ابراہیم آتش گلبرگہ کرناٹک
کانگریس بھلے ہی ملک پر 70 سال راج کیا ہوا مگر وہ اب ایک قومی پارٹی کے بجائے علاقائی پارٹی نظر آ رہی ہے اس کا سیٹوں کے ذریعہ بی جے پی سے مقابلہ ہنوز ایک خواب بن کر رہ گیا ہے ملک کی موجودہ سیاسی تبدیلی میں وہ اپنے آپ کو سنبھال نہیں پائی پہلے کے لوگ سیدھے سادے تھے اور ووٹ اسی کی بنیاد پر دیتے تھے ملک کی ترقی اور ملک کے لئے قربان ہونے والے افراد پر بھروسہ کرتے تھے اور حکومت کی باگ ڈور بھی انھیں سونپتے تھے آ ج کی سیاسی ذہنیت اگر 1947 میں ہوتی تو نہ جانے ملک کا کیا حال ہوا ہوتا نہرو کے دور میں ملک نے جو ترقی کی ہے وہ ایک مثالی ترقی تھی پنچ سالہ پروگرام نے ملک کو ترقی کے بلندی پر پہنچایا اور منموہن سنگھ جیسے اکنامکسٹ نے ملک میں معاشی انقلاب لایا مگر لوگ اس ترقی کو پسند نہیں کررہے ہیںآج ملک کے لوگ ترقی کے بجائے مذہبی شدت پسندی کو ترجیح دے رہے ہیں چاہتے ہیں ملک پر ان غلبہ ہو جن لوگوں کے بس میں وہ کوشش کر رہے ہیں اور جن لوگوں کے بس میں نہیں ہے وہ مجبور وہ لاچار خاموش ہیں مذہبی شدت پسندی نے ملک میں ووٹروں کو جس طرح پولارائزشن کیا ہے وہ کھلے عام سب کو نظر آ رہا ہے خاص کر وہ علاقے جن کو ہندی علاقے کہا جاتا ہے دائیں بازو کی جماعتوں کی گرفت میں ٓا چکے ہیں وہاں سیکولرزم بھائی چارہ اور قومی ہم آہنگی کے لئے کوئی جگہ نہیں رہی اس کی وجہہ کیا اس پر مسلمانوں کو بھی سوچنا چاہئے اور بھائی چارے اور سیکولرزم کو بحال کرنے کے لئے اقدامات کرنے ہوں گے اور یہ کام کوئی سیاسی پارٹی نہیں کرے گی بلکہ اس کام کو مسلمان ہی کرنا پڑے گابعض حالات میں حالات کو معمول پر لانے کے لئے خاموشی فائدہ مند ہوتی ہے بعض دفعہ ہمارے دو قدم پیچھے بھی کار آمد ثابت ہوتے ہیںمسلمان اپنا مقصد اور نصب العین ہمیشہ یاد رکھیں اللہ نے مسلمانوں کو جو ذمہ داری دی ہے اس کو نہ بھولیں اس کو عمل میں لانے کے لئے صبر کا ہونا بہت ضروری ہے اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہمیشہ رہتا ہے کانگریس ہندو توا کا مقابلہ کرنے میں نا کام ہو چکی ہے ہندوتوا کا توڑ کانگریس کے پاس نہیں ہے ذات پات اور او بی سی کاکارڈ کھیلنے کی کوشش حالیہ پانچ ریاستوں کے انتخابات میں نا کام ہوئی کانگریس کو اس کا جواب دینے کے لئے ہی شایڈ بی جے پی نے راجستھان , مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں ادی واسی اور دلتوں کو چیف منسٹر اور ڈپٹی چیف منسٹر بنا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی بی جے پی او بی سی کے ساتھ ہے کانگریس کو 2024 میں اقتدار میں آنا ہے تو ملک کی چار اہم ریاستوں میں اپنی تمام طاقت اور صلاحیتوں کو جھونک دینا چاہئے اپنے تنظیمی دھانچے میں رد و بدل کرنے کی ضرورت ہے مدھیہ پردیش , راجستھان , چھتیس گڑھ کی ہار کے ذمہ دار کون ہیں ان کی جواب دہی ضروری ہے کسی ایک شخص کے پیچھے کانگریس کب تک بھروسہ کرتے رہے گی کوئی ٹیم جب ہار جاتی ہے اس ٹیم کے کپتان پر ذمہ داری عائد کی جاتی ہے اور اسے ہٹایا جاتا ہے ان ریاستوں میں کانگریس کی ہار کی ذمہ داری وہاں کے کپتانوں پر کیوں عائد نہیں کی جاتی 2018 میں مدھیہ پردیش میں کانگریس اسمبلی انتخابات میں کامیاب ہوئی تھی بعد میں وہاں بی جے پی نے کانگریس کا تختہ پلٹا اور کانگریس کے کئی ایم یل اے جیوترادتیا سندھیا کے ساتھ بغاوت کر کے بی جے پی میں شامل ہوگئے اور شیوراج سنگھ چوہان کو وزیر اعلی بنایا کمل ناتھ دیکھتے رہ گئے کیا انھیں خبر نہیں تھی پارٹی میں بغاوت ہو رہی ہے کمل ناتھ سے بہتر تو نتیش کمار کو کہا جاسکتا ہے جنھوں نے بغاوت کو بو بہت جلدی سونگھ لیا تھا کانگریس کا اعلی کمان کمل ناتھ پر کیا ایکشن لیا پھر سے 2023 میں انھیں وزیر اعلی کے چہرے کے طور پر پیش کیا کیوں کانگریس کمل ناتھ کے سامنے اتنی مجبور ہے کانگریس کو اپنی پالیسی بدلنی ہوگی پارٹی میں نئی جان ڈالنے کے لئے نئے خون کو لانا ہوگا اگر ریاستی سطح پر قومی گٹھ بندھن نا کام ہو جائے تو قومی سطح پر کس کام کا رہ جائے گا مدھیہ پردیش میں سماج وادی پارٹی سے اتحا د ہو سکتا تھا جب کمل ناتھ سے اس پر رائے لی گئی تو انھوں نے صاف انکار کر دیا انڈیا گٹھ بندھن کے مستقبل کے لئے اس طرح کا رویہ کانگریس کے لئے اور انڈیا گٹھ بندھن کے خود کشی کے متراوف ہوگامدھیہ پردیش کا الیکشن ہارنے کے بعدوہاں کانگریس صدر کا عہدہ جیوتو پٹواری کو دیا گیا کانگریس کی جانب سے ایک اچھا قدم ہے مدھیہ پردیش میں کانگریس نوجوان چہروں کو سامنے لائے جو بی جے پی کامقابلہ کر سکے جیوتردتیا سندھیا کو گذشتہ انتخابات کے بعداگر موقع دیا گیا ہوتا توآج کانگریس کو یہ دن دیکھنے کو نہ ملتے راجستھان میں بھی اسی طرح دیکھنے کو ملا2018 کے اسمبلی انتخابات میں سچن پائلٹ نے پارٹی کو جتانے کے لئے کوئی کسر نہیں چھوڑی جب وزیر اعلی بنانے کا وقت آیا اشوک گہلوٹ کووزیر اعلی بنایا گیا 2023 میں پھر اشوک گہلوٹ کا چہرہ سامنے لایا گیا نتیجہ ہم سب کے سامنے ہے چھتیش گڑھ کے بوپیش بھگیل بھی اپنی ذمہ داری میںنا کام رہے بہتر ہوتا یہ امیدوار اپنی جانب سے نئے چہروں کو سامنے لائیں اور پارٹی میں نئی جان ڈالیں اس سے پارٹی بھی مضبوط ہوگی اور ان کی سرپرستی بھی قائم رہے گی کانگریس کی بدقسمتی ہے کہ اترپردیش میں کوئی چہرہ نہیں ہے 1992 کے بعد سے اترپردیش میں کانگریس کا مکمل صفایا ہو چکا ہے یوگی جیسی بلندعمارت کے سامنے کانگریس کو کوئی جگہ نہیں مل رہی ہے جہاں عمارت کھڑا کر سکے میں سمجھتا ہوں یہ سب پی وی نرسمہا رائو کی دین ہے جو کانگریس کو وراثت میں دے گئے ہیںاترپردیش میں نوجوان لیڈر جو دلت, مسلمان ,برہمن,یادو یا جاٹ پانچ چہروں کو تلاش کرنا ہوگا اور پانچوں چہروں کو سامنے لانا ہوگا اترپردیش ایک ایسی ریاست ہے جہاں سے وزیر اعظم کی کرسی تک آسانی سے پہنچا جا سکتا ہے اترپردیس ,راجستھان, مدھیہ پردیش اور گجرات چار ایسی ریاستیں ہیں جہاں کانگریس کو ہوم ورک کرنے کی ضرورت ہے اگر کانگریس یہاں زمینی سطح پر کام نہیں کرتی ہے تو 2024 میں انڈیا اقتدار میں آنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتی گذشتہ2019 کے انتخابات کا جائزہ لیں تو ہمیں احساس ہوگا کانگریس کا ان ریاستوں میں مکمل صفایا ہو چکا تھا ایک قومی سیاسی پارٹی کے لئے افسوس ناک اور حیرتناک بھی چار ریاستووں میں صرف دو ممبر پارلیمنٹ اس سے ذلت ناک شکست اور کیا ہوگی کیا اس طرح مظاہرہ کرنی والی سیاسی پارٹی مرکز میں اقتدار حاصل کر سکتی ہے یہ چار ریاستیں اگر چھوٹی ہوتی تو ہرج نہیں تھا جیسے نارتھ ایسٹ کی ریاستیں ہیں جہاں چار پانچ ریاستوں میں آٹھ دس ایم پی ہوتے ہیں مگر ان چار ریاستوں کے جملہ 160 ایم پی ہیں اترپردیش میں 80 مدھیہ پردیش میں29گجرات میں26 اور راجستھان میں 25 اور بی جے پی یہاں 160 میں143 سیٹوں پر کامیاب ہوئی تھی اور کانگریس کو صرف دو سیٹ ملے تھے کانگریس کے راہل گاندھی کو اترپردیش سے کیرالا ہجرت کرنا پڑا کیا راہل گاندھی کی نا اہلی ثابت نہیں ہوتی جو کانگریس کے سربراہ ہیں اترپردیش کا کوئی حلقہ ان کے لئے محفوظ نہیں رہا وہ آپنے آپ کو وزیر اعظم کے چہرے کے طورپر پیش کرتے رہے ہیں یہ اور بات ہے اب وہ خاموش نظر آ رہے ہیں کیونکہ انھیں انتخابات کااحساس ہو گیا ہے اترپردیش کی عوام میں وہ جگہ نہیں بنا سکے مدھیہ پردیش میں کانگریس صرف ایک سیٹ جیت جاتی ہے تو کیا کمل ناتھ اس کے لئے ذمہ دار نہیں راجستھان میں کانگریس کو صفر سیٹ ملتی ہے تو اشوک گہلوٹ اس کے ذمہ دار کیوں نہیں اترپردیش میں اگر ایک سیٹ ملتی ہے تو کانگریس جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی اس کی ذ مہ دار کیوں نہیں گجرات میں کوئی چہرہ نہیں اس کی ذ مہ دار ی بھی کانگریس کی اعلی کمان کو لینی چاہئے بی جے پی کو سب سے زیادہ ان چار ریاستوں سے طاقت ملی تھی اور کانگریس کو ان چار ریاستوں میں سب سے زیادہ نقصان ہوا تھا کانگریس کو چار ریاستوں میں سب سے زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے باقی تمام ریاستوں میں انڈیا گٹھ بندھن کی طاقت کسی نہ کسی شکل میں ہمیں نظر آتی ہے مدھیہ پردیش ,راجستھان , اور گجرات ایسی ریاستیں ہیں جہاں بی جے پی کے خلاف کانگریس کے علاوہ کوئی سیاسی پارٹی نہیں ہے لہذا انڈیا گٹھ بندھن اگر 2024ناکام ہوتا ہے اس ذمہ داری مکمل طور پر کانگریس پر عائد ہونی چاہئے چار ریاستوں کے جملہ 160 سیٹوں میں کانگریس کتنی سیٹوں پر جیت حاصل کرتی ہے یہ آنے والا وقت بتائے گا اور میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں ان چار ریاستوں کا مرکز میں بننی والی سرکار میں اہم کردار ہوگا
رابطہ9916729890 :