ڈیجیٹل غلبہ کی وجہ سے صنفی فرق میں کمی

0
0

 

 

 

سید طیبہ کوثر
پونچھ، جموں

ڈیجیٹل دور کی آمد نے معاشرے کے تمام پہلوؤں میں تبدیلی کی تبدیلیوں کا آغاز کیا ہے، جس کا ایک قابل ذکر اثر صنفی فرق کو کم کرنا ہے۔ ڈیجیٹل غلبہ، جس کی خصوصیت ٹیکنالوجی کے وسیع پیمانے پر استعمال ہے، اس نے رکاوٹوں کو توڑنے اور صنفی مساوات کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کی ترقی نے زندگی کے تمام شعبے میں انقلاب برپا کر دیا ہے۔ خصوصاً تعلیمی منظرنامے میں اس کا کردار نمایا ہے، جو دنیا بھر میں خواتین کے لیے بے مثال مواقع فراہم کررہاہے۔ آن لائن لرننگ پلیٹ فارمز نے لڑکیوں کے لئے تعلیم تک رسائی کو جمہوری بنایا ہے، جس سے دور دراز علاقوں کی لڑکیوں کو اپنی تعلیمی کوششوں کو آگے بڑھانے میں بہت مدد مل رہی ہے۔ ایسی ہی ایک مثال جموں کے سرحدی علاقع پونچھ کے بلاک بانڈی چچیاں کی 22سال کی سلمیٰ ہے۔ وہ واقعی ایک ہونہار طالبہ ہے اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہتی تھی لیکن جیسا کہ ہر کوئی جانتا ہے کہ ہندوستان کے زیادہ تر دیہی لوگوں کے مالی حالات اور وہ لڑکوں کے مقابلے لڑکیوں کی تعلیم پر خرچ کرنے پر منفی رویہ رکھتے ہیں، اس لیے اس کی پڑھائی کو خطرہ لاحق ہو گیا تھا ۔ ما لی اور سماجی حالات کے لحاظ سے 12ویں جماعت پاس کرنے کے بعد اس وقت اپنی عمر کی زیادہ تر لڑکیوں کی شادی کے بارے میں سوچ کر مایوس ہونے اور اعلیٰ تعلیم کے حصول کے اپنے خواب کو پورا کرنے سے قاصر ہونے کے باوجود، انٹرنیٹ اس کے لیے روشنی اور نجات دہندہ بن کر آیا۔ اس نے اندرا گاندھی نشنل اوپن یونیورسیٹی (اگنو) میں داخلہ لیا اور اپنی پڑھائی کے لیے انٹرنیٹ کا استعمال کیا اور اپنی گریجویشن مکمل کی۔

گریجویشن مکمل کرنے والی سلمیٰ اپنے خاندان کی پہلی لڑکی بنی ہے۔ اس طرح اس نے نہ صرف اپنے خاندان کی باقی لڑکیوں کے لیے بھی بڑے خواب دیکھنے کی راہ ہموار کی بلکہ انہیں بتایا کہ تعلیم حاصل کرنے کا ان کا حق بھی ویسا ہی ہے جیسا کہ ان کے خاندان کے لڑکوں کو حاصل ہے۔سلمیٰ اب سرکاری امتحانات کی تیاری کر رہی ہے اور بہت پر امید ہے کہ وہ خود مختار ہونے کا اپنا خواب پورا کر لے گی۔ سلمیٰ اپنی چھوٹی بہن آسیہ جو کہ ابھی گیارویں کلاس میں ہے، اس کے لیے ایک تحریک کے طور پر کھڑی ہے۔ اپنی بہن کی پڑھائی کے لیے ثابت قدمی کا مشاہدہ کرنے کے بعد اب آسیہ بھی بڑے خواب دیکھنا چاہتی ہے اور ایک امید رکھتی ہے کہ ایک دن وہ خود پر منحصر ہو جائے گی اور خود کو سماجی رکاوٹوں سے آزاد کر لے گی۔ اسے یقین ہے کہ ڈیجیٹل دنیا (انٹرنیٹ) کی مدد سے اس کے بہت سے مسائل حل ہوسکتے ہیں اور اپنی بڑی بہن کی رہنمائی سے وہ ان خوابوں کو حاصل کر سکتی ہے جو اس نے دیکھنا شروع کر دیے ہیں۔ سلمیٰ کی کامیابی کے بعد اب صرف آسیہ ہی نہیں بلکہ آس پاس کی دیگر لڑکیوں کو بھی حوصلہ اور رہنمائی ملی ہے۔ ڈیجیٹل ترقی نے روزگار کے منظر نامے کو بھی نئی شکل دی ہے، جس سے خواتین کو متنوع صنعتوں میں داخل ہونے کی نئی راہیں مل رہی ہیں۔ دور دراز کے کام، جو ڈیجیٹل کنیکٹیویٹی کے ذریعے ممکن ہوئے ہیں، نے خواتین کے لئے مواقع کے دروازے کھول دئے ہیں۔ جس سے انہیں خاندانی ذمہ داریوں کو نبھاتے ہوئے انفرادی قوت میں زیادہ فعال طور پر حصہ لینے مواقع مل رہے ہیں۔

22سال کی رخسار کاظمی ایک ایسی ہی مثال ہے، جوپڑھائی کے ساتھ ساتھ اس وقت چرخہ تنظیم کی رضا کار ٹرینر بھی ہے۔ اس تنظیم کا مرکز دہلی میں ہے لیکن انٹرنیٹ کی مدد سے وہ دہلی سے ہزار کیلومیٹر دور بانڈی چچیاںمیں اپنے گھر پر رہ ان کے ساتھ کام کر رہی ہے۔رخسار کہتی ہیں کہ ’’اس تنظیم کے ساتھ کام کرنا اور اپنے ارد گرد بے آواز لوگوں کی آواز بننے کے قابل ہونا واقعی اس بات سے فخر محسوس ہوتا ہے، میں سمجھتی ہوں کہ اس میں انٹرنیٹ کا بہت بڑا کردار ہے، ڈیجیٹل پلیٹ فارمز جیسے کہ گوگل ذوم میٹینگ اورواٹس ایپ میری مدد کرتے ہے۔ میں اپنی ٹیم کے ساتھ ہر وقت جڑ ی ہوتی ہوں، چاہے وہ جہاں بھی ہوں۔ میں اپنے علاقع کے بارے میں لکھ سکتی ہوں اور ان کے مسلے مسائل پورے ملک میں اخبارات کے ذریعہ ان لوگوں تک پہنچا سکتی ہوں۔ اگر یہ انٹرنیٹ اور ڈیجیٹل ترقی نہ ہوتی تو میں دنیا تک رسائی حاصل کرنے اور ایک خود کفیل اور خود مختار انسان نہ بن پاتی جیسا کہ میں آج ہوں۔‘‘

اتنا ہی نہیں،آج ڈیجیٹل پلیٹ فارمز نے کاروباری شخصیت کو بھی جمہوری بنایا ہے، خواتین کو ایک سطح کی پیشکش کی ہے۔انہیں اپنے کاروبار کو شروع کرنے اورفروغ دینے کے لیے ایک اہم پلیٹ فارم فراہم کیا ہے۔ ای کامرس، سوشل میڈیا، اور آن لائن مارکیٹنگ نے اس راہ میں حائل رکاوٹوں کو کم کیا ہے، جس سے خواتین کاروباریوں کو عالمی سامعین تک پہنچنے کے قابل بنایا ہے۔ صارفین کے ساتھ جڑنے، لین دین کا انتظام کرنے اور مصنوعات یا خدمات کو ڈیجیٹل طور پر فروغ دینے کی صلاحیت خواتین کی ملکیت والے کاروباروں کے لیے ایک گیم چینجر ثابت ہوئی ہے۔ اس سلسلے میں40سال کی رضیہ بیگم کا نام اہم ہے۔ جوبانڈی چچیاںمیں ہی اپنی پرچون کی دوکان چلاتی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ’’ اس ڈیجیٹل دور میں لوگ آن لاین پیسے دینا چاہتے ہیں لیکن مجھے اس کے بارے میں کوئی معلومات نہیں تھی ۔ جس کا اثر میرے کاروبار پر پڑ رہا تھا۔ پھر میری بیٹی نے مجھے پے ٹی ایم اور نیٹ بینکنگ کے بارے میں بتایا اور اس کا استعمال کرنابھی سکھایا۔ جس کے بعد اب مجھے کاروباری لین دین میں بہت اسانی ہوتی ہے۔ اس سے پہلے مجھے اس کام کے لئے گھر کے مردوں پر منحصر ہونا پڑتا تھا۔ لیکن اب میں سب مالی حساب خود سمبھال لیتی ہوں۔‘‘ ان کا کہنا ہے کہ بیشک ڈیجیٹل دنیا انکے بہت سے مسائل کا حل بن کر آیاہے۔ ڈیجیٹل غلبہ نے سماجی اور سیاسی مسائل پر خواتین کی آواز کو بلند کیا ہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارم وکالت کے لیے ایک پلیٹ فارم مہیا کرتا ہے، خواتین کو تجربات کا اشتراک کرنے، بیداری پیدا کرنے اور صنفی مساوات کے لیے حمایت کو متحرک کرنے کے قابل بناتا ہے۔

اس کی مثال 18سال کی سحریش ہے۔ گریجویشن کے پہلے سال کی طالبہ سحریش پونچھ کے قصبہ گاؤں کی رہنے والی ہے۔ جس نے دیش اوردینا تک اپنا ہنر پہنچانے کے لئے سوشل میڈیا کو ذریعہ بنایا۔اس نے سوشل میڈیا پراپنا آرٹ اور پینٹنگ کا ہنر دکھانے کے لیے جوائن کیا۔دوردراز علاقع سے ہونے کی وجہ سے اس کے پاس سوشل میڈیا ایک واحد ذریعہ بچا تھا جہاں وہ اپنا ہنر لوگوں تک پہنچا سکتی تھی۔ اس میں وہ کامیاب بھی رہی۔آج وہ اس پلیٹ فارم کے ذریعے اپنی ایک منفردپہچان بنا رہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر روزمرہ کے مسائل پر اپنی آواز بلند کرنے میں بھی سرگرم رہتی ہے۔ سحریش کہتی ہے کہ ’’سوشل میڈیا کے ذریعے میں صرف اپنا ہنر ہی نہیں بلکہ اپنے ارد گرد ہزاروں لوگوں کی آواز بھی بننا چاہتی ہوں۔‘‘سوشل میڈیا پر ہنر دکھانے کا خیال کیسے آیا ؟ اس سوال کے جواب میں وہ کہتی ہے کہ’’ میں نے لوگوں کو یوٹیوب پر ایسا کرتے دیکھا تو خیال آیا کہ جب وہ کر سکتے ہیں تو میں بھی اس ڈیجیٹل پلیٹ فارم کا استعمال کیوں نہیںکر سکتی ہوں؟ ڈیجیٹل ترقی نے ملک کے دوردراز دیہی علاقوں میں ہم جیسی نوعمر لڑکیوں کے لئے مواقع کے دروازے کھول دیے ہیں۔اب ہمارے لئے تمام رکاوٹوں کو عبور کرنا آسان ہو گیا ہے۔‘‘

بہر حال، یہ تمام لڑکیاں سماجی اور مالی طور پر معذور معاشرے میں رہنے کے باوجود کئی طریقوں سے اپنی جدوجہد کا مقابلہ کررہی ہیں۔ اس کے باوجودانہیں جن رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا، انہوں نے اس سے بخوبی مقابلہ کیا اور آج ان لڑکیوں کے لئے کامیابی کی مثال بن گئی ہیںجو یہ سوچتی ہیں کہ ملک کے دوردراز حصہ میں رہنے کی وجہ سے انہیں موقع نہیں مل سکا۔انہوں نے تعلیم اور روزگار کے مواقع کو تبدیل کرنے سے لے کر انٹرپرینیورشپ اور سماجی بااختیار بننے تک، ڈیجیٹل ترقی کوایک جامع اور مساوی دنیا کی تشکیل میں اہم رول ادا کیا ہے۔ اگرچہ ان کے سامنے چیلنجز برقرار ہیں، لیکن پھر بھی زندگی کے مختلف پہلوؤں میں ٹیکنالوجی کا مسلسل انضمام مزید ترقی کے لیے ان کے سامنے امید افزا راستے فراہم کرتا ہے۔ اس وقت ڈیجیٹل تقسیم کو ختم کرنے والے اقدامات کو ترجیح دینا بہت ضروری ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ ڈیجیٹل غلبہ کے فوائد سب کے لیے قابل رسائی ہیں۔ یہ مضمون سنجوئے گھوش میڈیا ایوارڈ 2023کے تحت لکھا گیا ہے۔(چرخہ فیچرس)

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا