کامیابی کے لیے مسلم مخالف ایجنڈا

0
0

محمد اعظم شاہد
گاندھی جی نے ہندو مسلم اتحاد کو ہندوستانی قومیت کا لازمی جز (حصہ) قرار دیا تھا۔ بھاجپا اور آرایس ایس کے نظریات گاندھی جی کے بارے میں کیا رہے ہیں۔ اس سے اہل نظر واقف ہیں۔ ہندوستان کی تکثیریت، مشتر کہ ثقافت، رواداری کی روایت سے انحراف کرنے والی بھاجپا اپنے مفادات کے حصول کے لیے مذہب کی آڑ میں سیاست کا کھیل کھیلتی رہی ہے اور اسی کرتب بازی کی بنیاد پر اقتدار پر قابض بھی ہوتی رہی ہے۔ جاری 2024 کے لوک سبھا انتخابات کے پہلے مرحلے کے بعد بھاجپا کو اپنی کرسی ڈگمگاتی نظر آنے لگی۔ عام آدمی وزیر اعظم مودی کی چرب زبانی، کھو کھلے وعدے اور بڑے بڑے بیانات سے بیزار نظر آنے لگا ہے۔ اپنی بنیادیں کمزور ہوتی محسوس ہوئیں تو مودی نے ملک کے اہم مسائل جیسے بڑھتی غربت، بے روزگاری اور آبادی کے لیے مسلمانوں کو ذمہ دار ٹھہرا دیا۔ ہندوؤں اور مسلمانوں میں نفرت کو بڑھاوا دے کر کئی بار آرایس ایس کی رہنمائی میں بھاجپا انتخابات میں کامیابی حاصل کرتی رہی ہے۔ ویسے اس بار لوک سبھا انتخابات کے دوران بھاجپا کے پاس کوئی مضبوط اور ٹھوس ایجنڈا نہیں ہے۔ بار بار پچھلے دس سالہ میعاد میں مودی حکومت کی کارکردگی کا واویلا سن سن کر لوگ گھٹن سی محسوس کرنے لگے ہیں۔ اب ہارتی ہوئی اپنی بازی جیتنے کے لیے مودی نے مسلمانوں کی آڑ میں کانگریس کو نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے۔ گذشتہ ماہ 21ْ؍ اپریل راجستھان کے بانسواڑہ میں ایک الیکشن ریلی کے دوران مودی نے مسلمانوں کو زیادہ بچے پیدا کرنے والے، آبادی بڑھانے والے اور در انداز (گھس پیٹھئے) بتاتے ہوئے کہا تھا کہ کانگریس مسلمانوں کو خوش کرنے دیگر پسماندہ طبقات کا حق چھین کر مسلمانوں میں ملک کی دولت تقسیم کرنا چاہتی ہے۔ گویا مسلمانوں کو ملک کے ہندوؤں کے دشمن قرار دے کر مودی ہندوؤں میں مسلمانوں کے تئیں خوف اور نفرت کو بڑھاوا دینا چاہتے ہیں۔ نفرت آمیز تقاریر کو Hate Speaches پر بالخصوص انتخابات کے دوران ضابطہ اخلاق (MCC) کے تحت سنگین خلاف ورزی قرار دیا گیا ہے۔ مگر ہندو مسلم کے نام پر کھلے عام سیاست کا بازار گرم ہے۔ الیکشن کمیشن میں مودی کی نفرت آمیز تقاریر پر شکایات بھری پڑی ہیں مگر قانونی کارروائی محض نوٹس جاری کرنے تک ہی محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ مسلمانوں کو چند ریاستوں میں بشمول کرناٹک میں تعلیم اور ملازمتوں میں جاری ریز رویشن کو بھی مودی نے مذہب کی عینک سے دیکھ کر اعتراضات جتائے ہیں۔ تعلیمی اور معاشی پسماندگی کے عنصرکو فراموش کرتے ہوئے مسلمانوں کے ریزرویشن کو مذہب سے جوڑ کر غلط فہمیاں پیدا کی جارہی ہیں۔ عامیانہ اور گری ہوئی سیاست کی نئی روش ان دنوں سر اٹھائے ہوئے ہے کہ مسلمان مخالف نعرے بازی اور بیانات کا سلسلہ چل پڑا ہے۔ مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کو نیا روپ دینے والی بھاجپا مودی کی تقلید میں الیکشن کے دوران غیر قانونی Communal Card مذہبی منافرت کا کارڈ کھیل رہی ہے۔ ان حالات میں وزیر اعظم کے دفتر (PMO) کی جانب سے EAC ایکنومک ایڈوائزری کونسل کی ایک رپورٹ جاری کی گئی ہے، جس میں سال 1950 سے 2015 تک ملک میں مسلمانوں کی بڑھتی آبادی اور ہندوؤں کی گھٹتی تعداد پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ سال 2021 میں آبادی کی مردم شماری Census کو رونا کی مہلک وباء کے باعث ممکن نہیں ہوسکی ہے۔ ایسے میں جبکہ انتخابات جاری ہیں، وزیر اعظم کے دفتر سے قیاس آرائی پر مبنی من گھڑت رپورٹ کے ذریعہ مسلمانوں کے تعلق سے غلط فہمیاں پیدا کرنا غیر ضروری اور باعث تشویش عمل ہے۔ وزیر اعظم کے دفتر کو ذمہ دار سرکاری ادارہ مانا جاتا ہے۔ اس دفتر کی رپورٹ پر ملک بھر میں تنقیدیں ہو رہی ہیں کہ یا حقائق سے دور محض قیاس آرائی پر مبنی رپورٹ ہے، جو الیکشن کے دوران ہندو مسلم تنازعات کو گرمائے رکھنے کی خاطر جاری کی گئی ہے۔
ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی سے متعلق غلط فہمیوں کے ازالہ کی خاطر ملک کے سابق چیف الیکشن کمشنر شہاب الدین یعقوب (ایس وائی) قریشی نے اپنی کتاب Population myth میں سرکاری اعداد و شمار اور اور نیشنل فیملی ہیلتھ سروے (NFHS) کی کی روشنی میں یہ ثابت کیا ہے کہ مسلمان اس ملک میں کبھی بھی آبادی کے لحاظ سے ہندوؤں سے زیادہ ہو ہی نہیں سکتے اور کسی بھی طرح ہندوستانی مسلمان نہ ملک کے لیے اور نہ ہندوؤں کے لیے خطرہ ہو سکتے ہیں۔ اپنی تحقیق کے ذریعہ ایس وائی قریشی نے ثابت کیا ہے کہ 1951 میں مسلمانوں کی آبادی 9.8 فیصد تھی اور 2021 میں ملک کی آبادی میں یہ تعداد 14.4 فیصد ہو گئی ہے، جو ساٹھ (60) سالوں میں 4.4 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ جبکہ سال 2011 کی مردم شماری کے مطابق ملک میں ہندوؤں کا کل آبادی میں تناسب 79.8 فیصد رہا ہے۔ اس لحاظ سے واضح طور پر یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ مسلمانوں کا ملک کی کل آبادی میں پہلے اور اب کیا تناسب ہے مگر حیرت اس بات پر ہے کہ حقائق پر مبنی اعداد و شمار سے چشم پوشی کرتے وزیر اعظم کے دفتر نے اہم معاشی مشاورتی کونسل EAC کے نام سے جوڑ کر فرضی اعداد و شمار پیش کیے ہیں۔ واضح طور پر مقصد یہی ظاہر ہوتا ہے کہ اب مودی نے جو مسلم مخالف لہرپھیلائی ہے، اس میں مزید شدت پیدا کرنے ایسی مذموم کوششیں ہو رہی ہیں۔
ملک کا ہر باشعور شہری یہ محسوس کرتا رہا ہے کہ پچھلے دس سالوں میں ہندوستان میں جمہوریت کو آمریت کا لبادہ پہنانے کی کوششیں ہوتی رہی ہیں۔ رائے عامہ کو نظر انداز کر کے فرسودہ طرز حکومت کے تحت ملک کی ترقی کے لیے مثبت تبدیلیوں کو ترجیحات سے خارج کرنے کی قصدا سازشیں ہوتی رہی ہیں۔ اپوزیشن بشمول کانگریس پر الزام لگانے کے نئے نئے حربے آزمانے والی بھاجپا نے اپنی جیت کے لیے مسلم مخالف ایجنڈے کو ہر طرح سے الیکشن کے دوران استعمال کرنے کی حکمت عملی Strategy بنالی ہے۔ وطن عزیز میں وہ لوگ جو ملک کی دیرینہ وراثت ہے اس کو گلے لگائے رکھنے کے آرزو مند ہیں وہ ہندو مسلم منافرت اورتذلیل سے نالاں ہیں۔ اور وہ جو آنکھیں اور کان بند کیے اندھ بھکت بنے ہوئے ہیں وہ نفرت کے ایجنڈ ے کو گرما ئے رکھنے کے حامی ہیں۔ نفرت پھیلانے کی سازشیں کامیاب ہوں گی یا پھر محبتوں کا نیا دور شروع ہوگا۔ یہ انتخابات کے نتائج ہی بتلائیں گے۔٭٭٭
azamshahid1786@gmail.com cell: 9986831777

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا