’’ کیا اس ملک میں غریب کے لئے کوئی جگہ نہیں ؟‘‘

0
0

قیصر محمود عراقی

ہندوستان کے کسی بھی غریب شخص سے یہ سوال پوچھیں کہ آزادی کے بعد سے آج تک ہندوستان نے کیا دیا ہے تو زیادہ تر جواب یہ ہو تا ہے کہ ’’ کچھ بھی نہیں دیا ‘‘ اور کچھ لوگوں کا جواب ہو تا ہے کہ انہیں تو ایک شناختی کارڈ کے علاوہ کچھ بھی نہیں ملا ہندوستان سے، ایک لحاظ سے دیکھا جا ئے تو غریب ٹھیک ہی کہتا ہے کیونکہ ہر روز صبح اُٹھنے کے ساتھ ایک ہی پر یشانی کا سامنا ہو تا ہے ، کہ آج بچوں کا پیٹ کیسے پا لو نگا ، آج بیوی کا علاج کہاں سے کروائنگا اور آج اپنی باقی ضروریات کہاں سے پوری کرو نگا ۔ مگر دوسری جانب ہمارے ملک کے چند ارب پتی لوگ ہندوستان کو اپنی ذاتی جاگیر سمجھ بیٹھے ہیں ، یعنی کہ ان کے خیال میں ویزر اعظم ، صدر اور مشیر بننا صرف ان کا ہی حق ہے۔اگر ملک میں جمہوریت ہے تو وہ ہی اس جمہوریت اور اس کے نتیجے میں بننے والے نظام کے وارث ہیں ، تمام تر سرکار ی مشینری اور سرکاری ادارے ان کے ہی ماتحت ہیں ، وہ چاہیں تو کسی ادارے کے ساتھ کچھ بھی کر سکتے ہیں ، یہ طاقتورطبقہ سمجھتا ہے کہ تمام تر سرکاری عہدوں اور نوکریوں پر صرف ان کے مخصو ص حامیوں کا ہی حق ہے ، یعنی کہ جب تک کوئی بھی سرکاری نوکری کی نشست چاہے وہ چپراسی کی ہو یا پھر اٹھا رویں گریڈ کی ہو ان کی رضا مندی سے نہ بھری جا ئے نتیجاً تمام تر سفارش زدہ لوگ اوپر آجا تے ہیں اور مسلسل چھہتر سال سے جاری کھیل کی وجہہ سے غریب غریب تر ہی ہو تا چلا جا رہا ہے ۔ ہم آسان لفظوں میں ساری بات کو اس طرح سمجھ سکتے ہیں کہ اس ملک کے غریب کا سرکاری نوکریوں ، سرکاری و سائل اور سرکاری سہولتوں پر قطعاً کوئی حق نہیں ہے اسی لئے غریب اپنے آپ کو خود تک ہی محدود رکھتا ہے اور نوکریوں کے جھنجھٹ میں ہی نہیں پڑتا اور یوں سارا مفاد ایک مخصوص طبقہ اُٹھا جا تا ہے جو کہ ہمارے نام نہاد سیاستدانوں اور بڑے لوگوں کی خوشامد کر تا ہے یعنی ان کی ہاں میں ہاں ملاتا ہے ۔
یہاں ذہن میں چند سوالات جنم لیتے ہیں کہ کیا ہندوستان کی آزادی میں ہمارے ملک کے سرمایہ داروں ، جاگیرداروں اورنوابوں کا کوئی کر دارتھا ؟ کیا ان تمام میں سے کسی نے اپنے ملک کے غریبوں میں اپنی جائداد اور مال و دولت تقسیم کی تھی؟کیا ان لوگوں نے ملک کے لئے اپنی جان کی قربانی پیش کی تھی؟جب ان تمام سوالوں کا جواب نہیں میں ہے تو پھر یہ لوگ خود کو ہندوستان کا مالک اور غریب کو اپنا نوکر کیوں سمجھتے ہیں ؟ آج ملک پر بیرون قرضوں کا بوجھ اتنا زیادہ ہے کہ ملک کی کروڑوں کی آبادی کا ایک ایک فرد مقروض ہے جبکہ چند خاندان ایسے ہیں جو کھرب پتی ہیں جن کی دولت اور کاروبار اس دنیا میں پھیلے ہو ئے ہیں ، اس ملک کا غریب بیرون ملک روزگار کی تلاش میں جا نے کی خاطر اپنا گھر بھی بیچ دیتا ہے جبکہ مخصوص طبقہ اپنے سر درد کا علاج بھی لندن اور امریکہ کے مہنگے تر ین اسپتالوں میں جا کر کرا تا ہے ۔ یہاں یہ کہنا بیجا نہ ہو گا کہ واقعی اس ملک میں غریب کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے ، نہ رہنے کو گھر ہے ، نہ کھانے کو کھانا ہے ، نہ پینے کو صاف پانی ہے ، نہ بچوں کی تعلیم ہے ، نہ اپنا علاج کرا نے کے لئے کوئی بہترین اسپتال ہے اور نہ ہی سفر کر نے کے لئے مفت ٹرانسپورٹ کی سہولیات ہیں ، جبکہ دوسری جانب دوسرے مخصوص طبقے کے لئے نت نئے ماڈل کی گاڑیاں ، بچوں کی تعلیم کے لئے اسکول اور کالج ، علاج کے لئے انشو رینش پالیسیاں، بیرون ملک سفر کے لئے خصوصی رعایات ، گھروں میں کام کے لئے نوکر ، اپنی حفاظت کے لئے بلٹ پروف گاڑیا ں اور سیکوریٹی گارڈ ، تفریح کے لئے جم خانہ ، کلب کی ممبر شپ ، شادیوں کے لئے فائیو اسٹار ہوٹلوں کی بکلنگ اور نہ جا نے کیا کیا ایسی سہولتیں ہیں جو کہ ہمارے بڑوں کو میسر ہیں جبکہ ان ساری چیزوں کے بارے میں کسی غریب شخص کا سوچنا بھی گناہ ہے حالانکہ یہ ساری سہولتیں ہندوستان میں موجود ہیں ۔
قارئین محترم ! جب کسی ملک میں طبقاتی تقسیم اور دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کی یہ صورتیں حال ہو تو پھر وہ ملک کبھی بھی تر قی یافتہ نہیں بن سکتا کیونکہ حکمران طبقہ اپنے عوام کے رہن سہن اور بنیادی ضرورتوں سے واقف ہی نہ ہو یا پھر واقف ہو نے کے باوجود چشم پوشی سے کام لے تو پھر قومیں زوال کا شکار ہو جا تی ہیں ۔ اس کی وجہہ صرف اورصرف ایک ہی ہے کہ حکمران طبقہ یا امیر طبقہ کبھی بھی بنیادی مسائل کا شکار ہی نہیں رہا ۔ اگر حکومت کر نے والوں نے عام عوام اور غریب طبقے کے دکھ اور پریشانیاں قریب سے دیکھے ہو تے تو اسے احساس ہو تا کہ ان مسائل کو اگر مکمل نہیں تو جزوی طور پر یا ہر ممکن طور پر کیسے ختم کیا جا ئے ۔ طاقتور چند بڑی سیاسی جماعتوں کے سربراہوں اور ان کے بچوں کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں جو کہ پچھلے تین چار دہائیوں سے ملکی سیاست اور ملکی اداروں کے کر تا دھرتا ہیں ۔ ان بڑی سیاسی جماعتوں کے سر براہوں کے علاوہ کئی چھوٹی جماعتوں کے کر تا دھرتا ایسے ہیں جن کے باپ دادا بھی حکومتوں میں رہے ہیں ، بیٹے ، بیٹیا ں بھی رہی ہیں اور اب پوتے دوتے بھی سیاست میں قدم رکھنے کو تیار ہیں جبکہ دوسری جانب کوئی پڑھا لکھا مڈل کلاس بندہ اپنے سیاسی نظام میں اس وقت تک جگہ نہیں بنا سکتا جب تک کہ اس کے سر پر کسی بڑے نام چین یا شخصیت کا دست شفقت نہ ہو ۔ آج ہمیں اگر اپنے سیاسی نظا میں گنے چنے متو سط گھرانوں کے ساست دان نظر آتے ہیں تو وہ بھی ان بڑی جماعتوں کی جی حضوری کر کے یہاں تک پہنچے ہیں اپنے بل بوتے پر نہیں ۔ غرض یہ کہ ہندوستان میں غریب کے رہنے کے لئے صرف مسائل ہیں جبکہ سہولیات صرف امیروں کے لئے ہیں Mob: 6291697668
٭٭٭

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا