چِتائونی

0
0

ایم۔یونس ؔ، کمرہٹی(کولکاتا)

وہ ننھی سی بچی تھی جو اپنے پناہ گزیں کیمپوں کے درمیان اس تنگ جگہ میں کھیل رہی تھی۔ کوئی پانچ سال کی ہوگی، بھولی بھالی خوب صورت سی، اپنے ننھے سے نرم کاندھے کے بائیں شانے پر ایک پیلی سی گڑیا جھلائے ہوئے جس کے ایک پائوں میں لال جوتا تھااور دوسرا پائوں خالی ۔ وہ اپنی گڑیا کے اس عیب سے بے نیاز ہو کر اس کے ساتھ خوشی خوشی لئے چکری کی طرح گھوم رہی تھی۔ ایسا لگتا تھا کسی خوب صورت مصنوعی فواروں کے گھیرے میںسنگ مر مر کی بنی ہوئی کوئی دلکش ڈول اپنی کیل پر رقص کر رہی ہو۔ شاید یہی جگہ اس کے لئے وقتی باغِ جنت تھی۔ اس وقت اس کا وطن لہو کے شعلوں میں جل رہا تھا۔ یہ تھوڑی سی خوشی، اس کی تھوڑی سی زندگی کے لئے کافی تھی۔ وہ دنیا و مافیا سے بے فکراپنے آزاد خیالوں میں گم ہو کر گڑیا کو بار بار بوسہ لے رہی تھی، کبھی وہ اپنی توتلی زبان سے گڑیا کو لوریاں سناتی، کبھی اسے اپنے کاندھے پر رکھ کر ننھے ننھے ہاتھوں سے تھپکی دیتی ، کبھی اس کے ہاتھوں میں اپنے ملک کا قومی جھنڈا پکڑاکر اپنے ہاتھوں سے لہراتی تھی ۔ شاید یہ اسکی قومی آزادی کا سبق تھا۔ وہ اپنے کھیل میں مگن اور مسرور تھی۔
وہ معصوم فلسطینی بچی پھٹی ہوئی بلوجینس پہنی ہوئی تھی۔ اس کے بدن پر کالے رنگ کا سوئٹر تھا جس کے دامن پر نیلی نیلی دھاریاں چاروں طرف سے ایک پتلی لکیر کی طرح بنی ہوئی تھیں ۔ اس کے پائوں میں جوتے تھے۔ چہرہ گول ہونٹوں پر مسکراہٹ، پلکیں نیچی، اپنے کھیل میں بائولا تھی۔ اسے اپنی زندگی کے اگلے پل کی کوئی خبر نہیں تھی۔ نہ جانے کب اس کا ترپال کا بنا ہوا یہ عارضی کیمپ فاسفورس اور خطرناک بموں سے اڑ جائے گا۔
وہ فرشتہ تھی۔ اسے دھماکے اور جنگ سے کیا لینا دینا تھا۔ وہ انسانوں کی دہشت گردی اورخونخواری کو نہیں جانتی تھی۔ اس کا نوزائیدہ ذہن ہر پل ہونے والے دھماکے کو کوئی گڈا کے ہاتھوں سے بجایا ہوا ڈرم(Drum)کی آواز سمجھتا تھا۔ اس کے ماں باپ تو دو ماہ کے زائد عرصہ سے اس جنگ کے دھماکوں اور قتل عام کو دیکھتے دیکھتے عادی ہو چکے تھے ۔ یہ ان کی قسمت کا بہت بڑاا لمیہ تھا۔ اس ملک کے باسی ہوتے ہوئے بھی انہیں حملہ آور صیہونی فوجیں اپنی بندوق کی نال پر ان کے ہی ملک میں ادھرسے اُدھر کھیدر رہی تھیں۔رفیوجیوں کے قافلے کی طرح کوئی پیدل، کوئی گدھے گاڑی پر اپنا مال و اسباب لادے کبھی جنوبی غزہ پٹی تو کبھی شمالی غزہ پٹی کی طرف بھٹک رہے تھے۔ درندگی اور سفاکیت کا گھنا کہرا شاید اس ملک کا مقدر بن چکا تھا۔ اس وحشیانہ اور درندگی کے قتل عام نے بائیس ہزار سے زائد فلسطینیوں کو موت کی آغوش میں سُلا دیا تھا۔ اجتماعی قبروں کی قطاریں دور تک پھیلی ہوئی نظر آرہی تھیں۔ کون ایسا فلسطینی نہیں تھا جس کے گھرپر بم اور گولے نہیں گرے تھے!؟ کس کے گھر کا فرد شہید نہیں ہوا تھا!؟مجاہد ہو، صحافی ہو یا عام شہری ہو ان دھماکوں کی زد میں آکر آن کی آن میں خون کے لتھڑوں میں لپیٹ کر موت کی نیند سو گیا تھا۔ ہر پل ، ہر لمحہ عام شہریوں کے سر پر موت کا سایہ منڈلا رہا تھا۔ وہ سب ہر وقت تو بہ و استغفار پڑھ رہے تھے۔ حد تو یہ تھی کہ جن مائوں کی گودیں سونا نہیں ہوئی تھیں جن کے آنگن میں کھیلتے ہوئے بچے ابتک زندہ تھے۔ ان کے ماں باپ اشک بھری آنکھوں سے ان معصوموں کوہر وقت کلمہ شہادت کی رٹ لگوا رہے تھے تاکہ ان کی روح جسم سے نکلے تو اپنے دین حق کی شہادت دیتے ہوئے نکلے۔ انہیں اس کا غم نہیں تھا کہ اس جنگ کا انجام کیا ہوگا!؟اور نہ دنیا والوں سے انہیں کوئی شکایت تھی۔ وہ جانتے تھے اس دکھ کی گھڑی میں وہ اللہ تعالیٰ کی سخت آزمائشوں سے گزر رہے تھے۔ آج صیہونی دہشت گرد فوجیں اپنے یر غمالیوں کو حماس جنگجوئوں سے آزاد کرانے کے پس پردہ میں ہر غیر انسانی تشدد کے حربوں کو ان معصوم فلسطینیوں پر استعمال کر رہی تھی۔ ارض فلسطین بم و بارود کے دھماکوں سے ہر لمحہ لرز رہی تھی۔ غزہ کی ساری گنجان آبادی کوہ آتش بنی ہوئی تھی۔ اسرائیلی طیارے ’ڈمپ بم‘ گرا رہے تھے۔ جنگی حالات دن بدن برتر ہوتے جا رہے تھے۔ اسلحہ زدہ یہ وحشی فوجیں بیشتر بے گناہ عام شہریوں کو ان کی رہائشی عمارتوں کے ساتھ بم سے اڑا دیتے تھے۔ اپنے یر غمالیوں کا سراغ نہ پاکر یہ جنونی وحشی درندے پاگل ہو چکے تھے۔ اپنی شکستگی اور ہزیمت پر پردہ ڈالنے کے لئے غزہ کے چپے چپے میں کہرام مچائے ہوئے تھے۔شہداء کی لاشوں کو اٹھا کر لے جانا، قبرستانوں میں بلڈ وزر چلا کر قبروں کی بے حرمتی اور تہس نہس کرنا۔وہ اس گری ہوئی حرکتوں سے اپنی ہار ی ہوئی پشیمانی کا ازالہ کرنا چاہتے تھے۔جو ان کے کائر ہونے کا ایک کریہہ و مقہور چہرہ دنیا کی نظروں کے سامنے تھا۔
اب نہ کوئی ہسپتال زندہ تھا اور نہ کوئی مریض اور نہ کسی پناہ گزیں کیمپوں میں بے پناہ فلسطینیوں کی سانسوں کی دھڑکن زندہ تھی۔ دھماکا ہی دھماکا ، شعلہ ہی شعلہ، شہداء ہی شہداء سڑی ہوئی لاشوں کا انبار یہ صیہونی دہشت گرد فوجیوں کے وحشیانہ کارنامے تھے جو چنگیز خاں، ہلاکو، ہٹلر و مسولینی کی آمرانہ و تشدد طاقتوں کو فیل کر دیا تھا۔
اِس آگ اُگلتی ہوئی جنگ کے دھماکوں میں اس معصوم ننھی بچی کے کیمپ کا بھی وہی حشر ہوا جوایک غیر انسانی فعل کا اسفل ترین حصہ تھا۔ اندھا دھند بمباری اور فائرنگ سے یہ عارضی کیمپ نذر آتش ہو کر تباہ و برباد ہو گیا۔ اس معصوم بچی کے چتھڑے اڑ گئے ۔جب یہ بارودی دھماکا تھنڈا ہوا۔دور کہیں راکھ کے ڈھیر پر اس کی گڑیا پڑی ہوئی نظر آئی ۔ اس کا بھی سارا وجود جل چکا تھا مگر اس کی آنکھیں اور پیشانی اب بھی محفوظ تھیں۔ اس گدے کی گڑیا میں اس معصوم بچی کا سراپا وجود زندہ دکھائی دے رہا تھا۔ اس کی آنکھوں سے انگارے برش رہے تھے۔ اس کی پیشانی پر ابھری ہوئی لکیریں پُر عزم حوصلوں سے بھری ہوئی ٹھاٹھیں مار رہی تھیں جواُن قاتل دشمنوں کو ایک نہ ایک دن فنا ہونے کا یقین دلا رہی تھیں۔
md.yunus13march@gmail.com
نمبر:9903651585

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا