادتیہ ناتھ اور مندر کے مین پجاری مہنت ستیندر داس شامل ہیں۔ پوجا کا مین ججمان نریندر مودی کو بنایا گیا تھا لیکن بعد میں رام جنم بھومی ٹرسٹ کے ٹرسٹی انل مشرا کا نام ججمان کے طور پر طے پایا۔ انہوں نے اپنی اہلیہ کے ساتھ پران پرتیشٹھا کی پوجا کی اور مندر کا افتتاح مودی جی کے ہاتھوں ہوا۔ اس تقریب میں فلمی ہستیوں امیتابھ بچن، کٹرینا کیف، عالیہ بھٹ، ملائکا اروڑا، انوپم کھیر، مادھوری دیکشت، کنگنا راناوت، اجے دیوگن، رتن ٹاٹا، گوتم اڈانی، مکیش، انل امبانی، سچن تیندولکر، ویراٹ کوہلی وغیرہ کے علاوہ سیاسی لیڈران کو مدعو کیا گیا تھا۔ حالانکہ پوری کے شنکراچاریہ سوامی نشچلا نند، جوشی مٹھ کے اوی مکتیشورا نند اور دیگر شنکرا چاریوں نے اس تقریب کو نہ صرف ہندو مذہب کے خلاف بتایا بلکہ اس میں شامل ہونے سے بھی انکار کر دیا۔ اوی مکتیشورا نند سرسوتی کا کہنا ہے کہ جس طرح ادھورے مندر میں پران پرتیشٹھا کی جا رہی ہے اس سے اسْروں (کالی طاقت) کو طاقت ملے گی۔ جس کی وجہ سے ملک میں آفات آ سکتی ہیں۔ مگر بی جے پی اور آرایس ایس کسی بھی چیز کی پرواہ کئے بغیر اس ایونٹ کو 2024 کے الیکشن میں بھنانا چاہتی ہے۔ تبھی تو ان کے کارکنان گھر گھر جا کر چاول ہاتھ پر رکھ کر رام مندر جانے کی دعوت دے رہے ہیں۔ اس طرح وہ عوام سے رابطہ کر اپنا ووٹ تلاش کر رہے ہیں۔ بڑی تعداد میں لوگ رام کی تصویر بنا بھگوا جھنڈا گاڑیوں پر لگائے سڑکوں پر دکھائی دے رہے ہیں یہ بھی اسی سلسلہ کی کڑی ہے۔
کانگریس سمیت زیادہ تر اپوزیشن لیڈران نے رام مندر کی تقریب میں شامل ہونے سے انکار کیا ہے۔ کانگریس نے اسے بی جے پی آرایس ایس کا انتخابی شو بتایا ہے۔ راہل گاندھی نے پریس کانفرنس میں رام مندر کی تقریب میں شامل ہونے کے سوال پر کہا کہ ہم سبھی مذاہب کے ساتھ ہیں کانگریس سے بھی جو جانا چاہے جائے۔ لیکن ہمارے لئے جانا مشکل ہے ایک ایسے پروگرام میں جسے وزیراعظم جو ہمارے مد مقابل ہیں نے انتخابی پروگرام بنا دیا ہے۔ اسے بی جے پی اور آرایس ایس نے پوری طرح انتخابی رنگ میں رنگ دیا ہے۔ کانگریس کے اندر کئی لیڈر پارٹی کے رام مندر تقریب میں شامل نہ ہونے کے فیصلہ سے متفق نہیں ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اس سے کانگریس کو نقصان ہوگا جبکہ پارٹی نے اس فیصلے کے ذریعہ ووٹروں کو اپنے سیکولر ہونے کا سیدھا پیغام دیا ہے۔ راہل نے انڈیا اتحاد کے بارے میں کئے گئے سوال کے جواب میں کہا کہ یہ ایک نظریاتی اتحاد ہے۔ جو بی جے پی، آرایس ایس کے نظریہ کے خلاف ہے۔ مجھے بھروسہ ہے کہ چھوٹی موٹی دقتیں ہیں ان کا حل نکال لیں گے۔ ہم ساتھ لڑیں گے اور انہیں ہرائیں گے۔ راہل گاندھی اس وقت بھارت جوڑو نیائے یاترا کے دوران آسام میں ہیں۔ انہوں نے اپنی یاترا کی شروعات منی پور سے 14 جنوری کو کی تھی۔ جہاں انہوں نے کہا تھا کہ بی جے پی آرایس ایس ملک میں اقتصادی، سماجی اور سیاسی نا انصافی کر رہی ہے۔ یہ ملک کی سبھی تہذیبوں پر حملہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے منی پور کو توڑ دیا ہے۔ جلایا بانٹا اور اپنی سیاست کا ہتھیار بنایا ہے۔
راہل گاندھی کا مذہب کو لے نظریہ بالکل صاف ہے۔ انہوں نے مذہب کے بارے میں کہا کہ میں اپنے مذہب کا فائدہ اٹھانے کی کوشش نہیں کرتا۔ مذہب کے اصولوں کے مطابق زندگی گزارنے کی کوشش کرتا ہوں۔ اس لئے میں لوگوں کی عزت کرتا ہوں۔ تکبر اور مغروریت کے ساتھ بات نہیں کرتا۔ نفرت نہیں پھیلاتا، یہی میرے لئے ہندو مذہب ہے۔ جب ان سے یاترا کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ یہ ایک نظریاتی یاترا ہے۔ جو مدعوں کو سامنے رکھے گی۔ انتخابی نظام میں بھی حصہ لیں گے۔
یہ یاترا بی جے پی کے تفریق پیدا کرنے والے خیالوں کے برعکس ویڑن پیش کرے گی۔ راہل گاندھی بی جے پی آرایس ایس کے ہندوتوا یا ہندو مذہب اور سیاست کو ایک کرکے ہندوتوا کی بالا دستی کے خلاف وہ اس نظریہ کی لڑائی لڑ رہے ہیں جو گاندھی، نہرو اور مولانا آزاد کی سوچ تھی۔ یہ ان کی اسی نظریاتی وابستگی کا اظہار ہے۔ مذہب اور سیاست الگ رہے، گاندھی نہیں چاہتے تھے کہ سیاست میں ہندو مذہب یا اسلام ہو بلکہ وہ چاہتے تھے کہ سیاست میں مذہب کا مطلب اخلاقیات، ایک دوسرے کی عزت، لحاظ، سادگی، برداشت اور برابری ہو۔ ایسا لگتا ہے کہ راہل گاندھی نے ان باتوں کو اچھی طرح سمجھا ہے۔ تبھی انہوں نے کہا کہ چھوٹی ریاستوں کو بھی وہی اہمیت ملنی چاہئے جو بڑی ریاستوں کی ہے۔ ناگا لینڈ سے آسام میں یاترا کے داخل ہونے پر شیو ساگر ضلع میں راہل گاندھی نے لوگوں کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ برسراقتدار بی جے پی اور آرایس ایس نفرت پھیلا رہے ہیں، اور عوام کا پیسہ لوٹ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سب سے زیادہ بد عنوان کوئی وزیر اعلیٰ ہے تو وہ آسام کا ہے۔ اس کا ہمنت بسوا سرما وزیر اعلیٰ آسام نے ترکی بہ ترکی جواب دیا اور کہا کہ گاندھی پریوار سب سے زیادہ بدعنوان ہے۔ یاترا میں مسلسل روکاوٹ پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ کئی جگہ یاترا پر حملہ ہوا اور لاٹھی چارج بھی ہو چکا یے۔ ہمنت بسوا سرما نے کہا ہے کہ اگر یاترا گوہاٹی شہر میں داخل ہوئی تو راہل گاندھی کے خلاف مقدمہ درج کر گرفتار کیا جائے گا۔ یہاں میڈیکل کالج اور نرسنگ ہوم ہیں ہم نے یہاں کی اجازت نہیں دی ہے۔ لکھیم پور آسام میں بھی یاترا پر حملے کی خبر ہے۔ راہل گاندھی کو مندر جانے سے بھی روکا گیا جبکہ پہلے انہیں اجازت دی گئی تھی بعد میں اسے رد کر دیا گیا۔
دراصل راہل کی یاترا میں شامل ہو رہے لوگوں کی بھیڑ کو دیکھ کر بی جے پی میں بوکھلاہٹ ہے۔
یاترا کی طرف سے دھیان ہٹانے کے لئے رام مندر کا نگاڑا بجایا گیا۔ یاترا ممبئی تک جائے گی جو لوک سبھا کی قریب سو سیٹوں کو کور کرے گی۔ وہ جہاں سے گزے گی وہاں کی عوام کے بنیادی مسائل پر بات ہوگی۔ جبکہ بی جے پی نہیں چاہتی کہ عوام اپنے مسائل کو لے کر سنجیدہ ہوں۔ اسی لئے عوام کو رام مندر میں الجھانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ میڈیا میں جس طرح کی خبریں چلائی جا رہی ہیں ان سے لگتا ہے کہ ملک میں رام مندر کے علاوہ کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔ نہ فاقہ کسوں کے بڑھنے کی کوئی فکر ہے، نی ورلڈ ہنگر انڈیکس میں بھارت کی کم ہوتی رینکنگ پر کسی کو تشویش ہے۔ نہ مہنگائی سے کسی کو پریشانی ہے، نہ بے روزگاری نوجوانوں کا کوئی مسئلہ ہے۔ حالانکہ 2.4 کروڑ نوجوان ہر سال روزگار مانگنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں۔ اسی کروڑ لوگوں کو حکومت مفت راشن دے رہی ہے۔ اس کی طرف بھی کسی کی کوئی توجہ نہیں ہے۔ آنے والی 15 فروری کو نریندر مودی یو اے ای میں مندر کا افتتاح کریں گے۔ اس سے قبل وہاں نریندر مودی کے زبردست استقبال کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ 2024 کے الیکشن تک گجرات کا نگاڑا یوں ہی بجتا رہے گا اور عوام اس کی آواز سن کر مست رہیں گے۔ اگر عوام وزیر اعظم کے مندر مندر گھومنے سے ہی خوش ہیں تو پھر کچھ کرنے کی کیا ضرورت ہے۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا