قیصر محمود عراقی
آپ ایک ووٹر ہیں بلکہ ایک ڈاکٹر ہیں ، آپ کا ملک اس وقت ایک بیمار مریض ہے ۔ الیکشن کا دن آپ کو اس کے مرضی کے مطابق علاج کا موقع دیتا ہے تو آپ کیا کرینگے ؟ آپ اس ڈاکٹر کی طرح بھی کر سکتے ہیں جو ٹوٹی گر دن والے مریض کو اور زیادہ جھٹکے دینے لگے یا زہر خورانی کے مریض کو مزید زہر یلی دو ا دے ، یا زخموں پر تیزاب جھڑکنے لگے ۔ایسے ڈاکٹر کی نیت تو پرُ خلوص ہو سکتی ہے لیکن بہر حال وہ نقصان ہی پہنچائے گا۔ بہت سے ووٹر بھی اسی طرح کے ڈاکٹر جیسے ہو تے ہیں جو مدد کر نے کے عمل میں مزید ضرر رساں ثابت ہو تے ہیں ۔ اس سے سبق یہ حاصل ہو تا ہے کہ اگر آپ مناسب طریقے سے ووٹ دینا چاہتے ہیں تو آپ کے دل کا درست کیفیت میں ہو نا کا فی نہیں ، آپ کے دماغ کو بھی درست حالت میں ہو نا اشد ضروری ہے ۔
ہندوستان میں جو مسائل آج معاشرے اور سیاست کے رگ وپے میں جڑیں جمائے ہو ئے ہیں اور جس طرح کا جذباتی ، انتشاری اور طعن و تشبع سے بھر پور ماحول سیاست کے اکھاڑے میں نظر آرہا ہے اس کے پیش نظر اس سیاسی مفکر کے خیالات سے استفادہ کر نا آج وقت کی ضرورت ہے ، امریکہ سے تعلق رکھنے والا ایک سیاست داں جیسن برنیان (Jesson Brenan)کے مطابق ووٹ دینا اس لئے اہم ہے کہ جب ہم ووٹ دیتے ہیں تو ہم حکومت کی تشکیل کر تے ہیں جو اچھی بھی ہو سکتی ہے اور بری بھی ۔ چنانچہ ہمارا ووٹ عوام کی زندگی کو بہتر یا بدتر بنا سکتا ہے ، ووٹ دینا اخلاقی اعتبار سے بہت اہم ہے ، ووٹ سے حکومت کا معیار ، وسعت اور نوعیت بد ل جا تی ہے ۔
اس لئے ہمیں آنکھیں کھولنے اور ادارک کر نے کی کوشش کر نی چاہیئے کہ ہمارے ملک کے ساتھ کیا ہو رہا ہے ؟ کیا وجہہ ہے کہ کہیں بھی ، کسی کو بھی سکون اور چین نہیں ہے ، کوئی اپنا کام کر نے کو تیار نہیں ہے ، یو ں محسوس ہو تا ہے کہ جیسے ہمارے ملک میں جنگل کا قانون لاگو ہے ، ہر طرف لوٹ مار ہے اور عوامی وسائل کا بے دریغ استعمال ، کوئی سوچتا ہی نہیں کہ جو وسائل دستیاب ہیں وہ اگر باقی نہ رہے ، ختم ہو جا ئے تو پھر ہم کیا کرینگے ؟ ہمارے لیڈروں کو بھی اس بات کا ادارک نہیں ہے کہ ہماری منزل کون سی ہے ؟ اور عوام کو کس طرف لے کے جا نا ہے ، عوام بھی خود نہیں جانتی کہ انہیں کس طرف رخ کر نا ہے ۔ یہی وجہہ ہے کہ آج ہندوستانی عوام مٹھی بھر لوگوں کی غلام ہے ، بہت قلیل تعداد میں ایک ارب تیس کڑور عوام کی قسمت اور اس ملک کے وسائل پر قبضہ جما رکھا ہے ،جب تک ان کے تسلط سے عوام آزاد نہیں ہو تی تب تک تر قی ، خوشحالی اور آزادی ایک خواب کی مانند رہے گی ، جو شاید کبھی پوری نہ ہو سکے ۔
قارئین حضرات الیکشن ۲۰۲۴ کا بگل بج چکا ہے ، گلیاں ، بازار ، سڑکیں ، چوراہے پارٹی پر چموں اور دیو قامت پوسٹروں سے سجائے جا رہے ہیں ، شہر کی خالی دیواریں پارٹی کے اشتہاروں سے بھر چکی ہیں ، ہر جگہ سیاست اور بس سیاست کی بات ہو رہی ہے ۔ عوامی نمائندے دن رات ووٹ مانگنے اور ناراض ووٹر کو منانے کی کوشش میں مصروف ہیں ، کبھی نظر نہ آنے والے عوامی نمائندے اب آپ کو فاتحہ خوانی کر تے ہو ئے اور چوکوں چوراہوں میں بیٹھے غریب عوام سے ہمدردیاں جتانے اور کبھی نہ پورے کر نے والے وعدے کر تے ہو ئے نظر آئینگے ۔ افسو س کی بات ہے کہ کسی پارٹی کے منشور میں تعلیم اور صحت کا ایجنڈا نہیں ، بلکہ اگر یوں کہا جا ئے کہ پارٹی بغیر کسی منشور کے الیکشن میں حصہ لے رہی ہیں اب پارٹیوں کا منشور برادری ازم رہ گیا ہے ، انہیں اس بات کی ذرہ برابر بھی فکر نہیں ہے کہ لوگوں کے پاس رہنے کو گھر نہیں ، نوجوان نسل منشیات کے استعمال سے تبا ہ ہو رہی ہے ، جگہ جگہ جوئے کے اڈے قائم ہیں ، حلقہ کی بیشتر آبادیوں میں نکاسی آب کا کوئی انتظام نہیں ، سینکڑوں لڑکے اور لڑکیاں اسکول نہ ہو نے کی وجہہ سے زیور ِ تعلیم سے محروم ہیں اور یہ ہمارے نمائندے اور نام نہاد لیڈر ہیں جو مفاد پر ستی کی سیاست کر نے میں مصروف ہیں ۔آخر یہ مفاد پرست سیاست کر نے والے کون ہیں ؟ ہم ووٹر کیوں ایسا کر تے ہیں کہ خاموش تماشائی بنے تماشا دیکھتے رہتے ہیں ؟ ہم آنے والے نمائندے کو ٹوکتے کیوں نہیں؟ نمائندوں سے تعلیم ، صحت ، روزگار ، کھیل کے میدان اور پختہ سڑکیں کیوں نہیں مانگتے ؟ ہم کیوں اندھے بہرے بنے ہو ئے ہیں ہم کیوں نہیں کہتے کہ کام دو گے تو ووٹ لوگے ؟ کب تک ہم بریانی کی ایک لپیٹ پر ووٹ دیتے رہینگے ؟ اس طرح تو ہندوستان کبھی خوشحال نہیں ہو سکتا کیونکہ ہم اسے خوشحال کر نا ہی نہیں چاہیتے ۔ جب تک ہم نہیں جاگیینگے ، جب تک ووٹر میں شعور نہیں آئے گا ، ہم مل کر ایسے نمائندے کا راستہ نہیں روکینگے تب تک ہم پر موسمی سیاست داں ہی حکومت کر تے رہینگے اور ہم بنیادی سہولیات سے محروم رہینگے ۔
لہذا اب عوام کو سوچنا ہو گا کہ وہ کب تک تبدیلی اور حقوق کے حصول کے لئے ان لوگوں کے پیچھے بھاگتے رہینگے جن سے مایوسیوں کے علاوہ کچھ نہیں ملا ۔ اب عوام کے سامنے ہندوستان کا مستقبل ہے ، اگر عوام ایسی طرح کرپٹ ٹولے کے پیچھے چلتے رہے جنہوں نے ملک کی دولت کو لوٹ کر کھایا ہے اور بیرون ملک اثاثے بنائے ہیں اور عوام کو محرومیوں کے تحفے دیئے ہیں تو پھر وہی چہرے اور لوگ اسمبلی میں آ گئے تو بچا کیا ۔ ہندوستان بھی یہ لوٹ کر کھا جا ئینگے اور ہم اسی طرح بے حسی کی چادر تان کر سوئے رہینگے ۔ ابھی بھی وقت ہاتھوں سے نکلا نہیں ہے ، یاد رکھیں ! یہ فرد واحد کی ذمہد اری ہے اور نہ ہی کسی ایک شخص کے ووٹ سے ملک اور عوام کی تقدیر بدل سکتی ہے ، یہ کا یا تب ہی پلٹے گی جب ایک جھنڈے تلے جمع ہو کر ہم حکمران کا انتخاب کرینگے ، جب کسی پارٹی کے لئے نہیں بلکہ ایک ہندوستانی بن کر ہندوستان کے لئے ووٹ ڈالینگے ، جب زبان ، رنگ و نسل ، یا دھرم اور مذہب کی بنیاد پر کسی کو فوقیت دینے کے بجائے اس کے عمل اور کر دار کو تر جیح دینگے ۔ اس لئے اٹھیں ، دیر ہے تو فقط عملی طور پر آغاز کر نے کی ، پہلا قدم بڑھانے کی ، یہ قدم بڑھانے کے لئے کسی کا انتظار کر نے کے بجائے خود قدم بڑھائیں ، اس روشنی کو اپنے گھر سے پھیلانے کا آغاز کریں ، اپنے قیمتی ووٹ ضائع کر نے کے بجائے اس کی اہمیت کو سمجھیں ، اور اپنے لئے ، اپنے عوام کے لئے اور اپنے ملک ہندوستان کے لئے ایک ایسے شخص کو منتخب کریں جو ہندوستان کو گاندھی کا ہندوستان بنا دے ، جو بے روزگاری ، غربت ، افلاس ، مہنگائی ، کرپشن ختم کر نے دعوئے نہ کرے بلکہ عملی اقدامات کر کے دکھائے ۔
کریگ اسٹریٹ ، کمرہٹی ، کولکاتا ۔۵۸
Mob: 6291697668