ہمیں ایسا لگتا ہے کہ چھورا پڑھ لکھ کر کاروبار کیوں کرے؟
یواین آئی
نئی دہلی؍؍نائب صدرجمہوریہ جگدیپ دھنکھڑ نے جمعہ کو کہا کہ کسانوں کو زراعت کے کاروبار میں آنا چاہئے اور بازار میں اپنی جگہ بنانی چاہئے۔مسٹر دھنکھڑ نے آج پارلیمنٹ ہاؤس کا دورہ کرنے کے لئے ہریانہ کے حصار سے آئے کسانوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ منڈی کے اندر کسانوں کی دکانیں بھی ہونی چاہئیں اور کسانوں کے بچوں کوکاروبار میں آنا چاہیے۔دورے کے بعد کسان نائب صدر کی رہائش گاہ پہنچے جہاں کسان بھائی بہنوں کا استقبال محترمہ سدیش دھنکھڑ نے کیا۔ ان میں کئی گاؤں کے 40 کسان شامل تھے جن میں 10 خواتین کسان بھی تھیں۔نائب صدر کی رہائش گاہ پر، ہریانہ کی پرجوش خواتین کسانوں نے ایک خود ساختہ لوک گیت – "جگدیپ دھنکھڑ نے فون کرایا تھا جلدی ائیو سنسد میں… آئی میں کیوں کر آؤں، میرا سسرا روز لڑے سو” – گایا۔مسٹر دھنکھڑ نے کسانوں سے کہا کہ دنیا کا سب سے بڑا کاروبار زرعی پیداوار کاہے۔ گندم، باجرا، چاول، دالیں، سبزیاں، دودھ سب زراعت سے تعلق رکھتے ہیں اور کسان ان کو پیدا کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کاشتکار نہ صرف کاشتکاری میں بلکہ زرعی مصنوعات کی تجارت میں بھی دلچسپی لیں۔ مسٹر دھنکھڑ نے کہا، "کسان کی منڈی کے اندر دکان بھی ہونی چاہیے اور کسان کے بچوں کو کاروبار میں شامل ہونا چاہئے۔نائب صدر جمہوریہ نے کہا، "ہمیں ایسا لگتا ہے کہ چھورا پڑھ لکھ کر کاروبار کیوں کرے؟ اسے تو نوکری کرنی چاہیے۔ کاروبار میں بہت طاقت ہوتی ہے، یہ تہیہ کرنا چاہیے کہ ہمارے بچے تعلیم حاصل کرنے کے بعد اوربھی کام کریں، لیکن زرعی پیداوار سے کاروبارضرور کریں۔مسٹردھنکھر نے کہا کہ کسانوں کو اپنی مصنوعات کی قدر میں اضافہ کرنا چاہیے۔ دودھ کا پنیر اور سرسوں کا تیل نکال کر فروخت کرنا چاہیے۔خواتین کسانوں سے بات کرتے ہوئے نائب صدر نے کہا، ’’چھورا چھوری کے درمیان کوئی فرق نہیں بچا ہے۔ جوتھوڑا ایک فرق ہے وہ یہ کہ چھوری تھوڑی زیادہ آگے پہنچ گئی ہے۔”ہریانہ کے اکھاڑوں کا ذکر کرتے ہوئے مسٹر دھنکھر نے کہا، "ہمارے اکھاڑے گروکل کی طرح ہیں، جب ہریانہ کے اکھاڑوں کے لوگ مجھ سے ملے تو میں ان سے مل کر دنگ رہ گیا۔ میں نے کہابچوں کو دودھ کہاں سے ملتا ہے، تو وہ کہتے ہیں کہ گاؤں کے لوگ دیتے ہیں۔ کھانے پینے کا انتظام کیسے ہوتا ہے، تو بتایا کہ اجتماعی طور پر کیا جاتا ہے۔ بچے خوب ورزش کرتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ بچوں میں کوئی بری عادت پیدا نہیں ہوتی۔