گائوں کی خواتین اپنی تعلیم مکمل کیوں نہیں کر سکتی

0
0

محمد الطاف ثاقِب
(سرنکوٹ پونچھ)

تعلیم دنیا کے ہر فرد کے لیے ضروری ہے۔ کوئی بھی مذہب ہو، کوئی بھی شعبہ ہو، کوئی بھی ذات ہو، کوئی بھی کام ہو ہر ایک چیز کے لیے تعلیم درکار ہے۔ تعلیم کا سیکھنا ہر ایک انسان کے لیے ضروری ہے۔ تعلیم وہ زیور ہے جو ہر جگہ کام آتا ہے، تعلیم کا سِکا ہر جگہ چلتا ہے۔ یہ ایک ایسا زیور ہے جس کو ہم سے کوئی بھی چرا نہیں سکتا اس سکے کو کوئی بھی بند نہیں کر سکتا اور نہ ہی یہ سِکا کبھی کھوٹا ہوتا ہے۔ تعلیم جیسی بھی ہو، کسی بھی پیشے کے لیے ہو اس کے لیے ایک استاد کا ہونا لازمی ہے۔ انسان پیدا ہونے سے لی کر مرتے دم تک کچھ نا کچھ سیکھتا رہتا ہے، کچھ اچھی باتیں اور کچھ بری باتیں، جس سے جو کچھ بھی سیکھا جائے وہ اس کا استاد ہی ہوتا ہے۔
آج کا موضوع ہے کہ تعلیم عورتوں کے لیے ضروری کیوں؟ سب سے پہلے ہم تعلیم کے بارے میں جانیں گے کہ تعلیم کیا ہے۔ تعلیم کے لفظی معنی تو "پروان چڑھانا "یا "پرورش کرنے” کے ہیں۔ تعلیم کا مقصد اندھیرے سے باہر روشنی کی طرف نکلنا اور تربیت دینے کے ہیں۔ تعلیم کا مطلب یا مقصد صرف اتنا ہی نہیں بلکہ تعلیم انسان کے اندر کی صلاحیتوں، اہلیتوں، ہنر اور کردار کو باہر لانا اور ان کی خصوصیات کی ترسیل کرنا ہے۔ تعلیم کوئی دور جدید کی ایجاد نہیں ہے اس کا وجود تو تب سے ہے جب سے انسان کا وجود اس دنیا پر آیا ہے۔ تعلیم انسانی تہذیب کا ایک اہم حصہ ہے۔ انسان کو ترقی یافتہ تعلیم ہی بناتی ہے، تعلیم کے ذریعے ہی ہم زندگی کو سمجھتے ہیں۔ انسان کے اندر سوچنے کی صلاحیت، مسئلے حل کرنے کی صلاحیت صرف تعلیم ہی دیتی ہے۔دنیا کی کسی بھی چیز کو سیکھنا تعلیم کہلاتا ہے۔پونچھ کے مختلف باشندوں سے بات کی تو انہوں نے بھی بتا کہ عورتوں کی تعلیم میں کونسی رکاوٹ حائل ہوتی ہیں۔
پونچھ کے بالائی علاقوں میں عورتوں کی تعلیم بہت ہی کم ہے اس سلسلے میں جب ہم نے بات کی تو بہت ساری وجوہات سامنے آئیں۔
سرفراز احمد کسانہ جن کا تعلق سرنکوٹ سے ہے یہ سماجی کارکن ہیں نے بات کرتے ہوئے بتایا کہ زیادہ تر لڑکیوں کی شادی کم عمر میں ہی کروا دی جاتی ہیں۔ جلدی شادی کروانے کی دو بڑی وجوہات ہیں (1) پہلی یہ کہ گاؤں میں ہر آدمی کی معاشی حالت بہتر نہیں ہوتی جس سے وہ اپنے بچوں اور بچیوں کا خرچہ اٹھا سکیں، کیونکہ لڑکی کیپاس سے اگر کہیں پیسے ختم ہو جائیں تو وہ اچانک سے کما نہیں سکتی۔ (2) دوسرا یہ کہ گائوں میں سماج کا رواج زیادہ معنی رکھتا ہے، سماج جو کہے وہ ہر آدمی مانتا ہے۔ ایک گاؤں میں جلدی شادی کروانے کا رواج عام ہے تو پھر ہر انسان ویسی ہی سوچ کا حامل ہو جاتا ہے کہ میں بھی اپنی بچی کی شادی جلدی کروا دوں۔ اور ایک غلط سوچ بھی گائوں کے لوگوں میں اکثر ہوتی ہے کہ عورت ویسے بھی دوسرے گھر جائے گی اس کو کس لیے پڑھایا جائے۔ اگر کوئی اپنی محنت کی کمائی سے اپنی لڑکی کو پڑھانا بھی چاہتا ہو تو وہ سماج کے قواعد و قانون سے باہر نہیں نکل سکتا یعنی کے جس کام کے کرنے کی خواہش ہو لیکن سماج کے دباؤ کی وجہ سے وہ نہیں کر سکتا۔ وہ اگر اپنی بیٹی کو کہیں دور پڑھانے کے لیے بھیجنا چاہتا بھی ہو لیکن سماج کے انکار کرنے سے وہ ایسا نہیں کر سکتا۔
جموں و کشمیر بالخصوص پیر پنجال کے دیہی علاقوں کی خواتین کو تعلیم سیکھنے کے حوالے سے مشکلات کا سامنا کرنے پر ہم نے دلناز بانو جو کہ مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے سرینگر کیمپس میں اسٹنٹ پروفیسر ہیں سے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ عورتوں کو دور دراز پڑھائی کے لیے روائیتی اور معاشی وجہ سے نہیں بھیجا جاتا۔ روائیتی یہ کہ گاؤں میں لڑکیوں سے زیادہ لڑکوں پر اعتماد ہوتا ہے اور لڑکیوں پر کم۔ گائوں میں اکثر یہ سوچا جاتا ہے کہ اگر لڑکی کہیں باہر چلی گئی تو پتا نہیں کیا ہو جائے گا ، سماج سے ڈرتے ہوئے بھی لڑکیوں کو باہر اکیلے جانے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ اور معاشی یہ کہ خواتین کو تعلیم کے لیے دور دراز بھیجنے کے لیے گائوں کے لوگوں کے پاس استطاعت بہت کم ہوتی ہے جس سے وہ تعلیم کا خرچہ نہیں اٹھا سکتے۔ مثال کے طور پر ایک غریب آدمی گھر میں پالتو جانوروں کو پال پوس کر ان سے دودھ نکال کر یا کسی جانور کو بیچ کر پیسہ کما رہا ہے جس سے اس کا گھر چلتا ہے، اب اس کے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کہ وہ اپنی بیٹی کو کہیں باہر کسی ادارے میں بھیجے۔ ایک خاص رکاوٹ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ لوگوں میں ایک سوچ یہ بھی ہوتی ہے کہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد سرکاری ملازمت ملے یا نہ ملے ، کیونکہ ایک مرد تو تعلیم کے بعد بھی مزدوری کر کے زندگی گزار سکتا ہے لیکن ایک عورت ایسا نہیں کر سکتی۔ انہوں نے تفصیلی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ زیادہ تر بچیوں کو جہیز کی وجہ سے تعلیم میں رکاوٹ آتی ہے کیونکہ ان کے والدین یہ سوچتے ہیں کہ اگر ہماری بیٹی نے اچھی خاصی تعلیم حاصل بھی کر لی تب بھی اس کو جہیز دینا ہو گا اور اگر کچھ بھی نہ پڑھ سکی تب بھی جہیز دینا جہیز دینا ہی ہوگا اس سے اچھا ہے کہ اس کی پڑھائی کے خرچے کو بچا کر اسی کا جہیز دیا جائے۔ جہیز کی معاشرے میں بہت بری لت ہے جس کو ختم کرنا معاشرے کی اولین زمہ داری ہے۔ معاشرے میں ان برائیوں کو ختم کرنے کے لیے عورتوں کی تعلیم بہت ضروری ہے۔

سرکار نے عورتوں کی تعلیم کے لیے بہت سی اسکیمیں کھول رکھی ہیں جیسا کہ مشہور اسکیمیں "بیٹی بچائو بیٹی پڑھائو” ، "سوکنیا سمریدھی یوجنا” ، "بلیکا سمریدھی یوجنا” ، "سی بی ایس سی اڑان یوجنا” ، وغیرہ جیسی بہت سی اسکیمیں ہیں جن سے خواتین با آسانی تعلیم حاصل کر سکتی ہیں اور کچھ روزگار کے لیے ہیں جیسے، "سوادھڑ گرہ” ، "اجوالہ” ، "مخیلہ ای خاٹ” ، "فری سلائی مشین” وغیرہ جیسی اسکیموں سے خواتین کو معاشی مدد ملتی ہے لیکن یہ سب اسکیمیں ہر گھر تک نہیں پہنچتیں اس کو ہر گھر میں لاگو کرنے کے لیے سرکار اور ضلع انتظامیہ کو چاہیے کہ گاؤں گاؤں اوئیرنیس پروگرام چلائے جائیں جس سے ہر گھر میں سرکار کی اسکیموں کے بارے میں دیہی خواتین کو آگاہ کیا جائے۔ بچیوں کو اور ان کے والدین کو سمجھایا جائے کہ عورتوں کی تعلیم کو کیسے آسان بنایا جائے، خواتین کو ان کے تعلیمی حقوق کے بارے میں بتایا جا سکے اور اس سے معاشرے کو کیا فائدہ ہے۔ دوسرا یہ کہ پروفیشنل تعلیم کا ہونا بہت لازمی ہے ۔ اگر ہم ضلع پونچھ کی بات کریں تو پونچھ میں بی-ایڈ کا صرف ایک ہی کالج ہے اب اگر کوئی دیہی علاقے کی لڑکی استانی بننا چاہ رہی ہو تو وہ اتنی دور اس کورس کے لیے نہیں آسکتی۔ اس لیے انتظامیہ سے درخواست رہے گی کہ ہر تحصیل میں بی ایڈ، پالیٹیکنیک و دیگر پروفیشنل کورسس کے سرکاری ادارے ہونا ضروری ہے۔
ہر گاؤں میں ایک ہنر مندی ( skills) کا ٹریننگ سینٹر ہونا چاہیے۔ کالجوں کے ساتھ ہاسٹل بنانا جن سے طلبائاور بالخصوص خواتین کو کہیں رکنے میں پریشانی نہ ہو ۔ہر اسکول اور کالج میں خواتین کے لیے سیٹس کچھ فیصد مختص کی جائیں جس سے داخلہ لینے میں کوئی بھی رکاوٹ نہ آئے۔ اور دوسرا یہ کہ سرکاری نوکریوں میں دیگر ریاستوں کی طرح جموں و کشمیر میں بھی خواتین کے لیے جاب ریزرویشن مقرر کی جائے۔جس سے زیادہ سے زیادہ خواتین علم حاصل کر سکیں اور تعلیم مکمل ہونے کے ساتھ سرکاری ملازمت بھی حاصل کر سکیں۔سپیشل کوٹہ ملے گا تو ان کو ملازمت ملے گی جس سے خواتین خودمختار ہو جائیں گی۔ان کی خود مختاری سے دیگر خواتین بھی متاثر ہوں گی اور اسکولوں میں، کالجوں میں تعلیم کے لیے جائیں گی۔ خودمختار عورتوں سے باقی خواتینوں کو بھی حوصلہ ملے گا اور سوچ میں اضافہ ہو گا جس سے کہ معاشرے میں بہت بڑا بدلائو آئے گا۔
٭٭٭

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا