کیا سے کیا ہوتا رہا ہے!!

0
0

 

 

 

 

 

 

محمد اعظم شاہد
ملک کے آئین کی دفعہ 370 کے تحت جموں و کشمیر کو جو خصوصی مراعات دی گئی تھیں، وہ 5 ؍اگست 2019 پارلیمان کے دونوں ایوانوں میںمنظوری کے بعد صدر جمہوریہ نے اس مذکورہ دفعہ کی منسوخی کے احکامات جاری کردئے تھے۔ اس طرح 1954 سے جو خصوصی مراعات کشمیر کو دفعہ 370 کے تحت دئے گئے تھے، وہ ختم کردئے گئے۔ اور یہ ریاست تین حصوں میں تقسیم کردی گئی۔ کشمیر، جموں اور لداخ، تینوں اب یونین ٹری ٹوریز (UT) کہلاتی ہیں۔ آئین کی اس خصوصی دفعہ کی منسوخی سے قبل اور بعد میں پوری ریاست میںاحتیاطی اقدام کے طورپر مواصلاتی نظام کو بلیک آؤٹ کردیا گیا تھا۔ کسی بھی طرح کا رابطہ اس خطے کا ملک یا دُنیا سے کٹ کر رہ گیا تھا، جے اینڈ کے کی کئی سیاسی پارٹیوں نے مرکز کے اس یک طرفہ فیصلے کو غیر آئینی اور کشمیری عوام کے مفادات کے تحفظ کے خلاف قرار دیا۔ ملک کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے ایک منصوبہ بند حکمت عملی کے تحت کشمیر کو ملک سے جوڑے رکھنے، آئین ہند میںیہ خصوصی دفعہ کو شامل کروایا تھا جس کی حمایت کشمیر کے شیخ عبداللہ نے بھی کی تھی۔ اس دفعہ کی منسوخی کو لے کر آر ایس ایس اور بی جے پی نے اس اقدام کو ملک کی سالمیت کے لیے اہم قرار دیتے ہوئے مساوی قومی ترقی کے نظریے کو فروغ دینے کی جانب اہم اور تاریخی فیصلہ قرار دیا تھا۔ نئی تشکیل شدہ کشمیر، جموں اور لداخ میںمنتخب حکومت کی غیر موجودگی میں یہاں کے عوام کی توقعات اب بھی ادھوری ہیں۔ آئین کی اس دفعہ کی منسوخی کی حمایت اور مخالفت کا سلسلہ جموں و کشمیر میں اور اس علاقے کے باہر بھی بحث کا موضوع رہا۔ ملک کی عدالت عظمیٰ (سپریم کورٹ) میں خصوصی دفعہ کی منسوخی کو چیلنج کرنے داخل عرضیوں پر کہ پھر سے دفعہ 370 کو بحال کیا جائے اور کشمیر کو حاصل خصوصی درجہ برقرار رکھے علاقے کے عوام کے مفادات کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے، ان عرضیوں پر شنوائی ہوتی رہی۔ کشمیر کی سیاسی پارٹیاںپراُمید تھیں کہ فیصلہ ان کے حق میں ہوگا۔ بالآخر 11 /دسمبر 2023 کو عدالت عظمیٰ کی پانچ رکنی بنچ بشمول چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ نے فیصلہ سنایاکہ دفعہ 370 کو منسوخ کرنے کا حکم آئینی طورپر درست ہے۔ بتایاگیاکہ جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی کی سفارش صدر جمہوریہ پر پابند نہیں ہے۔ اس خصوصی دفعہ کی منسوخی کو آئینی قرار دیتے ہوئے فیصلے میں واضح کیاگیا ہے کہ دفعہ 370 کا نفاذ عبوری Temporary تھا اور اس کو ہٹانے کا صدر جمہوریہ ہند کو پورا اختیار ہے۔ اس طرح جموں و کشمیر ہندوستان کا اٹوٹ حصہ ہے اور ہندوستان میں شامل ہوجانے کے بعد اس میں خود مختاری کا عنصر باقی نہیں رہا۔ ایسی حالت میں اس کے لیے کوئی خاص انتظامات نہیں کییجاسکتے۔ چیف جسٹس نے فیصلے میں یہ بھی کہا ہے کہ مرکز کے ہر فیصلے کو چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ یہ انتشار کا باعث بنے گا، اس فیصلے کے ساتھ ہی عدالت نے حکومت اور الیکشن کمیشن سے 30/ستمبر 2024 تک اسمبلی انتخابات کروانے اور اس کی ریاستی حیثیت کو بحال کرنے کے لیے کہا ہے۔ 2 ؍اگست 2023 سے اس معاملے میں درخواست گزاروں کے دلائل پر سماعت شروع ہوئی۔ 16 دن تک فریقین کے دلائل سننے کے بعد 5/ستمبر 2023 کو فیصلہ محفوظ کرلیاگیا تھا، جو بالآخر 11 /دسمبر کو حتمی طورپر سنادیا گیا۔
جیسے ہی عدالت عظمیٰ کا فیصلہ آیا، مرکزی حکومت بشمول وزیر اعظم، وزیر داخلہ اور دیگر نے اس کا خیر مقدم کیا۔ آر ایس ایس کے ترجمان نے اس فیصلے کو قومی دھارے میں ترقی کے لیے شمولیت بتاتے ہوئے قومی یکجہتی کی جانب مثبت قدم قرار دیاہے۔ نیشنل کانفرنس کے سربراہ سابق وزیر اعلیٰ کشمیر فاروق عبداللہ، پی ڈی پی کی صدر سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کے علاوہ غلام نبی آزاد نے اس فیصلے کو کشمیریت اور آئیڈیا آف انڈیا کے خلاف کہا ہے۔ ریاست میںاستحکام اور خوشحالی کے لیے اب بھی کشمیر کی سیاسی پارٹیاں اُمیدیں لگائی ہوئی ہیںکہ پھر سے ریاست کو اس کا آئینی حق مل کر رہے گا۔ ہندوتوا کا راگ الاپنے والی آر ایس ایس اور بی جے پی کشمیر کے پورے خطے کو اپنے زعفرانی رنگ میں رنگنے کے برسوں سے منصوبے بنا رہی ہے، کشمیر کی مشترکہ وراثت کو مٹانے کی مذموم کوششیں بھی ہوتی رہی ہیں۔ اب وقت ہی بتائے گااور طئے کرے گا کہ حالات کا رخ کیاہوگا؟
ایک اور خبر نے گذشتہ ہفتہ اخباروں کی سرخیاں بٹوریں۔ پارلیمنٹ پر حملے کی بائیسویں برسی کے موقع پر 13؍دسمبر پارلیمنٹ کی سکیورٹی کی چوک کے باعث دو نوجوان وزیٹرس گیلری سے لوک سبھا کی بنچوں پر کود پڑے اور ہنکامہ مچ گیا۔ ’’آمریت نہیں چلے گی‘‘ کے نعرے لگانے والے ان نوجوانوں نے گرفتاری سے قبل بتایا کہ وہ آئین کی حفاظت کرنے آئے ہیں۔ اس پورے معاملہ کی اعلیٰ سطح پر تفتیش کی جارہی ہے۔چھ ملزموں سے پوچھ تاچھ جاری ہے۔ اپوزیشن نے برسر اقتدار حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا ہے کہ کس طرح پارلیمان کی نئی عمارت جہاں سکیورٹی انتظامات کی دہائی دی جاتی رہی وہاں اس طرح کی بے قاعدگی سرزد ہوئی ہے۔ حفاظتی ناکامی کے لیے وزیر داخلہ پر نشانہ سادھا گیا ہے۔ پارلیمان کے دو نوںایوانوںمیں جاری سرمائی سیشن کے دوران 18/دسمبر کو ایک دن میں 78 ارکان پارلیمان معطل کیے گئے۔ پارلیمان کے ایوانوں میںاحتجاج کرنے والے اپوزیشن پارٹیوں کے ارکان پارلیمان نے حکومت سے اپنی ناکامی کی ذمہ داری قبول کرنے اور اس طرح کی چوک کے لیے تدارکی اقدامات کا مطالبہ کررہے ہیں۔ جاری سرمائی سیشن کے دوران کل 92 اپوزیشن ارکان کی معطلی عمل میں آئی اس کی اہم وجہ پارلیمان کی کارروائی میں خلل بتائی گئی ہے۔ حسب روایت برسراقتدار حکومت اپنی ناکامی یا چوک پر کوئی خاص رد عمل نہیں دکھاتی آرہی ہے۔ پارلیمنٹ پر حملہ کئی سوال کھڑے کررہا ہے۔
اسی طرح کرناٹک اسمبلی کے سرمائی اجلاس کے آخری دن 15 /دسمبر کو جب کرناٹک میں نئے ایر پورٹس کے لیے نام تجویز کیے جارہے تھے۔ اس دوران کانگریس کے رکن اسمبلی ابیا پرساد نے میسور ایئر پورٹ کو ٹیپو سلطان سے منسوب کرنے کی تجویز پیش کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ ملک کے پہلے مجاہد آزادی اور رعایا پرور حکمران کو حکومت کا معقول خراج عقیدت ہوگا۔ حسب توقع بی جے پی کے ارکان نے اس پر ہنگامہ کھڑا کردیا اور سلطان ٹیپو کی مخالفت میں وہی روایتی من گھڑت واقعات کی دہائی دیتے ہوئے غلط بیانی کے نئے ریکارڈس قائم کیے۔

azamshahid1786@gmail.com cell:9986831777

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا