کیاکبھی اتحادہوسکے گا؟

0
0

از:صادق رضامصباحی،ممبئی

09619034199

برصغیرکے معروف بزرگ حضورحافظ ملت مولاناشاہ عبدالعزیزعلیہ الرحمۃ والرضوان(بانی الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور،اعظم گڑھ ،یوپی) کاشہرۂ آفاق فرمان ’’اتحادزندگی ہے اور اختلاف موت‘‘ہم نے اورآپ نے نہ جانے کتنی بارپڑھااورسناہوگا۔ہم میں سےچھوٹے سے بڑے تک ہرایک نے اس جملے کی ایسی گردان کررکھی ہے کہ ایسالگتاہے یہ جملہ ہم سب کے تحت الشعورمیں بس چکاہے مگرسوال یہ ہے کہ کیااختلاف ختم کرنااوراتحادبرپاکرنااتناہی آسان ہے جتناہم نے سمجھ لیاہے ؟یہ جملہ اتناپرمعنی ،گہرااورپرت درپرت مشکلات لیے ہوئےہےکہ ہم میں سے بیشترکواس کی ہوابھی نہیںلگی ہے۔ برصغیرکے معروف بزرگ حضورحافظ ملت مولاناشاہ عبدالعزیزعلیہ الرحمۃ والرضوان(بانی الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور،اعظم گڑھ ،یوپی) کاشہرۂ آفاق فرمان ’’اتحادزندگی ہے اور اختلاف موت‘‘ہم نے اورآپ نے نہ جانے کتنی بارپڑھااورسناہوگا۔ہم میں سےچھوٹے سے بڑے تک ہرایک نے اس جملے کی ایسی گردان کررکھی ہے کہ ایسالگتاہے یہ جملہ ہم سب کے تحت الشعورمیں بس چکاہے مگرسوال یہ ہے کہ کیااختلاف ختم کرنااوراتحادبرپاکرنااتناہی آسان ہے جتناہم نے سمجھ لیاہے ؟یہ جملہ اتناپرمعنی ،گہرااورپرت درپرت مشکلات لیے ہوئےہےکہ ہم میں سے بیشترکواس کی ہوابھی نہیںلگی ہے۔ مذہبی وسیاسی رہنمائوں کی تقریروں وتحریروں میں ہم اکثراتحادویک جہتی کےنعرے کی بازگشت سنتے ہیں ۔اتحادویک جہتی کے الفاظ اتنے خوش نماہیں کہ اس کی بنیادپران رہنمائوں کانعرہ چل نکلتاہے اور پھر ان کے متبعین بھی یہ نعرہ بڑے زوروشورسے لگانے لگتے ہیں ۔واقعہ یہ ہے کہ جس شدت سے اظہاریک جہتی اوراتحادواتفاق کے فضائل بیان کیے جاتے ہیں اتنی ہی تیزی سے قوم عدم یگانگت اورتشتت وافتراق کی طرف بڑھتی جارہی ہے ۔آپ خوددیکھیے کہ جوحالات بیس سال قبل تھے ،آج اس سے کہیں زیادہ گئے گزرے ہیں۔ا س کامطلب یہ ہواکہ اتحادواتفاق کے الفاظ بولنے میں جتنے زیادہ کانوں میں رس گھولتے ہیں اس سے کہیں زیادہ ان پرعمل درآمدمشکل ہوتاہے۔غورکرنے سے اندازہ ہوتاہے ان کےمعانی تک ہماری رسائی مشکل ہوتی جارہی ہے اورآج کے نئے حالات میں تومشکل تر۔اس کی ایک بڑی بنیادی وجہ یاتومنافقت ہے یابے شعوری ۔یہ حقیقت پلّے باندھ لینے کی ہے کہ اصلاح کاعمل خوداپنی ذات سے شروع ہوتاہے ۔جب تک آدمی خودنیک نہیں ہوگاوہ دوسروں کونیک بننے کی ترغیب کیسے دے سکے گااوراگروہ نیک بنانے کے لیے بضدبھی ہوتوسوال یہ ہے کہ اس کی نصیحتوں پرکون کان لگائے گا؟۔بات تلخ ہے مگرسچی ہے کہ اکثروبیشتراتحادکے داعی خوداپنی ذات میں افتراق اورنفرت کے داعی بنے ہوئے ہیں ۔وہ اپنے اہل خانہ،اپنے خاندان اوراہل محلہ کوتووحدت کی لڑی میں پرونہیں پاتے اورپوری قوم اورملک کواتحادکی دعوت دیتے پھرتے ہیں اورانہیں اتحادکی برکتوں کے خوش نمانغمے سناتےرہتے ہیں۔کیااس سے اتحادہوجائے گااورسب یک رنگ ہوجائیں گے ۔؟ اسلام کی تعلیمات پراول نظرہی میں غورکرنے سے اندازہ ہوجاتاہے کہ وہ پہلے فردکی اصلاح کاقائل ہے ،اس کے بعدہی اجتماعیت کومخاطب کرنے کاحکم صادرکرتاہے اس لیے پہلے خودکی اصلاح ضروری ہے ، دوسروں کی اصلاح اس کے بعدکامرحلہ ہے ۔اس سے ایک بات اچھی طرح سمجھ میں آگئی کہ اتحادواتفاق کی اتنی عظیم الشان دعوتوں کے اہتمام کے باوجودانہیں قبول کیوں نہیں جارہاہے۔ادنی بصیرت والابھی اگراپنی تیسری آنکھ کااستعمال کرے تووہ بآسانی بتادے گاکہ ہمارے  اتحادواتفاق کے نعرے محض نعرے ہی رہیں گے۔یہ اس وقت تک کارگرنہیں ہوسکتے جب تک اتحادکے بنیادی تقاضے پورے نہ کیے جائیں اس لیے اپنی تقریروں اورتحریروں کی بس اسی اتحادکی رٹ لگانے والوں کوسوچ لیناچاہیے کہ اتحاددراصل ہے کیااوروہ کیوں کرقائم ہوتاہے ۔اپنے اندرون کاجائزہ لیے بغیردوسروں کوتلقین کرنانہ صرف یہ کہ مہمل ہے بلکہ احمقانہ عمل ہے ۔اس تناظرمیں اتحادکاآوازہ بلندکرنے والوں کواقرارکرلیناچاہیے کہ ان سے کہیں نہ کہیں غلطیاں ہورہی ہیںاورخوداپنی غلطیوں کی اصلاح کیے بغیرنہ آج تک کچھ ہواہے اورنہ ہو سکتاہے ۔اس پوری گفتگوکامقصدصرف اتناہے کہ ہم زیادہ سے زیادہ خودکوبہتربنانے کی کوشش کریں ۔علمی ،عملی،معاشی اورسماجی طورپرخودکومستحکم کرنے کی کوشش کریں اوراپنے ماتحتوں کی انہی خطوط کی تربیت کریں ،ان شاء اللہ سارے مسائل ختم ہوجائیں گے اورساری شکایتیں ہمارے معاشرے سے یکسرختم ہوجائیں گی ۔دوسروں کوجوڑنے سے قبل پہلے خودکوجوڑے اورپھراپنے اہل خانہ اورخاندان والوں کو،اس کے بعدہی دوسروں کوجوڑنے کی تلقین کریں اوراتحادکے فضائل برکات بیان کریں اوریادرکھیں کہ اپنی تربیت اوراپنی اصلاح ہی دراصل رازحیات ہے،سازحیات ہے،روح حیات ہے،جان حیات ہےاورشان حیات ہے ۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا