’’کیوں نہ وقت کو ضائع کئے بغیر ہم اپنے دل کو تبدیل کریں‘‘

0
0

 

 

 

 

قیصر محمود عراقی

ہندوستان کے موجودہ حالات میں ہر محب وطن ہندوستانی مایوس اورافسردہ ہے، اسے ملک کی معاشی حالت کے ساتھ ساتھ سلامتی کی فکربھی لاحق ہے۔ ہندوستان کی سیاسی پارٹیاں اقتدار میں آنے سے پہلے ملک کی اقتصادی ومعاشی صورت حال کے بارے میںکوئی ہوم ورک نہیں کرتیںاور سادہ لوح عوام کو بے وقوف بناکرمحض دل فریب نعروں کی بناپر اقتدار پر براجمان ہوجاتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی پارٹی ملک کاکوئی بھی مسئلہ حل کرنے میں کامیاب نہیں ہوتی، عوام کو بھی یہ سوچنا چاہئے کہ منشور میں درد دلکش امیدیںآخر کیوں پوری نہیں ہورہی ہیں؟ اسکی صرف ایک ہی وجہ ہے کہ الیکشن سے پہلے جو منشور پیشکیا جاتا ہے وہ مستند اعداد وشمار کی بنیاد پر تیار نہیں کیا جاتا بلکہ ان کا سارا زور عوام کو مستقبل کے سہانے سپنے دکھانے پر صرف ہوتا ہے اور عوام بھی ان سپنوں میں کھوکرغلط لوگوں کوووٹ دے دیتے ہیں۔ ایسا کیوں اورکب تک ہوتارہیگا؟ کیا ہمارے عوام کی حالت کبھی نہیں بدلے گی؟ بدلے گی اور ضرور بدلے گی۔
قارئین محترم!سب سے پہلے تو ہندوستان میں بسنے والے ایک ارب تیس کروڑ سے بھی زائد انسانوں کو اپنے دل بدلنے ہونگے، اسلئے کہ انکے دل اب دل نہیں رہے بلکہ قبربن چکے ہیںایسی قبرجس میں اتنی خواہشیں ، آرزوئیں، تمنائیں اورامیدیںدفن ہوچکی ہیںکہ اب اس میں اوردفن ہونے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی ہے اور نہ یہ سوچنے اور سمجھنے کی کوئی جگہ اب دل میں باقی ہے کہ جس سے وہ سوچ اورسمجھ سکیںکہ ان کے ساتھ کھیل کیا کھیلا جارہا ہے اس لئے توکہہ رہا ہوں کہ اب سب سے پہلے دل کی تبدیلی ضروری ہے، یہ اس لئے ضروری ہے کہ انہیں سمجھ میں آسکے کہ ان کے ساتھ کھیل کیا کھیلا جارہا ہے۔اگرآپ غورکریں گے تو صحیح سمجھ پائینگے کہ سیاسی لیڈر عوام کو ایسے ایسے سبزباغ دکھاتے ہیںکہ اگر وہ بر سرِ اقتدار آگئے تو ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہنے لگینگی، غربت ، بے ر وزگاری، بھوک ، افلاس، بیماری اور جہالت جیسے مسائل کا خاتمہ ہوجائیگا، عوام خوشحال اور ملک ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہوجائیگا۔ لیکن ہماری سوچ اور فکرایسی نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ ہم لوگ امیدوارکے کرداراوراس کی قابلیت کو نہیں دیکھتے بلکہ اس کی شخصیت پرستی کے سحر میں گرفتارہوکران کے ہاتھوں یرغمال بنے ہوئے ہیں اور آزادانہ طور پر اپنے ووٹ کا حق استعمال کرنے سے قاصر ہیں۔
ہمارے ملک میں سیاسی پارٹیوں کا انتخابی منشور الفاظ کا گورکھ دھندا ہوتا ہے، سیاسی جماعتیں عوام کو اپنی جانب متوجہ کرنے کیلئے خوبصورت الفاظ میں لپٹا ہوا منشور پیش کرتی ہیں جس میں عوام کیلئے سب کی سب اچھائیاں ہوتی ہیں، منشور میں کچھ بھی برا نہیں ہوتا، اس عوامی منشور کے سہارے انتخاب میں عوام کو مستقبل میں سب سے اچھا ہونے کی نوید دی جاتی ہے لیکن آج تک کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کوئی بھی سیاسی پارٹی اپنے دیئے ہوئے منشور پر من وعن عمل کرے بلکہ یہ کہا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا کہ انتخابی عمل مکمل ہوتے ہی انتخاب میں کامیابی حاصل کرنے والی پارٹی اپنے منشور کو ایسے ہی بھول جاتی ہے جیسے عوام سے ووٹ حاصل کرنے کے بعد ان کو اگلے پانچ سال کیلئے بھلا دیا جاتا ہے اور ہمارے عوام بھی بھول جانے کے عادی ہیں۔ یہ کل کی بات تک بھول جاتے ہیں اور انہیں یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ پانچ سال اقتدار میں رہنے والی پارٹی کا گذشتہ انتخاب کا منشور کیا تھا ۔ بنیادی بات یہ ہے کہ عوام کو پارٹیوں کے سیاسی منشور سے کوئی دلچسپی نہیں ان کو اگر دلچسپی ہے تو اس بات سے کہ ان کے روزمرہ کے مسائل کون حل کریگا اور کیسے حل ہونگے؟ اسی طرح کی سوچ بچارمیں الجھ کر ہمارے سادہ لوح عوام ان کے وعدوںاور منشور کو بھول جاتے ہیں اور بجائے اس حکومت سے تنفر ہونے کے اس حکومت کے ساتھ ایک ہمدردی کا جذبہ اپنے سینے میں پال لیتے ہیں اور حکومت کومنشور میں کئے گئے وعدے پورے کرنے کی نئی لمبی تاریخ دے دیتے ہیں ۔
قارئین حضرات !جب ہم اپنے آپ پر نظر دوڑاتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ہم سب انسان نہیں بلکہ شئے میں تبدیل ہوگئے ہیں۔ آج ہندوستان میں ایک ارب تیس کروڑ سے بھی زائد انسان اب انسان نہیں بلکہ شئے ہیں اور ان ایک ارب تیس کروڑ شئے کو اپنے پاس جمع کرنے کا چند بھوکوں ، لالچیوں کا آپس میں مقابلہ لگا ہوا ہے ۔ مزے کی بات یہ بھی ہے کہ یہ چند ازل سے بھوکے اور لالچی ملک کی باقی دیگر شئے کو بھی ہتھیالینے کیلئے آپس میں دست وگریباں ہیں، ایک اور مزے کی بات یہ ہے کہ ایک ارب تیس کروڑ انسانوں کو غیر انسانی بناتے بناتے بنانے والے خود بھی غیر انسانی بن چکے ہیں، اب ان کے نزدیک کسی شئے کی کوئی حیثیت اور اہمیت نہیں رہی ہے، یہ اتنے بے حس ہوچکے ہیں کہ پیٹ سے سوچنے والی غیر انسانی مخلوق بن چکے ہیں وہ یہ بھی نہیں دیکھ سکتے ہیں کہ ان کا سانس اپنی جمع کردہ چیزوں کے بوجھ تلے دبا جارہا ہے۔ اب آ پ کو پورے ملک میں طاری خاموسی کی وجہ بھی سمجھ میں آچکی ہوگی، ظاہر ہے انسان بولتے ہیں ، سوچتے ہیں، شور مچاتے ہیں جب کہ شئے نہ بولتی ہیں نہ سوچتی ہیں اور نہ ہی شور مچاتے ہیں، بس چپ چاپ ایک جگہ پڑی رہتی ہیں۔ اگر طاقت ، اختیار ، اقتدار اور روپوںپیسوکے خواہشمندوں، بھوکوں اور لالچیوں کے بارے میں یہ کہا جائے کہ یہ سب کے سب ذہنی مریض ہیں تو ہر گز غلط نہ ہوگا۔ ایک صحت مند ، ہوش مند اور سمجھدار انسان کبھی بھی انسانوں کو شئے میں تبدیل کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا ، ایسی گھنائونی سوچ صرف ذہنی مریض ہی سوچ سکتا ہے، تو پھر کیوں کہ وقت کو ضائع کئے بغیر آئیں ہم اپنے دل کو تبدیل کردیں، اپنا دل تبدیل کرکے پھر ہمیں ہندوستان کو تبدیل کرنا ہوگا، اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں اسے غیر انسانی سے انسان بنانا ہوگا۔
ایک ایسا ملک جہاں شئے کو دیوتا کا درجہ حاصل نہ ہو بلکہ انسان کو دیوتا کا درجا حاصل ہو ، جہاں انسانیت ہو ، جہاں انسان کی عزت واحترام ہو ۔ ایک اور چیز جو ہم لوگوں کو کرنی ہے وہ یہ کہ ہمیں طاقت، اختیار ، اقتداراور روپوں پیسوں کے بھوکوں ، لالچیوں اور خواہش مندوں سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے نجات حاصل کرنا ہوگی، تاکہ انہیں آئندہ کسی اور انسان کو شئے میں تبدیل کرنے کی ہمت اور جرأت نہ ہو، کیوں کہ انسان کی حالت میں اس قدر بگاڑپیدا ہوچکا ہے کہ اس کو درست کرنے میں طویل مدت لگ جائیگی، اگر آج بھی عوام کی سوچ میں پختگی آجائے تو تقریباً بیس سال تک خوش حال ہندوستان کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے۔
کریگ اسٹریٹ،کمرہٹی،کولکاتا۔۵۸
موبائل:6291697668

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا