ڈاکٹر مظفر حنفی کے تبصرے

0
0

 

 

 

 

 

جاوید اختر

مظفر حنفی کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ وہ اردو کے ایک باکمال شاعر، محقق، ناقد، افسانہ نگار، مترجم اور مرتب ہیں۔ ان کی شخصیت ہشت پہلو صفات کی حامل ہے۔ ان کا تخلیقی سفر افسانہ نگاری سے شروع ہوا لیکن بعد میں انہوں نے افسانہ نگاری ترک کردی۔ صرف آٹھ دس سال افسانہ نگاری کے میدان میں رہے لیکن اتنے کم وقت میں انہوں نے ممتاز افسانہ نگاروں کی صف میں اپنی جگہ بنالی۔ افسانہ نگاری چھوڑنے کے بعد انہوں نے شعر و شاعری سے اپنا رشتہ جوڑ لیا۔ ان کی شاعری صرف ان کی ذات تک محدود نہیں رہی بلکہ وہ اپنی ذات سے اجتماعی شعور کی سطح پر پہنچ گئی۔ شاعری میں غزل ان کی پہلی پسند رہی لیکن انہوں نے نظمیں بھی خوب لکھیں۔ غزلوں اور نظموں کے علاوہ رباعیات، مراثی، قصیدے، حمد، نعت، سلام اور سہرے وغیرہ بھی لکھے۔ جنہیں ناقد ین ادب نے خوب خوب سراہا۔
افسانہ نگاری اور شاعری کے بعد مظفر حنفی نے تحقیق و تنقید کی طرف رجوع کیا اور اس صنف میں بھی انہوں نے بلند و بالا مقام حاصل کرلیا۔ ادب اطفال پر بھی انہوں نے خاص توجہ دی اور بچوں کی عمر اور ان کی ذہنی استعداد کے مطابق سادہ اور سلیس زبان میں بچوں کے لیے بہت سی کہانیاں اور نظمیں لکھیں۔ ان کے علاوہ انہوں نے کئی جلدوں میں وضاحتی کتابیں لکھیں۔ بہت سی کتابوں کے ترجمے کئے، کئی کتابیں ترتیب دیں، بہت سے تبصرے لکھے، خطوط نگاری میں اپنا نام روشن کیا۔ کئی مونو گراف لکھے اور اپنا ایک ایسا سفر نامہ لکھا جنہیں قاری نے ہاتھوں ہاتھ لیا۔
ڈاکٹر مظفر حنفی تبصرے کے لئے بھی اردو ادب میں جانے پہچانے جاتے ہیں۔ انہوں نے شعری مجموعوں پر سب سے زیادہ تبصرے کئے ہیں۔ شاعری کے علاوہ انہوں نے جن موضوعات کی کتابوں پر تبصرے لکھے ہیں ان میں تحقیق و تنقید ، ترتیب و تدوین، افسانہ، ڈراما، مکاتیب، طنز و مزاح، سفر نامہ اور ناول وغیرہ شامل ہیں۔ خاص خاص کتاب جن پر انہوں نے تبصرے کئے وہ اس طرح ہیں:
اقبالیات کی تلاش میں پروفیسر عبدالقوی دسنوی
نشان منزل پروفیسر جگن ناتھ آزاد
نئی غزل کے منفی رجحانات علی احمد جلیلی
نثر اور انداز نثر ڈاکٹر حامد حسین
طنز و مزاح کا تنقیدی جائزہ خواجہ عبدالغفور
اردو شاعری میں اشاریت ڈاکٹر سلیمان اطہر جاوید
ادب کی پرکھ ڈاکٹر نریش
شرار جستجو قیصر ضحی عالم
ظرافت اور تنقید احمد جمال پاشا
معنویت کی تلاش پروفیسر عنوان چشتی
شخص وعکس حمایت علی شاعر
محمد اقبال پروفیسر جگن ناتھ آزاد
نیلاآکاش احتشام اختر
شعر شگفت کرشن کمار طور
خود کلامی اظہر عنایتی
حدیث خواب عبدالعزیز خالد
حرف مسبب رشمی کانت راہی
دربدر پروین کمار اشک
شرار نغمہ گوپال متل
ساتواں آنگن صالحہ عابد حسین
ویٹنگ روم ایس ایم حیات
آنگن(مع مقدمہ) خدیجہ مستور
رنگ بہاراں شمس قدر
آزادی چمن نہل/مترجم شجاع الدین صدیقی
پنجرے کے پنچھی مالک ٹالہ
تیسری دنیا کے لوگ ابن کنول
دشنامے چند ناوک حمزہ پوری
چند ادبی شخصیتیں شاہد احمد دہلوی
بالکلیات یوسف ناظم
غالب کے خطو ط ڈاکٹر خلیق انجم
رنگا رنگ محبوب راہی
اندرا گاندھی کی کہانی شمیم حنفی
تاریخ کے آنچل میں رفعت سروش
ان کتابوں کے نام سے ظاہر ہوجاتا ہے کہ انہوں نے ہر موضوعات پر لکھی ہوئی کتابوں پر بے لاگ اور دو ٹوک تبصرے کئے ہیں۔ انہوں نے دور حاضر کی مروجہ روش کی پیروی نہیں کی۔ ان کے تبصرے پوری طرح غیر جانبدار ہیں۔ ان کے یہاں معروف اور غیر معروف کا فرق نہیں ہے۔ وہ فنکار کو نہیں فن کو دیکھتے ہیں۔ جس کتاب کی خوبی انہیں نظر آگئی اسے کھلے دل سے سراہا۔ جہاں کمی نظر آئی اس کی نشاندہی کردی۔ محبوب راہی نے ان کی تبصرہ نگاری پر اپنا خیال ظاہر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ :
’’مظفر حنفی تبصرے لکھتے وقت بہر صورت اپنی اصابت رائے کی پگڑی سنبھالے رکھتے ہیں۔ تعلقات یا بے تعلقی کی بنیاد پر ان کے کسی تبصرے میں جانبداری یا بے انصافی کی جھلک نظر نہیں آتی۔ صاف گوئی اور بیباکی جو مظفر حنفی کے مزاج کا بنیادی عنصر ہے ، انہیں کسی بڑے نام سے مرعوب نہیں ہوتے دیتا۔ ‘‘
ظ۔انصاری ، وارث علوی، وزیر آغا، اور عبدالعزیز خالد جیسے بلند قامت فنکاروں کی کتابوں پر ان کے تبصرے اس بات کے ثبوت میں پیش کیے جاسکتے ہیں۔ ان تبصروں میں جہاں متعلقہ فنکاروں کی خامیوں پر جرأت مندی کے ساتھ انگشت نمائی کی گئی ہے وہیں ان کی خوبیوں کو اجاگر کرنے میں بھی بخل نہیں برتا گیا ہے۔ مثلاً ظ۔انصاری کے تبصروں کے انتخاب ، کتاب شناسی پر تبصرے کرتے ہوئے مظفر حنفی لکھتے ہیں:
’’علمی نثر میں غالبؔ، ہر دو آزاد (محمد حسین ، اور ابوالکلام) اور آل احمد سرور کے بعد منفرد لہجہ ظؔ۔ انصاری ہی کو نصیب ہوسکا ہے۔ شاید لہجے کی یہ انفرادیت، انانیت پسندوں کے ہی حصے میں آتی ہے خواہ وہ غالبؔ، یگانہؔ اور شادؔ عارفی جیسے شاعر ہوں یا ابوالکلام آزاد اور ظؔ۔ انصاری جیسے نثر نگار۔۔۔۔بعض مقامات پر ان تبصروں میں ذاتی تعلقات بھی منفی یا مثبت صورتوں میں سر ابھارتے نظر آتے ہیں۔ مثلاً بیان میرٹھی، شعر اقبالؔ، اور نیازؔ فتحپوری ، جیسی کتابوں پر یکسر توصیفی ریمارکس ہیں۔ ‘‘
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ مظفر حنفی نے کہیں کہیں اپنے تبصروں میں جابرانہ شکل اختیار کی ہے۔ یہ پوری طرح درست نہیں ہے۔ انہوں نے جیسا دیکھا ویسا کیا۔ بڑے چھوٹے کا امتیاز نہ کرتے ہوئے انہوں نے تبصرے لکھے ہیں۔ ان ہی کے الفاظ میں:
’’ایسے موضوعات پر جزوی مضامین لکھنا ہی مشکل ہوتا ہے ، کئی صدیوں کے ادب کا جائزہ لے کر منطقی دلائل اور معقول مثالیں پیش کرتے ہوئے خاطر خواہ نتائج برآمد کرنا ، جوئے شیر لانے سے کم نہیں، اس کے لیے عمر بھر کے ریاض، جوگیوں کے سے ضبط، محقق کی سی کھوج ، وسیع ترین مطالعہ، گہرا مشاہدہ اور رطب و یاس کی چھان پھٹک کا مادہ درکار ہوتا ہے۔ ‘‘
مظفر حنفی کے تبصروں کے مطالعہ کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے تبصرے بے لاگ اور دو ٹوک ہوتے ہیں۔ تعلقات یا بے تعلقی کی بنیاد پر ان کے کسی تبصرے میں جانبداری نظر نہیں آتی۔ صاف گوئی اور بیباکی ان کے دل و دماغ میں رچی بسی ہے۔ اس لئے وہ بڑے سے بڑے نام کے آگے مرعوب نہیںہوتے۔ یہی وجہ ہے کہ بلند و بالا مقام حاصل کرلینے والے فنکاروں پر بھی ان کے تبصرے ان کی خوبیوں اور خامیوں دونوں کو اجاگر کرتے ہیں۔
’’اقبال اور مخدوم ان کے میدانِ تخصیص میں ہیںچنانچہ اس کتاب میں بھی اقبال سے متعلق چار اور مخدوم کے تعلق سے ایک مضمون شامل ہے۔ جو اپنی جگہ قول فیصل کی سی حیثیت رکھتے ہیں۔ بقیہ مقالات میں ’’جواہر لال نہرو کا ادبی مرتبہ‘‘ فرحت کی رامائن ، امرسنگھ منصور اور ’’رام لعل کا فن‘‘ ان شخصیتوں کے کچھ ایسے ادبی اوصاف کو روشنی میں لاتے ہیں جن کی طرف عام لکھنے والوں کی نگاہ کم جاتی ہے۔‘‘
متذکرہ باتوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ مظفر حنفی کے لکھے ہوئے تبصرے جو مختلف رسائل و جرائد میں بکھرے ہوئے ہیں، بے حد اہم اور کارآمد ہیں۔ نمونے کے طور پر ان کا ایک مختصر سا تبصرہ پیش کیا جارہا ہے تاکہ ان کے تبصروں کی اہمیت وافادیت کا اندازہ لگایا جاسکے ۔ ساتھ ہی تبصرے میں استعمال ہونے والی زبان سے بھی واقفیت ہوسکے:
’’نئی غزل کے منفی رجحانات:مصنف: علی احمد جلیلی
پتہ: حسامی بک ڈپو، چار کمان، حیدر آباد
قیمت: پندرہ روپے
علی احمد جلیلی مشہور استاد فن فصاحت جنگ جلیل مانک پوری کے صاحب زادے ہیں اور ندامت خود ایک اچھے اور معروف شاعر ہیں۔ موصوف کا کلام تغزل کی چاشنی اور زبان کی صفائی کا مجموعہ کے ساتھ عصری حیثیت سے بھی مملو ہوتا ہے۔ پیش نظر کتاب ان کا شعری مجموعہ نہیں بلکہ تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے جیسا کہ اس ’’مجموعہ مضامین کے نام‘‘، ’’نئی غزل کے منفی رجحانات‘‘ سے ظاہر ہے اس کتاب میں علی احمد جلیلی کے وہ مقالات شریک اشاعت ہیں جن میں انہوں نے نئی غزل کی خامیوں اور کمزور پہلوئوں کی نشان دہی کی ہے۔ نئی نسل کے کچھ غزل گویوں نے زبان کی توڑ پھوڑ اور تجربے کے نام پر فنی اقدار سے کھلواڑ کا رویہ اختیار کیا ہے اس کی مذمت کرتے ہوئے راقم الحروف نے ایک شعر میں بہت پہلے کہا تھا:
خیر سے تجربے وہ بھی کرنے لگے
جن کا پہلا قدم فن کی ابجد پہ ہے
دراصل تجربے اور اجتہاد کا حق کسی فن کار کو طویل ریاض سخن اور استناد کے مرتبے پر فائز ہوجانے کے بعد ہی حاصل ہوتا ہے لیکن موجودہ زمانے کے سہل پسند لوگوں نے اسے اپنی لاعلمی اور عدم صلاحیت کو چھپانے کا وسیلہ بنالیا ہے۔ کتاب کے ابتدائی تین مضامین میں مقالہ نگار نے اسی روش کو ہدف ملامت بنایا ہے اور نئے شعرا کے کمزور اشعار کے حوالوں سے زبان پر ان کی گرفت اس کی لطافتوں اور نزاکتوں سے انحراف ٹکسالی محاورے کی خلاف ورزی ، الفاظ کے انتخاب میں بدسلیقگی، انگریزی لفظوں کے غیر فن کارانہ استعمال اور ہندی کے بے جوڑ الفاظ اور ان کے بھونڈے برتائو پر صدائے احتجاج بلند کی ہے۔ نئی غزل میں ابہام پسندی اور علامت نگاری کی آڑ میں جو اہمال اور بے معنویت در آئی ہے ۔ جلیل صاحب نے اس پر بھی نئی نسل کو ٹوکا ہے۔ میں ان کے بیشتر خیالات سے متفق ہوں۔ البتہ اگر ایسے مضامین میں مثالیں صرف مستند اور معتبر شعرا کے کلام سے پیش کی جائیں تو دلیل زیادہ مضبوط ہوجاتی ہے۔ علاوہ ازیں نئی غزل میں سب کچھ تو خام اور قابل اعتراض نہیں ہے۔ ورنہ خود مضمون نگار اپنی غزلوں میں جدید رنگ و آہنگ کی شمولیت سے پرہیز کرتے۔ انہوں نے ایک آدھ جگہ دبے لفظوں میں چند خوبیوں کا ذکر بھی کیا ہے۔ اگر ان صحت مند اور خوبصورت پہلوئوں پر مثالوں کے ساتھ کچھ صفحات کا کتاب میں اضافہ کردیا ہوتا تو ا س کی افادیت اور توازن کئی گنا بڑھ سکتی تھی۔ کتاب کے آخری مضمون ’’آزاد غزل ۔ مکمل جائزہ‘‘ کی اس مجموعے میں شمولیت کا کوئی جواز نہ تھا کہ آزاد غزل کو معتبر جدید شاعروں میں سے کسی نے بھی تسلیم نہیں کیا ہے۔ (مظفر حنفی )
اس طرح مظفر حنفی نے تبصرہ نگاری میں بھی اپنی پہچان مستحکم کرلی ہے۔ تبصرہ نگاری کے لیے بھی وہ یاد کئے جاتے رہیں گے۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا