’’ چہرے بدلنے سے نہیں نظام بدلنے سے ہمارا ملک ہندوستان تر قی کر ے گا ‘‘

0
0

 

 

قیصر محمود عراقی

ایک سجن بنارس پہنچے ، ٹیشن پر اُترے ہی تھے کہ ایک لڑکا دوڑتا ہوا آیا ۔ ماما جی، ماما جی کہتے ہو ئے پائوں چھوا ، تم کون ؟ ماما جی آپ نے نہیں پہچانا ،میں منا ہو ں ، ماما جی سوچنے لگے ، کیا ماما بھول گئے ؟ خیر اتنے سال بھی تو ہو گئے ، ماما جی بولے تم یہاں کیسے ؟ آج کل یہیں ہوں ، پھر ماما جی اپنے بھانجے کے ساتھ بنارس گھومنے لگے ، کبھی اس مندر کبھی اس مندر ، گھومتے گھونتے وہ پہنچے گنگا گھاٹ ، اب ماما جی بنارس آئیں اور نہ نہائیں، یہ کیسے ہو سکتا ہے ، ماما جی نے گنگا میں ڈبکیاں لگائیں ، پھر کچھ دیر بعد باہر آئے تو منا کو آواز دی ، منا، منا ، مگر منا کہیں نظر نہ آیا اور ساتھ ہی سامان اور کپڑے غائب تھے ۔ ماما جی نے چیخ چیخ کر آواز یں لگائیں مگر منا وہاں ہو تو ملے ، ماما جی تو لیہ لپٹ کر کھڑے رہے اور لوگوں سے پوچھنے لگے ، کیوں بھائی صاحب کیا آپ نے منا کو دیکھا ہے ، کون منا ، الغرض ماماجی تو لیہ لپٹ کر یہاں سے وہاں دوڑتے رہے مگر منا کا کچھ پتہ نہیں چلا ۔
ہمارے ملک میں بھی جب الیکشن کا موسم آتاہے تو اسی طرح ہمارے نمائندے آکر کہتے ہیں آپ نے مجھے نہیں پہچانا ، میں آپ کے حلقے کا امیدوار ہوں اور پھر ووٹر کے قدموں میں گر جا تا ہے ، مجھے آپ نے نہیں پہچانا میں آپ کا ہو نے والا ایم۔پی ، ایم ۔ایل۔ اے ہوں ، یا وارڈ کمشنر ہوں ، آپ بھی اس کی باتوں میںآکر ماما جی کی طرح گنگا میں ڈبکیاں لگا رہے ہو تے ہیں ۔ لیکن جب باہر آتے ہیں تو کیا دیکھتے ہیں ۔ وہ شخص جو کل تک آپ کے قدموں میں گرا ہو تھا آپ کے ووٹ لے کر غائب ہو جا تا ہے ، بلکہ آپ کے ووٹوں کی پوری پیٹی لیکر بھاگ گیا اور آپ پریشانیوں کے گھاٹ پر تو لیہ لپیٹے کھڑے ہیں اور ہر آنے جا نے والوں سے پوچھ رہے ہیں کیا آپ نے اسے دیکھا ہے کس کو ؟ وہ جس کے ہم ووٹرہیں ، وہ جس کے ہم ماما ہیں۔ اسی طرح ہم پانچ سال تو لیہ لپیٹ کر گذار لیتے ہیں ۔ یہ کہانی تھی ایک کالم نویس کی جو کہ انہوں نے آج سے پچیس سال پہلے لکھی تھی ۔ آج ہم اسی دور سے گذر رہے ہیں ، الیکشن کے موسم میں سیاسی نمائندے آتے ہیں ، ہمارے قدموں میں گر جا تے ہیں ، ووٹ لیتے ہیں اور پھر غائب ہو جا تے ہیں ۔ پانچ سال تک ہم ان کے پیچھے پیچھے ہو تے ہیں اور وہ آگے آگے ہو تے ہیں ْ، ان سے کوئی کام لینا تو دور کی بات وہ اپنے ووٹر سے ملنا تک پسند نہیں کر تے ، وہ لوگ اپنی جائدادوں اور اپنے بچوں کی جائیدادوں میں اضافہ کر نے کے لئے دن رات ایک کر تے ہیں ، انہیں اس وقت نہ ملک کی فکر ہو تی ہے اور نہ ہی اپنے ووٹر کی کیونکہ ان پانچ سالوں میں انہیں اتنا پیسہ بنانا ہو تا ہے کہ باقی ماندہ زندگی عیش و آرام سے اپنے بچوں کے ساتھ کسی دوسرے ملک میں گذار سکیں ، صرف اس کے ووٹر کو ہی اسی ملک میں رہ جا نا ہے ۔
بی جے پی کو اقتدار میں آئے ہو ئے دس سال پورے ہو گئے اس کے باوجود بھی اس ملک میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ، اس دوران نہ تو غریب عوام کے لئے اسپتال بن سکا اور نہ ہی تعلیم کی طرف کوئی توجہہ دی گئی ۔ ترقیاتی کاموں کے بجائے الٹا ملک میں ہندو مسلم کی ہّوا کھڑا کر کے اور مندر مسجد کا راگ الاپ کے پھر سے الیکشن کی تیاروں میں سرگرم عمل ہیں ۔ ان سیاسی رہنمائوں میں شرم و حیا نام کی کوئی چیز ہے ہی نہیں ، ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے کے بعد پھر عوام کے سامنے ووٹ کا کشکول لئے گھڑے ہیں اور ہندوستانی عوام ان سیاست دانوں سے بھی زیادہ ڈھیٹ اور ان بھکت ہیں جو انہی آزمائے ہو ئے لٹیروں کو پھر سے اسمبلی میں بٹھاتے ہیں ۔ اصل بات یہ ہے کہ جیسی عوام ہو گی اس پر ویسے ہی حکمراں مسلط ہو نگے ، اس لئے عوام نے سیاسی بیداری پیدا کر نے کے لئے چند مخلص رہنمائوں کو چاہیئے کہ وہ عوام میں ایک بڑی کیمپین شروع کریں تا کہ دوبارہ عوام ان لٹیروں کو منتخب نہ کریں ، امید کی جا تی ہے کہ اگر اس الیکشن میں عوام نے بھر پور حصہ لیا تو ملک میں انشا اللہ ضرور کوئی سیاسی تبدیلی آئیگی ورنہ اگر پھر سے وہی لٹیرے آئے تو یہ ملک تباہ ہو جا ئے گا اور عوام بھی بر بادی کے دہانے پر ہو گی ، پھر وہی سیاست داں عوام کو اپنی باتوں میں پھسلا کر اپنا الّو سیدھا کر تے رہنگے ، پھر وہی پرانے چہرے دوسری پارٹیوں میں جا کر ہم پر مسلط ہو نگے ۔
قارئین کرام ! ہمیں غور کر نا ہو گا کہ کیا ہم بیدار عوام ہیں ؟ کیا ہم کوئی بیہنگم ہجوم ہیں ؟ کیا ہم منتشر اذہان والے لوگ ہیں ؟ کیا ہم اپنی دھرتی کے وفادار ہیں ؟ کیا ہم دوسروں کے نعروں پر گذارہ کر نے والے ہیں ؟ کیا ہمیں اپنے نفع نقصان کا احساس ہے ؟ کیا ہم زندوں میں شمار ہیں یا مردوں میں ، آخر ہم ہیں کیا ؟ کیا ہمارا شمار زندوں میں ہے یا پھر چلتی پھر تی لاشوں میں ؟ کیا ہم نے اپنے وسائل کے حوالے سے ماضی میں کوئی خاطر خواہ جدوجہد کی ؟ اگر جواب ہاں میں ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اگر ہم عوام اپنی دھرتی ماں کے وفادار ہو تے تو آج ہماری یہ حالت نہ ہو تی ۔ ہم نے سر اٹھانا سیکھا ہی نہیں بلکہ جن جن کی ہم اب تک بیعت کر تے آئے ہیں انہوں نے فقط بیگانہ شادی میں عبداللہ دیوانہ کی طرح نعرہ بازی لگا دیا ۔ کس کس کو اور آخر کب تک آزماتے رہینگے یہ روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ جب تک ہندوستان کے عوام موجودہ حکمراں کے چنگل میں رہینگے کبھی بھی ایک باوقار عوام کی صف میں شامل نہیں ہو سکتے ۔ لہذا اب بھی وقت ہے ہوش کے ناخون میں ، اپنی نسلوں کی بقا ، نسلوں کی مستقبل اور ایک درخشاں روشن مستقبل کے لئے عوامی دائرے میں آنا ہمارے لئے اشد ضروری ہے ۔ یاد رکھیں ! چہرے بدلنے سے نہیں نظام بدلنے سے ہمارا ملک ہندوستان ترقی کریگا ، دشمن میں اتنی ہمت نہیں کہ ہماری طرف میلی آنکھ اٹھا کر دیکھ سکے ، مگر کیا کریں ہمارے اندر لگا دیمک ہمیں چاٹ رہا ہے ، اس لئے ہمیں اپنی ووٹ کی طاقت سے آنے والی نسل کو تباہ و بر بادی سے بچانا ہے ۔ اس وقت ملک کو مشکل حالات سے کون سا لیڈر نکال سکتا ہے ؟ یہ سب ذہن میں رکھ کر اپنا ووٹ کاسٹ کریں ، موجودہ حکمراں کی دس سالہ تجر بات اور تلخ حقائق کے باوجود خدا نخواستہ پھر سے اسی سیاسی مداریوں کے چنگل میں پھنس گئے تو جان لیں ، یاد رکھیںکہیں کہ نہیں رہینگے اور آنے والی نسلیں کوستی رہینگی ۔ اس لئے اس بار ایسے امیدواروں کو الیکشن میں کھڑے ہی نہ ہو نے دیں ۔ کیونکہ انہوں نے ہمیشہ عوام کو گمراہ کیا ہے ، اگر عوام نے پھر ایسے ہی لوگوں کو ووٹ دیا تو اگلے پانچ سال تک پھر گنگا گھاٹ کنارے تولیہ لپیٹ کے منا کو ڈھونڈتے رہینگے اور ان لٹیروںسے بعید نہیں کہ وہ عوام سے تو لیہ بھی چھین کر بھاگ جا ئیں ۔
کریگ اسٹریٹ ، کمرہٹی ، کولکاتا ۔۵۸
Mob: 6291697668

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا