کفر ٹوٹا خدا خداکرکے !

0
0

وسیم خان وسیم
سنت کبیر نگر اترپردیش
9918707808

گذشتہ دنوں ایوان پارلیمنٹ میںطلاق ثلاثہ کو لے کر ایک بار پھر بی جے پی نے بل پاس کرانے کی کوشش کی ،اس بار ایوان پارلیمینٹ میں طلاق ثلاثہ کو لے کرجوبحث ہوئی وہ گذشتہ دنوںکی بحث سے قدرے مختلف تھی ،طلاق ثلاثہ کو لے کرگذشتہ پارلیمانی بحث میں صرف ایک ہی رکن پارلیمینٹ تھا ایسا تھا جس نے پوری پارلیمینٹ میں بل کے خلاف سختی کے ساتھ آواز بلند کی تھی اوربل کے خلاف ووٹننگ کرائی تھی اس رکن پارلیمینٹ کا نام اسدالدین اویسی تھا باقی تمام ممبران پارلیمینٹ چاہے وہ کسی بھی مذہب وملت یا کسی بھی سیاسی جماعت سے تعلق رکھتے تھے اکثرو بیشترنے کسی نہ کسی شکل میں طلاق ثلاثہ معاملے میںبل کی حمایت کی اوربی جی پی کاساتھ دیا ،لیکن اس بار جب بی جے پی نے پارلیمینٹ میںطلاق ثلاثہ کا بل پیش کیاتوایوان پارلیمینٹ میں نظارہ کچھ اور ہی تھا ، اسدالدین اویسی کے ساتھ کئی ممبران پارلیمینٹ نے مذکورہ بل کی مخالفت کی ،جو لوگ کسی مجبوری یا مصلحت کی وجہ سے سابقہ بحث میں خاموش تھے اس بحث میں کھل کر سامنے آگئے خوشی کی بات تو یہ ہے کہ اس بارکئی ممبران پارلیمینٹ نے بلا تفریق مذہب و ملت اس بل کی پُرزور مخالفت کی اور ملک میںجمہوریت کا نا م بلندوبالا کیا،ہم ایسے تمام ممبران پارلیمینٹ کا تہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہیں ۔موضوع بحث یہ نہیں کہ بیشترممبران پارلیمینٹ نے اس بل کی مخالفت کی تھی ،کیونکہ جو بھی سیکولر ذہنیت کے لوگ ہوں گے وہ اپنے ضمیر کی آوازپر آج نہیں تو کل بہر حال جمہوریت کے حق میں ہی آواز بلند کریں گے ،خواہ ان کی آواز سنی جائے خواہ نہ سنی جائے ،خواہ وہ کامیاب ہوں خواہ وہ ناکام ہوںوہ ہر حال میںجمہوریت کا دفاع کرتے ہوئے ہی نظر آئیں گے ،موضوع بحث بات یہ ہے کہ طلاق ثلاثہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو مسلمانوں کا دینی مسئلہ ہے اور دین کا تحفظ ہر مسلمان مرداور عورت پر بہر حال فرض ہے، جب پہلی بار بی جے پی طلاق ثلاثہ کے خلاف بل پیش کررہی تھی تو اسدالدین اویسی کا ساتھ چاہے نہ چاہے کسی نے نہیں دیا تھا لیکن اسدالدین اویسی نے اپنے فرض کی ادائگی کرتے ہوئے قوم کی بھر پور ترجمانی کی اگرچہ وہ شخص اپنے مقصد میں بظاہرناکام رہا لیکن اہل نظر اسے ناکامی کا نام ہرگز نہیں دیتے ،کیونکہ اسدالدین اویسی کی سابقہ کوششوںکا ہی نتیجہ تھا کہ اس بار مذکورہ بل کے خلاف راستہ ہموار ہوا اوربہتوں نے اس بل کے خلاف آوازٹھائی۔سوال یہ ہے کہ جب ایوان پارلیمینٹ میں پہلی بار بی جے پی نے بل پاس کرانے کی کوشش کی تھی تو اکثروبیشتر مسلم ممبران کیوں خاموش تھے ان کی خاموشی کی کیا وجہ تھی کون سی ایسی مصلحت تھی جس کی بنا پرمسلم ممبران چپ تھے،اور اگر پہلے چپ تھے تو اب کیا وجوہات بنیںکہ یہ ممبران بل کے خلاف ہوگئے ،وجوہات جو بھی رہی ہوں لیکن ایک بات تو صاف ہے طلاق ثلاثہ کا معاملہ ایک دینی معاملہ ہے جو پہلے بھی دینی تھا اورآج بھی دینی ہے،پھر ایک ہی معاملے میں دو بار میں دو طرح کی پالیسی کیوں اپنائی گئی ۔جن مسلم ممبران پارلیمینٹ نے طلا ق ثلاثہ کی دوسری بحث میں اپنی آرا کو تبدیل کیا اوروہ طلاق بل کے خلاف ہوئے اگر وہ ان کی سیاسی جماعتوں کی حکمت عملی ہے ،یاان کی سیاسی جماعتوںکی اپنی سیاسی پالیسی ہے،یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ سیاسی جماعتوں کی حکمت عملی اور پالیسیاں وقت کے ساتھ ساتھ اپنے مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے بدلتی رہتی ہیں ،طلاق ثلاثہ بل پر کل مذکورہ سیاسی جماعتوں کی پالیسیاں اور حکمت عملی کچھ اور تھی اور آج اسی بل پر ان کی رائے بدل چکی ہے،اس لئے سیاسی جماعتوں کی رائے کی اس تبدیلی پراگر کسی کو وقتی طور پر تھوڑی دیر کے لئے خوش ہونا ہو تو بے شک وہ خوش ہولے البتہ بہت زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہ سیاسی جماعتوں کی آراء ہیں اور یہ آراء وقت اور اپنے سیاسی مفاد کو دیکھتے ہوئے کبھی تبدیل ہو سکتی ہیں۔البتہ مذکورہ ممبران پارلیمینٹ مبارک باد کے مستحق ضرور ہیں کہ دیر سویر ان کو اپنے فرض کی ادائگی کا احساس ہوا ،بقول شخصے ’’کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے ‘‘اب دیکھنا یہ ہے کہ ان ممبران پارلیمینٹ کی آراء کی یہ تبدیلی کنتی دیر پا ثابت ہوتی ہے ۔پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا