چھوت چھات ….

0
0
 ڈاکٹر فہمیدہ جمیل
تلنگانہ، بھارت.
  یوسف اپنے نام کی طرح ایک خوب صورت لڑکا ہےوہ جماعت ششم میں زیر تعلیم ہے ، چونکہ سرکاری فوقانیہ مدرسہ میں جماعت ششم ہی بنیادی جماعت ہوتی ہے اس لۓ سارے طلباء اسکول میں نئے داخلہ لیتے  ہیں . اس طرح سےجماعت میں مختلف تحتانوی مدارس سے آنے والے طلباء وطالبات جمع ہوجاتے ہیں .
سب ایک دوسرے سے اپنی طرف سے دوستی کا ہاتھ آگے بڑھاتے ہیں اور بہت جلد گھل مل جاتے ہیں ..
لیکن یوسف سے کسی نے دوستی نہیں کی حالانکہ وہ دیکھنے میں خوب صورت اور صاف ستھرا رکھ رکھاؤ  والا لڑکا تھا ـ ہاں کبھی کبھار یونس اس سےبات کرلیتا ، ہوم ورک کی کاپیاں جمع کی جاتی تو کوئی یوسف کے ہاتھ سے نوٹس نہیں لیتا اور اپنی کاپیوں میں ملنے بھی نہیں دیتا، بے چارہ اپنی ہوم ورک نوٹس الگ رکھ دیتا
اس بات کو ٹیچر غور فرماتے ، لیکن ذہن میں یہی خیال آتا کے بچے آپس میں ناراض ہیں شاید اسی لۓ یہ کاپی الگ رکھی گئی یا ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ یوسف نے آخر میں نوٹس دی ہوگی .
جب دوپہر کے کھانے کی گھنٹی بجتی تو سارے لڑکیاں ایک طرف اور سارے لڑکے ایک طرف دستر بچھا کر بیٹھ جاتے اور یوسف اکیلا اپنی برتن لے کر بیٹھ جاتا ، یہ سلسلہ کافی دنوں سے چلتا رہا آخر کارایک دن ٹیچر نے اس بات کو اپنی نظر میں لایا اور یوسف کو بلواکر پوچها کہ ” یوسف آپ سب سے الگ تھلگ کیوں رہتے ہو؟ ” . ” کسی نے کچھ کہا ہے کیا آپ کو ؟ ” یا آپ نے کسی کو کچھ کہہ دیا؟ ” ـ یوسف خاموش کھڑا رہا ، کوئی جواب نہ دیا … ” جواب دو یوسف ! ” جی !  ” ایسی کوئی بات نہیں میم ” يوسف نے سنجیدگی سے کہا .. ” ٹھیک ہے آپ جاسکتے ہو ” ٹیچر نے اگلا سوال کرنا مناسب نہیں سمجھا ..
اگلے دن بھی یوسف کے ساتھ سارے بچوں نے یہی رویہ اختیار کر رکھا تھا . آخرکار یونس نے آکر ٹیچر سے ساری بات تفیصل سے بتائی….
میم ! ” یوسف کے والد صاحب لوگوں کے کانوں کی صفائی کا کام  یعنی کا ن کا میل صاف کرتے ہیں ، اسی لئے سب بچوں نے یوسف سے دوری اختیار کی ہوئی ہے ، کیونکہ ان سب کی نظروں میں وہ گنده کام ہے  ” .
اچھا ! ” تو یہ بات ہے ” … شکریہ یونس آپ نے میرے مسلئے کو حل کردیا … آپ جا سکتے ہیں ” .
السلام عليكم ! پیارے بچو ؛ کیسے ہو آپ سب ؟ ..
 "الله کا فضل و کرم ہے کہ ہم سب الحمد الله اچھے ہیں ” فوزیہ ٹیچر نے دوباره خود ہی جواب دے ڈالا ..
ارے ! یوسف آپ اکیلے پیچھے کی بنچ پر کیا کررہے ہو ؟ یہاں سامنے آجاؤ بیٹا …
یوسف اٹھ کر سامنے آگیا لیکن کسی نے اسے اپنے بازو بیٹھنے کی اجازت نہیں دی اب وہ بے چارہ کرے تو کیا کرے؟ فوزیہ میم نے اپنے قریب بیٹھالیا اور ایک کہانی سنائی جسے سن کر سب بچوں کے آنکھوں میں آنسو آگئے.
فوزیہ میم نے کہا  ” اچھا بچو ! آج میں ایک چھوٹی سی کہانی سناتی ہوں سب د هيان سے سنیے گا ،  "ڈاکٹر بهیم راؤجی امبیڈ کر ” کا نام  سنا آپ لوگوں نے؟ اچھا  ! نہیں سنا تو اب سن لیں ، وہ ہمارے آزاد بھارت کے پہلے وزیر قانون ہیں . 14/ اپریل کو انکی يوم پیدائش پر  ” امبیڈ کر جینتی ” منائی جاتی ہے جگہ جگہ انکے مجسمہ کی گلپوشی کی جاتی ہے وہ ایک سیاسی رہنما ، قانون داں ، فلسفی ، انسان دوست ، تاریخ داں ماہر اقتصادیات اور مصلح بدھ مت تھے ـ اتنے نامور شخص کے ساتھ لوگوں نے بہت برا اور بد سلوک کیا . بتاؤ کیوں ؟ کیونکہ وہ ایک کم ذات کے انسان تھے ان کے ساتھ چھو ت چھات کا برتاؤ کرکے انھیں بچپن میں بچےکلاس میں  بازو نہیں بٹھاتے اور پتہ ہےان کی ذات  کے لوگوں کو الگ کنویں کا پانی استعمال کرنا پڑتا تھا کیونکہ ان کا کنواں بھی الگ ہوا کرتا تھا ، اپنے اسکول کے زمانے سے ہی انھیں سخت صدمے کا احساس ہوا کہ ہندوستان میں اچھوت ہونا کتنا ذلت آمیز احساس ہے اور بچو ! چھوت چھات کسے کہتے ہیں ، معلوم ہے ؟ سب بچے خاموش تھے ــ ٹھیک ہے ! میں بتاتی ہوں گنده ، ناپاک ، نجس والا ، جیسے کہ یوسف ہے ، ہے ناں … ساری کلاس کو مانو جیسے سانپ سونگھ گیا ہو ، بالکل  "پن ڈراپ سیلنس ” آپ سب نے یوسف کوگندے ہونے کی وجہ سے بازو نہیں بیٹھنے دیا ہے . کیوں سچ کہا میں نے … یونس نے اٹھ کر اپنی صفائی میں کہنے لگا  ” نہیں میم!  ” یوسف تو ہر روز نہا کر صاف ستھرے لباس میں آتے ہیں ، ان کے ابو لوگوں کے کان کی صفائی کرتے ہیں اس لئے سب یوسف سے دور رہتے ہیں میم …
اچھا تو یہ بات ہے ، آپ سب یہاں علم کی دولت سے سرفراز ہونے آتے ہیں اور علم انسانیت کادرس دیتا ہے ناکہ حیوانیت کا ، ہم ایک سماج میں رہتے تو ہم سب ایک ہیں کسی کو کم نظر سے دیکھنا گناہ ہے اور سماج میں ایک دوسرے کی مدد ہم اپنے ہنر یا پیشے سے ہی تو کر سکتےہیں اگر یوسف کے والد صاحب وہ کام نہ کرتے تو ہمارے کان کے ساتھ ہونے والے تمام مسائل کس طرح دور ہوپاتے اور وہ کام ان کی روزی روٹی ہے. اس طرح کسی کے روز گار اور مجبوری کا ہمیں مذاق نہیں اڑانا چاہیے ، ڈاکٹر امبیڈ کرنے بچپن سے جوانی تک سماج کی صعوبتیں برداشت کیں اور اتنی تعلیم حاصل کی کہ اسی  سماج نے انھیں انکی اعلٰی تعلیم کی بدولت بلند بہت بلند درجہ عطا کیا امبیڈ کرنے سماج کی ایک بہت بڑی لت اور برائی کو جڑ سے نکال پھینکا ، اچھوت کی بنیاد پر انھیں تعلیمی دور اور دور ملازمت میں ناروا سلوک برداشت کرنا پڑا لیکن وہ ہار نہیں مانے اپنی تعلیم اور ملازمت کو بر قرار رکھتے ہوئے سماج سے لڑتے رہے .ڈاکٹر امبیڈکر کی یہ روشن زندگی کی تاریخ بتاتی ہے کہ وہ مطالعہ اور عمل کے آدمی تھے اپنی زندگی کو سادگی سے گزار ا۔ انھیں کئی سماجی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن انھوں نے ساری زندگی پڑھنے اور مطالعہ اور لائبریریوں میں ہی گزاری۔ انہوں نے پرکشش تنخواہوں کے ساتھ اعلیٰ سے اعلٰی عہدوں سے بعض دفعہ انکار بھی کر دیا کیونکہ وہ ہمیشہ پسماندہ طبقے میں اپنے بھائیوں کو کبھی نہیں بھولے۔ انہوں نے اپنی باقی زندگی مساوات، بھائی چارے اور انسانیت کے لیے وقف کر دی۔ انہوں نے پسماندہ یعنی نچلے درجہ کے  طبقات کی بہتری کے لیے اپنی پوری کوشش کی۔ اور سماج کے بے جا اصولوں کو ختم کیا . دیکھا علم  ہمیں کیا درس دیتا ہے  !!! بھائی چارہ ، خلوص محبت اور انسانیت کا درس دیتا ہے چھوت چھات گناہ ہے ، آپ تمام بھی طالب علم ہیں ، علم کی روشنی سے سماج میں پائے جانے والےاندھیروں کو روشنی میں تبدیل کریں ـ  آپ سب کا برتاؤ یوسف کے ساتھ کیساہونا چاہیے سوچیے؟ ؟ ؟ اب میری کہانی ختم ہوئی …
پیارے بچو ! اب آپ بتائیں میں کیا کہنا چاه رہی تھی ؟ ..
سب بچوں نے اٹھ کر یوسف سے معافی مانگی اور ٹیچر نے سب کو اپنے قریب کیا وہ سب بہت خوش تھے .
FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا