پروفیسر ارتضیٰ کریم جدید اردو تنقید کا ایک معتبر نام

0
0

فخرالدین عارفی

پروفیسر ارتضیٰ کریم صاحب کا نام آج اردو تنقید کا ایک بڑا نام بن چکا ہے۔ بلکہ اگر یہ کہوں کہ تنقید کی دنیا میں ایسے ناقدین ادب جو پروفیسر کلیم الدین احمد، پروفیسر اختر اورینوی، پروفیسر عبدالمغنی، پروفیسر وہاب اشرفی، ڈاکٹر قمر آعظم ہاشمی، پروفیسر علیم اللہ حالی اور پروفیسر لطف الرحمان وغیرہ کے بعد بہار کی سرزمین سے ابھر کر تنقید مشرق کے افق پر چمکے ہیں اور جن کی تنقید سے پوری اردو دنیا واقف ہے اور جن کے جادۂ اعتدال اور اردو تنقید کی تشکیل جدید نے بیرون ممالک کے ناقدین ادب کے ساتھ ساتھ ملک کے اندر، پروفیسر گوپی چند نارنگ، ڈاکٹر محمد حسن اور شمس الرحمن فاروقی جیسی عظیم شخصیتوں کو بھی اپنی انتقادی صلاحیتوں سے متاثر کرایا تھا، ان میں ایک اہم اور معتبر نام پروفیسر ارتضیٰ کریم کا بھی ہے، خاص طور پر بہار کے اردو ادب پر جن چند اہم لوگوں نے اپنی توجہ مبذول کی ہے، ان میں پروفیسر اعجاز علی ارشد کے ساتھ ایک اہم نام پروفیسر ارتضیٰ کریم کا بھی لیا جاتا ہے، جو اب اعتبار کا درجہ حاصل کرچکے ہیں۔ بہار کے ادیبوں اور شاعروں کا منظوم تعارف نامہ تحریر کرنے کا کارنامہ پروفیسر عبدالمنان طرزی نے انجام دیا ہے، اس موضوع پر ان کی کتاب ”دیدہ وران بہار ” کو بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے، ان کے علاوہ ڈاکٹر قیام نیّر کی کتاب ”بہار میں اردو افسانہ نگاری ” اور ”بہار میں تخلیقی نثر ” کے علاوہ پروفیسر وہاب اشرفی کی کتاب ”بہار میں اردو افسانہ نگاری ” کو بھی خاص اہمیت حاصل رہی ہے۔ پروفیسر اعجاز علی ارشد کی کتاب بہار کے ادیبوں سے متعلق ”بہار کی بہار ” کے نام سے شائع ہوئی ہے، وہ بھی بہت اہم ہے، یہ کتاب ایک بہترین ریفرنس بک کی حیثیت رکھتی ہے، اس کتاب کی دونوں جلدوں پر میں تفصیلی تبصرہ کرچکا ہوں۔ 1982 ء میں بہار کے ادیبوں اور شاعروں کا مختصر تعارف،سلطان آزاد نے بھی اپنی ایک کتاب ” دبستان عظیم آباد ” میں پیش کیا تھا، اب جب کہ پروفیسر ارتضیٰ کریم صاحب کی بھی دو بہت اہم کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں تو ضرورت اس بات کی ہے کہ اردو کا دانشور طبقہ ان کتابوں سے استفادہ کرے، اس لییء کہ مذکورہ بالا دونوں کتابیں سھیل شناسی کے تعلق سے انتہاء اہم کتابیں ہیں، ساتھ ہی یہ ایسی کتابیں ہیں جو ”دبستان عظیم آباد ” کے گراں قدر اور بیش بہا ادبی اثاثے میں یقیناً ایک اضافے اور سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہیں اور اس سربرآوردہ تخلیق کار کی خدمات کا سیر حاصل احتساب کرنے میں کلیدی حیثیت کی حامل ہیں جن کو اردو فکشن کی دنیا میں بہار کا منشی پریم چند تسلیم کیا جاتا ہے، میری مراد سھیل عظیم آبادی سے ہے، سھیل عظیم آبادی پر حال کے دنوں میں پروفیسر ارتضیٰ کریم کی یہ دونوں کتابیں اپنی ایک منفرد حیثیت رکھتی ہیں اور یہ انتہائی اہم کتابیں ہیں، ان میں سے ایک چند دنوں قبل مجھے پروفیسر ارتضیٰ کریم نے ارسال کی تھی، یہ کتاب سھیل عظیم آبادی کا ایک ناول ” دھوپ چھاؤں ” ہے، جو سھیل عظیم آبادی کی زندگی میں کسی وجہ سے شائع نہ ہوسکا تھا اور ان کی وفات کے بعد برسوں کی تلاش و جستجو اور مشقّت کے نتیجے میں اس ناول کو شائع کرنے میں پروفیسر ارتضیٰ کریم کو کامیابی حاصل ہوسکی ہے۔ ان کی تحقیق و تدوین کے اس جذبے کی ستائش یقیناً ہونی چاہیے، اس لییء کہ اگر یہ ناول زیور طبع سے آراستہ ہوکر منظر عام پر نہ آتا تو اردو دنیا سھیل عظیم آبادی کے اس دوسرے ناول سے محروم رہ جاتی۔۔۔۔ کیا پتہ سھیل عظیم آبادی کے ناول ”بے جڑ کے پودے ” کی طرح یہ ناول بھی ناول نویسی کی تاریخ میں ایک اضافہ ثابت ہو۔۔۔۔ 260 صفحات پر مشتمل سھیل عظیم آبادی کے اس ناول ” دھوپ چھاؤں ” کو ایم۔ آر پبلی کیشنز، نئی دہلی نے شائع کیا ہے۔ اس ناول کا انتساب پروفیسر ارتضیٰ کریم نے پروفیسر اعجاز علی ارشد کے نام کیا ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے ڈاکٹر قاسم خورشید کا ذکر بھی اخلاقی طور پر اس لییء کیا ہے کہ ان کے توسط سے ہی وہ سھیل عظیم آبادی کے چھوٹے صاحبزادے شان الرحمن تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکے تھے اور قاسم خورشید نے سھیل عظیم آبادی کی تحریروں تک پہنچنے میں بھی ان کی بڑی مدد کی تھی۔ اس تعلق سے کتاب کے آخری سرورق پر ڈاکٹر قاسم خورشید کی وضاحتی تحریر کا مطالعہ مزید تفصیل جاننے کے لیے کیا جاسکتا ہے۔
اس ناول کے سلسلے میں اور اس کے سیاق و سباق کے حوالے سے خود پروفیسر ارتضیٰ کریم نے اپنے تحریر کردہ پیش لفظ میں بڑی تفصیل کے ساتھ ساری باتوں کا تذکرہ تقریباّ تیس صفحات میں کیا ہے، جو صفحہ نمبر 9 سے صفحہ نمبر 38 پر محیط ہیں۔ اس ناول کے موضوع اور دیگر احوال و کوائف کا تفصیلی جائزہ میں الگ سے اپنے ایک دوسرے مضمون میں پیش کروں گا۔
پروفیسر ارتضیٰ کریم کی دوسری کتاب ” باقیات سھیل عظیم آبادی ” ہے، جو مجھے آج ہی ڈاک سے ملی ہے۔ اس کتاب کو بھی ایم۔آر۔ پبلی کیشنز، نء دہلی نے شائع کیا ہے۔ یہ کتاب 558 صفحات پر مشتمل ہے، سال اشاعت 2021 ہے اور اس کی قیمت 600 روپے ہے جو بہت کم ہے۔
اس کتاب میں بہت ہی جانفشانی سے کام لیتے ہوئے ڈاکٹر ارتضیٰ کریم نے اہل اردو خاص طور پر اہل بہار کو ایک ایسا قیمتی اور بیش بہا تحفہ پیش کیا ہے، جس کی اہمیت و افادیت سے کوئی بھی شخص انکار نہیں کرسکتا ہے، اگر پروفیسر ارتضیٰ کریم نے یہ کام نہ کیا ہوتا تو سھیل عظیم آبادی کی وہ چیزیں (نگارشات و تخلیقات) منظر عام پر نہ آتیں جو کسی وجہ سے سھیل عظیم آبادی کی زندگی میں شائع نہ ہوسکیں تھیں۔ ”باقیات سھیل عظیم آبادی ” میں سھیل عظیم آبادی کے 8 ریڈیائی فیچر، 5 غیر مطبوعہ ڈرامے، 14 شخصی مضامین، 7 عام موضوعات پر مضامین، 2 اہم غیر ملکی زبان یعنی چینی زبان کی تخلیقات کے ترجموں کے علاوہ ان کی تحریر کردہ بعض انگریزی زبان کی تخلیقات بھی شریک اشاعت ہیں۔ شخصیت پر جو مضامین شامل ہیں ان میں خاص طور پر کرشن چندر، پرویز شاہدی، زکی انور، سیّد احتشام حسین، کیفی اعظمی، اسرار الحق مجاز، نذر امام، ڈاکٹر رادھا کرشنن اور لینن وغیرہ بہت اہم ہیں۔ ان کے عام موضوع پر جو مضامین شریک اشاعت ہیں ان میں، ”بہار میں اردو ” ”پٹنہ ” ”ریڈیاء ڈرامے ” ”بہار کے آدی باسی ” ”فرقہ واریت ختم ہونی چاہییء ” ”میں اور میرا فن ” اور ” میری ڈائری ” وغیرہ انتہائی اہمیت کے حامل ہیں اور اپنے موضوعات کے لحاظ سے بہت اہم ہیں۔
اس کتاب کا پیش لفظ بھی مرتب کی حیثیت سے خود پروفیسر ارتضیٰ کریم نے تحریر کیا ہے۔ جو 19 صفحات یعنی صفحہ نمبر 11 سے صفحہ نمبر 29 پر محیط ہے۔ پروفیسر ارتضیٰ کریم نے اپنے اس پیش لفظ میں پوری تفصیل کے ساتھ تمام باتوں کا ذکر کیا ہے اور اس کتاب کی اشاعت کی غرض و غایت کا اظہار کیا ہے۔
کتاب کے آخری سرورق پر پروفیسر اعجاز علی ارشد نے سھیل عظیم آبادی کے حوالے سے بعض ضروری نکات کی جانب اشارہ کیا ہے۔ ساتھ ہی خاص طور پر انہوں نے اپنے اس مقالے کا ذکر بھی کیا ہے جو رسالہ ”آجکل ” میں شائع ہوا تھا۔ غالباّ یہ وہی مقالہ ہے جو انہوں نے ”حلقۂ ادب بہار ” کے زیر اہتمام منعقد ”یوم سھیل عظیم آبادی ” میں پڑھا تھا، یہ ایک کل ہند سطح کا سمینار تھا، جس میں پڑھے گیء سارے مقالات کو ”آج کل ” نے، ”سھیل عظیم آبادی نمبر ” میں شائع کیا تھا۔ یہ نمبر شائد 1982 ء میں شائع ہوا تھا۔
آخر میں، ایم۔ آر۔ پبلی کیشنز، نء دہلی کا شکریہ ادا کرنا بھی میں اپنا اخلاقی فرض تصور کرتا ہوں، جس نے بہت سلیقے اور قرینے سے بڑی نفاست کے ساتھ دونوں کتابیں شائع کی ہیں، کاغذ عمدہ استعمال کیا گیا ہے اور کمپوزنگ بھی مناسب طریقے سے کرائی گئی ہے، جس کی وجہ سے قارئین کو پڑھنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی ہے، لیکن جلد سازی بہت ناقص ہے۔ ان دونوں کتابوں کی ترتیب و تدوین کے لیے پروفیسر ارتضیٰ کریم کو اپنے دل کی اتھاہ گہرائیوں سے مبارک باد پیش کرتا ہوں کہ ان دونوں کتابوں کی کامیاب ترتیب و تدوین نے ان کے لییء تحقیق کی نء راہیں بھی کھول دی ہیں۔
9234422559

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا