یواین آئی
سرینگر؍؍مرکزی حکومت کی طرف سے دفعہ 370 اور دفعہ 35 اے ہٹائے جانے کے خلاف وادی کشمیر میں گزشتہ 81 دنوں سے غیر اعلانیہ ہڑتالوں کا سلسلہ تواتر کے ساتھ جاری ہے جس کے باعث جمعرات کے روز بھی وادی کے یمین ویسار میں معمولات زندگی متاثر رہے۔بتادیں کہ مرکزی حکومت نے پانچ اگست کو جموں کشمیر کو خصوصی اختیارات عطا کرنے والی دفعہ 370 اور دفعہ 35 اے ہٹائی اور ریاست کو دو وفاقی حصوں میں منقسم کرنے اعلان کیا تھا۔موصولہ اطلاعات کے مطابق وادی کے شہر سری نگر کے ساتھ ساتھ جملہ صدر مقامات و قصبہ جات میں جمعرات کے روز بھی کاروباری سرگرمیاں متاثر رہیں اور بازار بھی دن بھر بند رہے، سڑکوں سے پبلک ٹرانسپورٹ غائب رہا تاہم نجی گاڑیوں کی نقل وحمل حسب معمول جاری رہی۔وادی میں پانچ اگست سے ریل سروس بھی مسلسل معطل ہے۔ ریل حکام کا کہنا ہے کہ وادی میں ریل خدمات کو پولیس اور مقامی انتظامیہ کے احکامات پر بند رکھا گیا ہے تاکہ عوام، ریلوے عملے اور املاک کے تحفظ کو یقینی بنایا جاسکے۔جمعرات کے روز بھی شہر سری نگر کے تمام علاقوں بشمول تجارتی مرکز لالچوک میں علی الصبح بازار کھل گئے جس دوران بازاروں میں گہماگہمی دیکھی گئی تاہم دس بجنے سے قبل ہی تمام بازار یکایک بند ہوگئے۔وادی کے دیگر ضلع صدر مقامات و قصبہ جات کے تمام چھوٹے بڑے بازار بھی جمعرات کی شام کو کھل گئے اور اس دوران بازاروں میں لوگوں کے جم غفیر کو جم کر خریداری کرتے ہوئے دیکھا گیا۔شہر سری نگر کے تمام علاقہ جات بشمول تجارتی مرکز لالچوک میں دن بھر بازاروں میں تمام دکانیں مقفل رہیں، تجارتی سرگرمیاں معطل اور سڑکوں سے پبلک ٹرانسپورٹ غائب رہا تاہم نجی ٹرانسپورٹ کی نقل وحمل معمول سے زیادہ ہی دیکھی گئی جس کی وجہ سے کئی علاقوں میں صبح کے وقت لوگوں کو ٹریفک جام سے دوچار ہونا پڑا۔عینی شاہدین کے مطابق سری نگر کے بتہ مالو، پولوویو، رزیڈنسی روڑ، لالچوک، جہانگیر چوک، ڈل گیٹ وغیرہ میں چھاپڑی فروشوں کو گرم ملبوسات، سبزیاں، پھل وغیرہ بیچتے ہوئے دیکھا گیا۔شہر سری نگر کے کئی علاقوں میں دن میں بھی اکا دکا سومو گاڑیوں کو بھی چلتے ہوئے دیکھا گیا اور وادی کے بعض ضلع صدر مقامات و قصبہ جات میں بھی دن میں اکا دکا سومو گاڑیوں نے چلنا شروع کیا ہے۔وادی کے شمال وجنوب کے ضلع صدر مقامات و قصبہ جات میں بھی جمعرات کے روز بھی ہڑتال کے باعث معمولات زندگی مفلوج رہنے کی اطلاعات ہیں۔سرکاری دفاتر میں کام کاج رفتہ رفتہ بحال ہورہا ہے تاہم بلاک ڈیولپمنٹ کونسل انتخابات کے پیش نظر ضلع مجسٹریٹ دفاتر میں متعلقہ ملازمین و عوام کا کافی رش دیکھنے کا ملتا ہے۔وادی کے تعلیمی اداروں میں درس وتدریس کا عمل مسلسل معطل ہے اگرچہ تعلیمی ادارے کھلے رہتے ہیں اور عملہ بھی حاضر رہتا ہے لیکن طلبا گھروں میں بیٹھنے کو ہی ترجیح دے رہے ہیں اور والدین بھی موجودہ حالات کے پیش نظر بچوں کو اسکول یا کالج بھیجنے میں ہچکچاہٹ ہی محسوس کرتے ہیں۔علاوہ ازیں مواصلاتی نظام پر بھی جاری پابندی پر بھی بتدریج تخفیف لائی جارہی ہے۔ پہلے لینڈ لائن سروس کو بحال کیا گیا بعد ازاں پیر کے روز پوسٹ پیڈ موبائل سروس کو بھی بحال کیا گیا تاہم براڈ بینڈ اور موبائل انٹرنیٹ خدمات گزشتہ قریب ڈھائی ماہ سے مسلسل معطل ہیں جو مختلف شعبہ ہائے حیات سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے لئے سوہان روح بن گیا ہے۔ صحافیوں اور طلبا کو انٹرنیٹ کی عدم دستیابی سے زیادہ مشکلات کا سامنا ہے۔انٹرنیٹ سروسز کی معطلی کے ساتھ ساتھ قومی دھارے اور حریت کے درجنوں چھوٹے بڑے قائدین بھی لگاتار خانہ یا تھانہ نظر بند ہیں۔ ننیشنل کانفرنس کے صدر اور سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ اپنی رہائش گاہ پر ہی پی ایس اے کے تحت بند ہیں جبکہ ان کا بیٹا اور سابق وزیر اعلیٰ عمر عبدللہ بھی ہری نواس میں مسلسل زیر حراست ہیں۔ پی ڈی پی کی صدر اور سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی بھی نظر بند ہیں جبکہ حریت کانفرنس (گ) کے چیئرمین سید علی گیلانی حیدر پورہ میں واقع اپنی راہئش گاہ پر نظر بند ہیں اور حریت کانفرنس (ع) چیئرمین میرواعظ عمر فاروق بھی نگین میں واقع اپنی ہی رہائش گاہ پر نظر بند ہیں۔قابل ذکر ہے کہ وادی کشمیر میں گزشتہ زائد از ڈھائی ماہ سے غیر اعلانیہ ہڑتالوں کا سلسلہ جاری ہے۔ ہڑتالوں کا سلسلہ شروع ہونے سے قبل انتظامیہ کی طرف سے جاری ایک ایڈوائزری، جس میں یہاں مقیم سیاحوں اور یاتریوں کو وادی چھوڑنے کی ہدایات دی گئی تھیں، کے نتیجے میں یہاں ہرسو سراسیمگی اور عدم تحفظ کے بادل سایہ فگن ہوگئے تھے جس کے پیش نظر ہزاروں کی تعداد غیرریاستی مزدور و کاریگر بھی وادی کو چھوڑ کر چلے گئے تھے۔