کس قدر غمگین خون میں رنگین میں فلطین میں مجاہدین

0
0

 

 

 

 

 

 

فہیم حیدر ندوی

آج میرے مقالہ کا عنوان ہے ’’مسلم مما لک اور فلسطین کے مجاہدین‘‘ یو تو اس دنیا میں مسلم ممالک کی تعداد بے شمار ہیں تقریبا ۵۷ مسلم ممالک ہے مسلم ممالک کا مطلب جہا ںمسلمانوں کی آبادی اکثریت میںہوںاور اکثریت کا مطلب جہاں ان کی تعداد ملک کی کل آبادی کا کم سے کم 51 فیصد یا اس سے زائد ہو۔مسلم ممالک میں انڈونیشیا سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے جس کی آبادی 23 کروڑ کے قریب ہے اور سب سے کم آبادی والا مسلم ملک مالدیپ ہے جس کی آبادی صرف ساڑھے تین لاکھ ہے مسلم ممالک میں زیادہ تر سنی مسلم ہے اور شیعہ ملکوں کی تعداد صرف تین ہے یعنی ایران ‘آذر با ئیجان ‘اور بحرین ۔سنی یا مسلم ممالک عالم اسلام میں ہر بر اعظم میں پائے جاتے ہیں کچھ ایسے مسلم ممالک بھی ہیں جہاں سنی اور شیعہ مشتر کہ طور پر پائے جاتے ہیں جیسے ترکی ‘پاکستان ‘عراق اور یمن وغیرہ ۔ جہاں تک ریاست فلسطین کی بات ہے توفلسطین میں اسلام ایک بڑا مذہب ہے فلسطینی مسلمانوں میں سب سے بڑا فرقہ سنی ہے جن میں زیادہ تر شافعی ہیں جو کہ 85% فیصد ہے اور 14%غیرفرقہ پرست مسلمان ہیں۔ مسلم ممالک میں حکومت یا تو قدیم طرز کے بادشاہوں کے زیر نگیں ہے یا پھر فوجی حکمراں وہاں بر سر اقتدار ہے تمام مسلم ممالک میں صرف ایک ملک ایران ہے جہاں کا آئین قر آن و سنت کی روشنی میں ہے باقی مسلم ممالک صرف مسلمانوں کی آبادی اور مسلم حکمراں کی وجہ سے اسلامی یا مسلم ممالک کے نام سے جانا پہچا ناجاتا ہے ا سلام کے ماننے والے دنیا کے ہر ملک میں پائے جاتے ہیں اسلام دنیا کا دوسرا سب سے بڑا مذہبی گروہ ہے ایک اندازے کے مطابق اسلام کے ماننے والوںکی تعداد 1.9 بلین ہے جو دنیا کی آبادی کا تقریبا 24.7 فیصد ہے۔ مسلم ممالک اور امت مسلمہ کو متحد کرنے کی دنیا بھر میں اجتماعی کوششیں تقریباانیسوی صدی سے ہی جاری ہے اور آج بھی جاری ہے لیکن آج تک اس کوشش کومیابی نہیںمل سکی ہے اس کوشش اور مقصد کو کامیاب بنانے کے لئے ایک ایسے تنظیم کی اشد ضرورت محسوس کی جاتی رہی ہے اور آج بھی محسوس کی جاتی ہے جو دنیا کے تمام مسلم ممالک اور مسلمانوں کو اجتماعی طور پر متحد کر سکیں مسلمانوں کو سیاسی ‘اقتصادی اور سماجی اعتبار سے مضبوط اور ان کے مفادات کا تحفظ کر سکے۔مختلف ممالک میں مختلف سیاسی نظر یا ت ہونے کے باوجود تمام مسلم ممالک کو یکجا کر سکے۔ آخر وہ دن بھی آگیا جب سبھی کی کوشش و کاوش رنگ لائی اور باالاآخر25 ستمبر 1969کو’’ تمام مسلم ممالک کی اجتماعی تعاون کی بدولت او۔آئی۔سی وجود میں آئی‘ جس میں سبھی ممالک نے بھر پور کردار ادا کیا۔اس تنظیم کی تشکیل کا مقصد یورشلم؍بیت المقدس یعنی فلسطین میں مسلمانوں کے جوبے شمار مقدس مقامات اسرائلیوں کے ذریعہ چھین لئے گئے ‘ اس کی واپسی اور حفاظت یقینی بنانے ‘ایک اسرائیلی انتہا پسند کے ذریعہ مسلمانوں کی زیارات کو نقصان پہو نچاکر انتہائی ناخوشگوار اور سنگین مسئلہ 21اگست 1969کومسلم ممالک کے سامنے کھڑا کر نے ‘عالم اسلام میں غصہ کی لہر وغیرت کو مہمیرز لگانے اور عالم اسلام ومسلم ممالک کے رہنما وسر براہان کومراکش کے شہر رباط میں جمع کرنے پر اس قدر مجبور کر دیا کہ اس میٹینگ میںاس بات پراتفاق کر لیاگیا کہ مسلم ممالک اور مسلمانوں کو سیاسی ‘اقتصادی ‘سماجی ثقافتی ‘اور سائنسی شعبوں میں متحد کر نے کے لئے اجتماعی کوشش کی جائے گی اور مسلمانوں کے درمیان یکجہتی کو فرو غ دیا جائیگا۔اکتوبر 1973 میںعرب اور اسرائیل کے مابین جنگ کے تقریبا چھ ماہ بعد 1974 میںاو۔ آئی۔ سی کی ہنگامی اجلاس میں پہلی بار سعودی عرب نے اپنے تیل کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔1999 میں اس تنظیم کا ایک اجلاس ہوا جس میں تنظیم نے بین الاقوامی دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے کنونشن کی منظوری دی۔اپریل 2000 میں ملائشیا میں تنظیم کا ایک اور اجلاس ہوا جس میں دہشت گردی کے خاتمے سے متعلق امور پر غور کیا گیالیکن اس اجلاس میں دہشت گردی کی تعریف پر اتفاق نہ ہوسکا تاہم اس اجلاس میں یہ بات واضح کر دی گئی کہ اسرائیل کے خلاف فلسطینیوں کی جدو جہد کو دہشت گردی قرار نہیں دیا جا سکتا ‘یہ بھی واضح کر دیا گیا کہ اسرائیل فلسطینیوں کو کچلنے کے لئے جو فوجی کار وائیاں اور حملے کر رہا ہے یہ ریا ستی دہشت گردی ہے اور اس کی شدید مذمت بھی کی گئی ۔ اب آئیے ہم او ۔ آئی ۔سی تنظیم کی گزشتہ چند دہائیوں کے دوران کی کار کردگی کا جائزہ لیتے ہیںتو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ رکن ممالک نے اپنے ہی منظور کردہ اور طے کردہ مقاصدکو پورا کرنے میں اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کیںاور قرار دادکے سواعملی اقدامات نہیں کئے۔تنظیم کے مقاصد کے حصول کے لئے کوئی کامیابیاں حاصل نہیںکیںاور ایسا لگنے لگا کہ ان کے سارے دعوے لفظی اور زبانی تھے عملی طور پو انھوں نے کوئی اقدامات نہیں کئے۔اس لئے اس تنظیم کا اثر ورسوخ بین الاقوامی سطح پر کم ہو تا گیا۔سبھی مسلم حکمرانوںکے لئے نہایت ہی غور و فکر اور سوچنے کا مقام ہے یہ تنظیم امت مسلمہ کے اجتماعی مفادات کے تحفظ کرنے کے بجائے رکن ممالک اپنے اپنے مفادات کے لئے کام کرتے رہے ہیں اور آج بھی کر رہے ہیں جس سے تنظیم کی صلاحیت اور کار کردگی پر بہت برا اثر پڑااور اسلامی یا پھر مسلم ممالک کے مفادات کا تحفظ نہیں کیا جا سکا۔ آج بھی اس تنظیم کی اشدضرورت اس وقت زیادہ محسوس ہوتی ہے جب فلسطین اور دیگر مسلم ممالک کے مظلوم مسلمانوں کی صدائے کانوں میں آتی ہے جو مسلمانوں سے مسلم حکمرانوں سے او۔آئی ۔سی سے رو رو کر یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ کیا کوئی مسلم تنظیم یا مسلم حکمران ہے جو مظلوم مسلمانوں کے لئے باطل سے مقابلہ کر سکے اور ان کی ہر ممکن مدد کر سکیں۔ ان کے بال بچوں کی جان و مال کی حفاظت کے خاطر میدان جنگ میں ان مظلوموں کا ساتھ دے سکیں۔آج ہر مسلم ممالک صرف باطل کو یہ کہتے نظر آرہا ہے کہ فلسطین کے مظلوم مسلمانوں پر اسرائیل کا حملہ اور کاروائی کرنا صحیح نہیں ہے لیکن اسرائیل کو کسی بھی مسلم ممالک یا مسلم حکمراںکا کوئی خوف دنہیں ہے جبکہ اس کے برعکس وہ فلسطین اور حماس کے مجاہدین کو نیست و نابود کرنے کی مزید بے باکی سے دھمکیاں دے رہا ہے اور حملے بھی مزید اور تیز کرتا جا رہا ہے ادھر کوئی بھی مسلم ممالک زبانی دھمکیاں دینے کے سوا کوئی عملی یا جوابی کاروائی اسرائیلی دہشت گردی کے خلاف نہیں کررہا ہے تقریبا ۵۷ مسلم ممالک ہے لیکن صدیوں سے اجتماعی اتحاد کی کوشش آج بھی نا کام ہے اس لئے ایک شعر مسلم ممالک اور حکمراںکی غیرت کے لئے پیش کرنا چاہتا ہوں ۔۔۔۔۔ایک ہو جائے تو بن سکتے ہیں خورشید مبیں ورنہ ان بکھرے ہوئے تاروں سے کیا کام بنیں
فلسطین ایک ایسا مسلم ریاست ہے جہاں اسرائیل اور یہودییوں نے مسلمانوں کا جینا حرام کر دیا ہے آج مجھے ہٹلر کی وہ باتیں یاد آرہی ہے جب اس نے کہا تھا کہ تاریخ مجھے برا کہے گی ظالم کہے گی کہ میں نے لاکھوں یہو دیوں کو قتل کر دیا جا ن سے مار دیا لیکن ایک دن آئے گا جب لو گ میرے فیصلے کوسمجھیں گے میرے فیصلے سے اتفاق کریں گے کہ میں نے اسرائیلیوں اور یہو دیوں کو کیوں قتل کیا تھا آج ہٹلر کی باتیں حقیقت میں سمجھ آتی ہے کہ اس نے جو کیا تھا با لکل صحیح کیا تھا کہ 90 فیصد یہو دیوں کو قتل کر دیا اور 10فیصد کو زندہ چھوڑ دیا۔آج یہی حال 90 فیصد فلسطینیوں کاہے جسے اسرائیل و یہو دی نیست و نابود کر دینا چاہتے ہیں اور یہو دیوں کی طرح فلسطینیوں کا حال در دینا چاہتے ہیں جس کے ذمہ دار تمام مسلم ممالک اور حکمراں ہے فلسطین فلسطینیوں کا ہے ریاست صرف فلسطین ہے اسرائیل ریاست نہیں ہے اسرائیل ایک ناپاک وجود ہے لیکن اب تک ساری دنیا فلسطین کو ظالم اور اسرائیل کو مظلوم ثابت کرنے میں لگی ہوئی ہے او۔آئی ۔سی اتنی بڑی تنظیم ہونے کے باوجود فلسطین کی حفاظت کیوں نہیں کر پارہی ہے اسرائیلیوں کی تعداد تقریبا ایک سے ڈیڑھ کروڑ ہے اور مسلمانوں کی تعداد تقریبا دو ارب سے زائدہے لیکن ایک کروڑ اسرئیلیوںنے مسلمانوں کا جینا دشوار کر رکھا ہے مسلم حکمرانوں کے لئے نہایت شرم کی بات ہے یے اسرائیلی مظلوم فلسطینوں کو نہیں بلکہ مظلوم مسلمانوں کو مار رہے ہیں ان کی لڑائی فلسطین سے نہیں بلکہ مسلمانوں سے ہے ان کی تعداد کم ہونے کے باوجود مسلمانوں کو اس لئے مار رہے کیونکہ انہیں سو فیصد یقین ہو گیا ہے کہ مسلمانوں کی آبادی زیادہ ہونے کے باوجود ان کے پاس ایمان کی دولت نہیں ہے ان کے پاس غیرت بھی نہیں ہے ان کے پاس ایمانی جذبہ نہیں ہے ان کے پاس اتحاد بھی نہیں ہے تعلیم بھی نہیںہے قرآن بھی نہیں ہے عبادت بھی نہیں ہے امام و رہبر بھی نہیں ہے ان کے پاس توکل علی اللہ نہیں ہے ان کے پاس صرف اور صرف ایک فرقہ پر ستی ہے ایک وقت تھا جب ہم 313 تھے اور کچے مسجدوں میں پکے مسلمان تھے آج ہم دو ارب سے زیادہ ہیں لیکن پکے مسجدوں میں کچے مسلمان ہیں ہم مسلم ممالک اور مسلمانوں کو یہ حقیقت سمجھنا ہوگا کہ یہ اسرائیل نہیں ہے بلکہ ا مریکا کا پالا ہوا وہ پالتو کتا ہے جسے مسلمانوں کو کاٹنے اور ہلاک و بر باد کرنے لئے چھوڑ دیا گیا ہے آج ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ جن مجاہدوں نے اسرائیل پر حملہ کیا ہے انہوں بیت المقدس اور مسجد اقصی کی خاطر اپنی جانوں کی قربانی پیش کردی ہے انہوں نے مسلمانوں کو بیدار کرنے کے لئے کیا ہے مسلم حکمرانوں کو جھنجھوڑنے کے لئے کیا ہے غفلت کی نیند سے جگانے کے لئے کیا ہے حقیقت میں یے فلسطین کے مجاہدین ہیں اللہ کے راستے میں سب کچھ قر بان کرنے والے مومن اور اللہ کے نیک بندے ہے جنہیں امریکا اور امریکا جیسی نا پاک سوچ رکھنے والی تمام باطل طاقتیں دہشت گرد قرار دینے میں لگ گئی ہے تمام یہودی ایجنسیاں نیوزچینل ان مجاہدین کو ابھی سے دہشت گرد کہہ کر پکا نے لگا ہے جیسا کہ اس پہلے بھی دہشت گرد ی کا نام دیکر کئی مسلم ممالک اور مجاہدین اسلام کو امریکی و اسرائیلی طاقتوں نے مل کر ختم کرنے کا کام کیا تھاجن میں صدام حسین کا نام سر فہرست ہے صدام حسین کے کئی ایسے کام ہیں جس کی وجہ سے آج بھی عرب انہیں نہیں بھول پا یا ‘ان کا موں میں سے ایک کام یہ تھا کہ صدام حسین نے ان اسرائیلیوں اور یہو دیوں سے نمٹنے کے لئے ایک ایسی فوج تیار کر رکھی تھی جواسرائیلیوں کو فلسطین میں گھسنے سے روکے رکھتی تھی اور فلسطین اسرائیل جنگ میں جن فلسطینیوں کے گھر تباہ ہوگئے تھے صدام حسین نے ان سب کو گھر بنوا کر دئیے تھے ان کا دوسرا کام یہ تھا کہ وہ پہلے ایسے عرب حکمراں تھے جو چاہتے تھے کہ عرب کی پہچان ساری دنیا میں الگ ہو اور اسی وجہ سے انھوں نے ماڈرن ہتھیار بنانے کا کارخانہ لگا یا تھا۔ جسے دہشت گردی کے نام پر شہید کر دیا گیا آج وہی کام فلسطین کے اندر پھر سے یے ہودی اور اسرائیل مل کر رہے ہیں حماس کے مجاہدین نے وہ کام کر کے دکھا یا ہے جسے بڑے سے بڑے مسلم ممالک و حکمراں نہیں کرسکیں جو شریعت کے تقاضے کے مطابق ہے جو قر آن و سنت کے مطابق ہے پوری دنیا کے لوگ کہتے ہیں کہ حماس نے حملہ کیوں کیا؟ حماس نے جو حملہ کیا ہے وہ غلط ہے تو پھر میرا دنیا کے تما م امن پسند لوگوں سے سوال ہے کہ یہ امن پسند لو گ اس وقت کہا ں تھے جب ان فلسطینی لوگوںکو سالہا سالوں سے مارا جا رہا تھا جن کی مائوں بہنوں کی عزت کو داغدار کیا جاتا رہا تھا جن کو اپنے ہی گھروں سے بے گھر کیا جا تا رہا تھا جن کو اپنے ہی گھروں میں قیدی بن کرزندگی گزارنے کو مجبور کیا جاتا رہا تھا جن کی زمینوں کو قبضہ کیا جاتا رہا تھا جن کے بچے کوبیت المقدس جیسے مقدس شہر میں شہید کیا جاتا رہا تھا جہاں مسجد اقصی میں صیہونی طاقتیں دندناتے پھرتے رہتے تھے اور آج بھی دندناتے پھرتے رہتے ہیں میں ایسے فلسطین کے مجاہدوں کو سلام کرتا ہوں حماس کے مجاہدوں کو سلام پیش کرتا ہوں ان کے جد و جہد کو مبار کباد پیش کر تا ہوں جنہوں نے فلسطین کے اندر اسرائیل جیسی مضبوط باطل طاقت کے سامنے سر کٹا نا پسند کیا مگر سر جھکانا پسند نہیں کیا بلکہ ان سے لڑنے کی ہمت دکھائی عظم مسمم کیا کہ باطل کو اب برداشت نہیں کیا جاسکتا ہے اب پانی سر سے اوپر ہو چکا ہے اب بیت المقدس اور مسجد اقصی کو ان ناپاک اسرائیلیوں سے پاک کرکے ہی دم لیا جائے گا انشاء اللہ۔ ساتھ ہی ساتھ حماس تنظیم اور فلسطین کے مجاہدین کی طرف سے مدد کی درخواست کرتے ہوئے مسلم حکمرانوں سے یہ کہا جا رہا ہے کہ اے امت مسلمہ‘ اے مسلم حکمراں‘اے مسلم سپاہیوں ‘اے غیور مسلمانوں ‘اے مومنوں’’ اے امت کے خیر خواہ لوگوں ’’تم مجھے دس فیصدی اسلحہ مہیا کرادواور کل بیت المقدس میںجاکر نماز پڑھ لو‘‘۔ اے مسلم حکمرانوں ‘اے مسلم ممالک کے سربراہان اپنی غیرت پکڑو‘مسلمانوں کا ساتھ دو ‘ اس بیت المقدس اور مسجد اقصی کی حفاظت کر خاطرجس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ مسلمانوں کا پہلا قبلہ ہے یہی سے آپ ﷺ معراج پر تشریف لے گئے تھے کعبہ شریف کے بعد صرف مسجد اقصی کا ذکر قر آن پاک میں ملتا ہے اللہ نے خود اس جگہ کو مقدس کہا ہے دنیا میں صرف ایک یہی جگہ ہے جہاں سارے انبیاء علیہ السلام نے نماز پڑھی ہے حضرت سلیمان علیہ السلام نے اسی مقدس سر زمیں پر بیٹھ کر ساری دنیا پر حکومت کی تھی ہ غیرہ وغیرہ۔فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کی طرف سے یہ صدائے آرہی ہیں جن کی مائیں ‘بہنیں بھائی‘ ‘باپ ‘بچے بیوی شوہر چیخ چیخ کر ہم سے کہہ ر ہیں ہیں کہ۔
۔۔۔۔
خون میں رنگین ہوںکس قدر غمگین ہوںمیں فلسطین ہوں
میں مجاہدین ہوں
اے مجاہد اٹھ ذرا‘
ہاتھ میں تلوار اٹھا
مسجد اقصی چھڑا
بیت المقدس بچا
اے مسلمانو اٹھو
فلسطین کی صدا سنو معصوموں کی حفاظت کرو
اب تو اپنی غیرت پکڑو
خون میں رنگین ہوں کس قدر غمگین ہوں
میں فلسطین ہوں
میں مجاہدین ہوں
اسرائیلیوںاور یہو دیوںکو دکھ کے ساتھ اورسر جھکا کر قبول کر نا چا ہیئے کہ ہم نا کا میاب ہو گئے ہیں انشاء اللہ جلد ہی فلسطین ایک آزاد ملک ہوگا۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اللہ ان فلسطینیوں اور مجاہدوں کی غیب سے مدد فرمائیں ۔آمین

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا