شکیلؔ سہسرامی
شاعری فن لطیف ہے اور اس میں دورائے نہیں کہ دنیا کی مختلف زبانوں میں ازروئے تاریخ شاعری کا باضابطہ آغاز مردوں کے قلم سے ہوا، مگر اسی کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اپنی صنفی لطافت و نزاکت کے بموجب شاعری کو نظیف و لطیف حساسیت کی نعمت سے جس طرح شاعرات کے فکروقلم نے نوازاہے، وہ ازبس انہیں کا حصہ ہے۔ اس کا ایک تازہ ثبوت محترمہ شبانہ عشرؔت کا مجموعہ کلام ’’دھند میں لپٹا چاند‘‘ ہے جو اس وقت میرے مطالعہ کی میزپرہے اور دُھندمیں لپٹے ہونے کے باوجود اپنی گوناگوں چاندنی بکھیر رہاہے۔ جہاں تک اس مجموعہ کی شاعری کے معیار کا سوال ہے تو وہ قدرے اطمینان بخش ضرور ہے اور اس سے مجموعی طور پر یہ تاثر ضرور ملتا ہے کہ شاعرہ کا قلم بہرکیف دست ادا سے زیادہ دست حیا میں ہی رہاہے اور انہوںنے محض تانیثی شناخت کے اظہار کی خاطر حسن سیرت کی طلب اور ایمانی و اخلاقی اقدار کا سودا کرنا گوارہ نہیں کیاہے۔ اُنہیں اپنے رب کی رحمت پر بھروسہ ہے اور وہ اس سازشی دنیاکو اپنے ایقان و عزائم سے متنبہ کرنا نہیں بھولتی ہیں۔ شبانہ عشرتؔ کے زیر نظر مجموعے میں گردش ایام کا عکس، کرب حیات اور آج کی نسوانیت دشمن تہذیب کا نقشہ بھی صاف صاف دیکھا جاسکتا ہے۔ شاعرہ کو احساس ہے کہ ’’مری پہچان چھینی جا رہی ہے‘‘ شاعرہ کو اس نئے پیکر میں ڈھلنا اور نفرت کی کھیتی کرنے والوں کا ساتھ دینا گوارہ نہیں ہے، بلکہ وہ وسیع تناظر میں محبت کی طلبگار ہے اور پھر یہ بھی کہ وہ زنانہ طنطنہ کے ساتھ سوال کا حوصلہ بھی رکھتی ہے ۔ اس کے یہاں جذبات کا اظہار بھی ہے، زور بیان بھی اور حریری پردوں میں انفرادی اور اجتماعی یا یوں کہاجائے کہ شخصی اور سماجی دونوں ہی حوالے سے مدعائے زندگی کے پرعزم اشارے بھی ہیں، جو شاعرہ کے فکر و فن کی بابت مستقبل کا حوصلہ افزا پیام دینے سے قاصر نہیں۔مطالعہ کے دوران اس کتاب کی کچھ انفرادیت بھی اچھی لگی پہلی یہ کہ اس کتاب کے ہر صفحہ پر کتاب کا نام اور شاعرہ کا نام طبع نہیں ہے، دوسری یہ ہے کہ اس کتاب میں کہیں شاعرہ کی کوئی تصویر نہیں ہے۔ مزید یہ بھی کہ یہ مجموعہ کسی جزوی تعاون کا رہین منت بھی نہیں بنا ہے۔ یہاں صفحہ ۴۲ کی غزل کے چند اشعار رنگ تغزل کی عمدہ مثال بن کر سامنے آتے ہیں۔ خصوصاً یہ خوبصورت شعر دامن دل کھینچ لیتا ہے ؎
مجھ سے بھی دل کا حال سنایا نہ جاسکا
اور وہ بھی زخم دل کو نمایاں نہ کر سکا
واقعی یہاں جذبات اور محسوسات کی متوازن تقابلی کیفیت کا اظہار جس معصومانہ انداز سے سہل ممتنع کی شان اور نہایت سادگی وروانی کے ساتھ ہوا ہے، وہ اس کی باربار قرأت پر قاری کو متوجہ کرلیتاہے، نیز یہاں اعترافی منظر و پس منظر بھی ایمائی جلوئوں کے ساتھ نمایاں ہے۔عشرت صاحبہ کی غزل کا ایک اور حسین شعربھی ملاحظہ فرمائیں ؎
تڑپنے کی عجب عادت ہے دل کو
سبب کچھ بھی نہیں اس بے کلی کا
درج بالا شعرکے علاوہ شبانہ عشرؔت کے چند اشعار اور چند غزلیںبھی مختلف جہتوںسے یقینا حظ اٹھانے کے قابل ہیں۔ ’’دُھند میں لپٹا چاند‘‘ پر جہاں تک مجموعی تبصرے اور تاثر کے اظہار کا معاملہ ہے، یہ کہنے میں چنداںتامل نہیں ہوسکتاکہ شبانہ عشرؔت کے یہاں محسوسات، تجربات، مشاہدات، جذبات، شعریات، ادبیات نیز واردات ذات و کائنات کی نیرنگیاں جابجا موجود ہیں۔ یہ ان کی اولین کاوش ہے اور یقینا یہ کہنے پر مجبور کررہی ہے کہ اس سے ان کی شناخت کا حال و مستقبل مزید روشن ہوگا اور شاعرات بہار کی بزم میں جب وہ اپنی سخنوری کا نقش ثانی لے کر آئیں گی تو وہ انشاء اللہ نقش اول سے بہتر ہی نہیں بسا بہتر قرارپائے گا۔