کوئی بھی روزہ دار کسی سیاسی لیڈر یا امیرِ وقت کی افطار پارٹی میں شریک ہوکر’’ اپنا روزہ خراب نہ کریں

0
0

 

 

 

قیصر محمود عراقی

سیاسی لوگ جب رمضان میں افطار پارٹی دیتے ہیں تو بات سمجھ میں آتی ہے کہ وہ اپنا ووٹ بینک تیار کرتے ہیں، لیکن جب اپنے ہی قوم کے دانشوران ، امیرِ وقت ، ملی تنظیمیں اور ادارے افطار پارٹی کرتے ہیں تو بہت افسوس ہوتا ہے۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے رمضان کے مہینے میں زکوۃ، صدقہ ، فطرہ اور دیگر عطیات کے ذریعہ ضرورتمندوں کی ضرورت پوری کرنے کو کہا ہے، لیکن ایسا نہیں کیا جاتا ، بلکہ رمضان کے مہینہ میں کسی ایک دن افطار پارٹی دیکر اور سیاسی لوگوں کو بلاکر، امیروں کو دعوت دیکر ، کلب میں بیٹھنے والے کچھ بے روزگار نوجوانوں کی بھیڑ لگاکر ، روزہ دار کم بے روزہ دار زیادہ کو افطار کرواکر اپنا روپیہ ضائع کیا جاتا ہے۔غریبوں کے جو حقوق ہوتے ہیں ان حقوق کو غریبوں تک نہ پہنچاکر اس طرح کی افطار پارٹی کی دعوت دیکر نام ونمود کی نمائش کی جاتی ہے، اس طرح کی افطار پارٹی کی دعوت دینا شریعت اسلام نہیں اور نہ ہی اس کا کوئی اجر ہے۔
قارئین حضرات! ہم جب نبی پاک ؐ اور ان کے خلفائے راشدین کے دورِ مبارک کو دیکھتے ہیں تو ہمیں کہیں پر بھی ایسا کوئی واقع نظر نہیں آتا کہ کسی غیر مسلم سردار یا حاکم نے مسلمانوں کو روزہ افطار کرنے کی دعوت دی ہو اور اسے قبول کرلیا گیا ہو ، گو کہ یہ بات درست ہے کہ نبی اکرمؐ نے غیر مسلموں کی دعوت کو قبول کرنے کی اجازت دی ہے، بشرطیکہ اس دعوت میں پیش کئے جانے والے طعام حلال ہوں، اگر حلال کا ہونا یقینی نہ ہو تو دعوت قبول کرنے سے انکار کیا جاسکتا ہے، تاہم دعوت افطار کے حوالے سے نبی پاکؐ اور خلفائے راشدین کے زمانۂ مبارک میں ایسا کوئی ذکر نہیں ملتا ، مگر حیرت ہے کہ آج کل ایسا ہورہا ہے۔ الیکشن کے زمانے میں مختلف پارٹیاں مختلف طریقے سے لوگوں کو لبھانے کی کوشش کرتی ہیںاور اپنا الو سیدھا کرتے ہیں، ہر پارٹی الیکشن میں ایک دوسرے کے خلاف زہر افشانی کرتی ہے ، ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی کرتی ہے، مگر جوں ہی مسلمانوں کا مقدس مہینہ رمضان المبارک آتا ہے ہر پارٹی ایک دوسرے پارٹی میں ضم ہوجاتی ہے اور ہر پارٹی کے لیڈران ایک ہی پارٹی کی قصیدہ پڑھنے لگتے ہیں اور وہ پارٹی ہے مسلمانوں کی پارٹی ’’افطار پارٹی‘‘ اس کے علاوہ مسلمانوں کی اس ملک میں ایک بھی اپنی پارٹی نہیں، سارے مسلمان دوسری پارٹیوں کی مرحونِ منت ہیں۔
ماہِ رمضان میں آپ اکثر دیکھیں گے کہ اپنے اپنے وارڈ کے کائونسلر ، ایم ایل اے، ایم پی یا پھر ریاستی وزیر ہر ایک اپنی اپنی جانب سے افطار پارٹی کا انعقاد کرتے ہوئے مسلمانوں کو بیوقوف بنانے کی کوشش کرتے ہیںاور مسلمان بھی آج کل ایسے ہیں جو نہ دین سے واقف ہیں اور نہ ہی دنیا سے ، جہاں افطار پارٹی کی دعوت ملی نہیں کہ سر پر ٹوپی ڈالے افطار پارٹی میں افطار کرنے چلے جاتے ہیں۔ مسلمان یہ کبھی نہیں دیکھتا کہ افطار پارٹی میں جس نے پیسہ لگایا ہے اس کا پیشہ حلال کا ہے یا نہیں؟ جس نے افطار پارٹی کی دعوت دی ہے وہ کسی مقصد کے تحت تو نہیں دی ہے؟ آیا وہ اس دعوت کے ذریعہ اپنا کوئی الو تو سیدھا نہیں کرنا چاہتا؟ کیونکہ بہت سے لیڈران چاہے وہ مسلم ہوں یا غیر مسلم افطار پارٹی کا اہتمام کرتے ہیں تو اس پارٹی میں مسلم رہنمااور علما کرام بھی خوشی خوشی شریک ہوتے ہیں۔ یہاں میں ایک واقعہ بیان کرتا چلوں کہ ایک امیرِ وقت کو ایک سیاسی لیڈر نے افطار کی دعوت دی ، امیروقت افطار میں جانے لگا تو کسی نے راستہ روک کر پوچھا کہ کیا آپ لیڈر صاحب کی افطار پارٹی کی دعوت میں شرکت کرنے کیلئے جارہے ہیں؟ تو اس پر امیر وقت نے کہا کہ نہ تو میراروزہ ہے اور نہ ہی افطار کی دعوت دینے والے کا روزہ ہوگا تو پھر میں کیوں نہ جائوں؟ امیر آدمی کا جواب اصولی طور پر بالکل ٹھیک تھا کیونکہ آج کل افطار پارٹیوں کو سیاسی کلچر کا حصہ بنا دیا گیا ہے، زیادہ تر ایسا ہی ہورہا ہے کہ اکثر دعوتِ افطار دینے والوں اور اس میں شریک ہونے والوں کا روزہ نہیں ہوتا ۔ روزے جیسی فرض عبادت کو ادا کرنے پر توجہ دینے کی بجائے افطار کی دعوت دینا اور اس میں شریک ہونے کو ضروری سمجھا جارہا ہے، تاہم یہ بات بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ شرعی لحاظ سے کسی مسلمان کو افطار کو دعوت دینے یا اس میں شریک ہونے سے روکا نہیں جاسکتا۔ روزہ خالص اللہ اور بندے کے درمیان کا معاملہ ہے جبکہ غیر مسلم کا معاملہ یکسر مختلف ہے۔ ہم فتوے کا علم اور اختیار نہیں رکھتے تاہم ہمارا غور وفکر یہ بتاتا ہے کہ کسی بھی غیر مسلم کا مسلمانوں کو افطار کی دعوت دینا یا یہ کہ کسی مسلمان کا کسی غیر مسلم کی دعوتِ افطار کو قبول کرنا دونوں عمل درست نہیں۔ لہذا اس نقطہ نظر کو سامنے رکھتے ہوئے ہم سمجھتے ہیں کہ کسی بھی غیر مسلم لیڈران ، مسلم تنظیموں اور علما کرام کا جہاں دعوتِ افطار غلط ہے وہیں اس سے بڑھ کر غلطی ان کی ہوگی جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان نہ رکھنے اور روزے کو فرض عبادت نہ سمجھنے والے کی افطار پارٹی میں شریک ہونگے۔
قارئین محترم سیاسی لیڈران اور غیر مسلم کی بات تو الگ ہے لیکن اب تو خود مسلمان بھی افطار پارٹی کرتے ہیں، محض نمود ونمائش کیلئے ، اپنی نیک نامی کیلئے ، جبکہ اس افطار پارٹی میں مقامی لیڈران ہوتے ہیں، مذہبی وملی رہنمائوں کو مدعوں کیا جاتا ہے، شہر کے رئوسا کو بھی دعوت دی جاتی ہے جس میں روزہ دار کم اور بے روزہ داروں کی کافی تعداد ہوتی ہے۔ یعنی کب یہ مسلم قوم سمجھے گی کہ دین اسلام اسلامی بھائی چارے کا درس ضرور دیتا ہے، اسلام تمام مذاہب کے ماننے والوں کی مذہبی رسوم سمیت ان کی جان ومال اور عزت واحترام کا بھی ہر حال میں یقینی بنائے رکھنے کا واضع حکم دیتا ہے، اسلام تمام اقوام کے درمیان امن ، محبت اور خوشگوار باہمی تعلقات قائم رکھنے کی تعلیم دیتا اور تائید کرتا ہے تاہم اسلام میں اس بات پر خصوصی توجہ دی گئی ہے کہ دین اسلام کو دیگر مذاہب کے مقابلے میں ممتاز اور نمایا ںکرنے والی حدود وقید کا بھی خاص خیال رکھا جائے۔ یہ دین اسلام کوئی عام دین نہیں کہ جسے بے دینوں کے ساتھ کھڑے ہوکر کسی ترانے یا نظم کی طرح پڑھا جائے، اس دین میں ایک ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھنے کی اجازت ضرور ہے تاہم کھانے کی پلیٹ میں حلال وحرام کے فرق کو ضرور مدِ نظر رکھنے کی تلقین ہے۔ مگر واہ رے آج کا مسلمان یہ مفت کی دعوت اڑاتے وقت یہ کہا ں سوجھتا ہے کہ افطار کی دعوت کس کے طرف سے ہے؟ حرام ہے کہ حلال ہے؟ اسے تو بس کھانے کی پڑی ہوتی ہے اور یہ اپنے اپنے محلے سے ایک ہجوم کی شکل میں نکل پڑتے ہیں دعوتِ افطار میں شریک ہونے کیلئے، کوئی ان سے کہتا ہے کہ بھائی تم روزے سے ہواور افطار بجائے گھر میں کرنے کے کسی کی دعوتِ افطار پارٹی میں جارہے ہو تمہیں پتا نہیں کہ دعوتِ افطار پارٹی کرنے والے کا مال حرام ہے یا حلال ؟ تو جواب ملتا ہے کہ میرا روزہ خراب نہ ہو اس لئے ہم دو کھجور اپنی جیب میں لے کر جاتے ہیں تاکہ روزہ اپنے کھجور سے کھول لینگے اور میرا روزہ خراب نہ ہو ۔ واہ کیا خوب سوچ ہے مسلم نوجوانوں کا ، بھلا بتائیں دو حلال کھجور حلق سے اترتے ہی نہ جانے کتنی ایٹمس اور طرح طرح کے لذیذ پکوان حرام کے حلق سے اتر نے لگتے ہیں اب ایسے میں ان حلال دو کھجور کا کیا حال ہوگا؟ کیا وہ حلال رہا یا کہ حرام اس کا فیصلہ مسلمان خود کر لیں، مجھے بتانے کی ضرورت نہیںہے۔
آخر میں بس اتنا ہی کہ ہم لوگ احساس کمتر ی میں مبتلا ہوچکے ہیں ، ہمارے علما ، دانشوراور رہنما بھی مسلمانوں کے عقائد ، عبادات اور نظریات کی غلط تشریح کرتے ہوئے غیر مسلموں کے ساتھ دوستانہ تعلقات کو فروغ دینے کیلئے جنون کی حد تک مبتلا ہوچکے ہیں، جس کی اجازت اسلامی شریعت اور مسلم معاشرے کے پیغام میں موجود نہیں۔دعوتِ افطار کرنے والے میں ان مخیر حضرات سے گذارش کرتا ہوں کہ جو رقم آپ افطار کراکر ثواب کی غرض سے بے روزہ داروں پر خرچ کرتے ہیںوہی رقم آپ اپنے علاقے کے سفید پوش غریب غربہ میں تقسیم کردینگے تو اللہ بھی آپ سے خوش ہوگااور غریب کی زندگی میں بھی خوشحالی آجائیگی۔
اور یہ جو خام خیالی آپ لوگوں نے اپنے دلوں میں پال رکھا ہے کہ غیر مسلموں کو بلاکر بھائی چارہ کوبڑھاوادینا ایک اچھا عمل ہے تو اس گمان میں نہ رہیںکہ ایسے لوگوں کو بلاکر آپ کو اس کا اجر ملے گا اور نہ ہی آپ کو اور آپ کی مساجد کو ان سے نقصان نہ پہنچے گا۔ بھائی چارہ قائم کرنے کے بجائے لوگوں کا سہارابنیں، جب آپ لوگوں کا سہارا بنیں گے تب خدا آپ کو سہارا دیگا ورنہ یہ بھائی چارہ نہ آپ کے کام آئیگا اور نہ آپ کی قوم کو کام آئیگااگر بھائی چارہ دکھانے کا ہی اتنا شوق ہے تو اٹھیں اور سب سے پہلے اپنے اپنے محلے کی مساجد کے اماموں کو ایک اسٹیج پر لانے کی کوشش کریں جب ایسا کر لیں گے تب جانیں گے کہ آپ نے بھائی چارہ قائم کیا ہے۔اپنے قوم میں بھائی چارہ نہیں اور دوسری قوم سے بھائی چارہ بنانے کی بات کرتے ہیں،دراصل حقیقت یہ ہے کہ یہ آج کے مسلمان غیر مسلموں سے مل کر بھائی چارگی کا پیغام نہیں پیش کرتے بلکہ جو حالات ہیں آج ان حالات کے تحت اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کرتے ہیںورنہ نماز ، روزہ، حج اور جہاد عبادات ہیں کہ جن کا پہلا مقصد اللہ رب العزت کی بندگی بجالانا اور دوسرا مقصدِ ہدف تمام باطل نظاموں کو زمیں بوس کرکے دین اسلام کی بالا دستی کو قائم کرنا ہے۔ لہذا اس صورتِ حال اور پس منظر کو سامنے رکھتے ہوئے ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ کوئی بھی روزہ دار کسی سیاسی لیڈران یا پھر معاشرے کے کسی امیرِ وقت کی افطار پارٹی میں شریک ہوکر اپنا روزہ خراب نہ کریں کیونکہ یہ لوگ افطار پارٹی کی دعوت دیکر ہم مسلمانوں کو دھوکہ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ یاد رکھیں اس طرح کی افطار پارٹی کی دعوت ظلم کی شدت کو کم نہیں کرسکتی جن کی تکلیف اور درد سے ہم مسلمان آج کروٹیں بدل رہے ہیں۔
کریگ اسٹریٹ،کمرہٹی،کولکاتا۔۵۸
موبائل:6291697668

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا