راجا شکیل
ڈوڈہ،جموں
بجلی انسانی زندگی کی ایک اہم بنیادی سہولیات ہے۔جہاں وقت ڈیجیٹل ہوتا جا رہا ہے وہی تمام تر میدانی و پہاڑی علاقہ جات میں بنیادی سہولیات پہنچانے کی کوشش جاری ہے۔لیکن اگرچہ بجلی کے حوالے سے بات کی جائے تو اکثر پہاڑی علاقوں کے لوگ آج بھی بجلی جیسی بنیادی ضرورت سے محروم ہیں۔جس کی وجہ سے انسانی زندگی متاثر ہوتی جا رہی ہیں ہیں۔آج کے ڈیجیٹل دورمیں بھی جموں کشمیر کے ضلع ڈوڈہ کے کچھ پہاڑی علاقہ جات ایسے ہیں جہاں بجلی جیسی بنیادی سہولیات سے لوگ محروم ہیں۔ جبکہ کئی مقامات پر عرصہ دراز پہلے بجلی پہنچائی گئی ہے لیکن ان مقامات پر آج بھی بجلی کی تاریں سرسبز درختوں کے ساتھ اور لکڑی کے کھمبوں کے سہارے لگی ہوئی ہیں۔بجلی کی تاریں سرسبز درختوں کے ساتھ لٹکنے کا مطلب صاف ہے کہ محکمہ ابھی تک ان علاقہ جات میں لوگوں کے مسایل پر سنجیدگی سے غور نہیں کر رہاہے۔ حالانکہ علاقہ کے کئی باشعور لوگوں نے انتظامیہ سے بات کی اور اور اپنی مشکلات کا ازالہ کرانے کی ازحد کوشش کی۔لیکن انہیں اب تک کوئی کامیابی نہیں ملی ہے۔اس سلسلے میں سماجی کارکن عادل نے بات کرتے ہوئے کہا کہ بجلی انسانی زندگی کی بنیادی سہولیات ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی زندگی کے لیے خطرناک بھی ثابت ہوسکتی ہے۔ چناب ویلی میں اب تک کئی مقامات پر بجلی سے مکانات جلنے کی خبریں سامنے آنے کے ساتھ ساتھ انسانی جان جانے کی بھی خبریں سامنے آتی رہی ہیں۔ لیکن اس پر ابھی تک غور نہیں کیا گیا کہ کیوں انسانی جانوں کا نقصان ہوتا جا رہا ہے؟ کئی مقامات پر کروڑوں کی جایدات ختم ہوگی۔انہوں نے کہا کہ ضلع ڈوڈہ کے کچھ پہاڑی علاقہ جات آج بھی بجلی جیسی بنیادی سہولیات کا مکمل فائدہ نہیں اٹھا سکتی۔جبکہ عرصہ دراز سے بجلی کی تاریں سرسبز درختوں کے ساتھ اور کئی مقامات پر لکڑی کے کھمبوں کے ساتھ لگی ہوئی ہے جن سے کبھی بھی جانی یا مالی نقصان پیش آنے کا اندیشہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ تیز آندھی آنے کی وجہ سے یا اچانک آندھی آنے کی وجہ سے یہ تاریں کسی بھی انسانی جان یا کسی بھی جاندار مال کا نقصان کر سکتی ہیں۔اسی لئے سرسبز درختوں کے ساتھ لٹکی ہونے کی وجہ علاقے میں ڈر کا ماحول بنا رہتا ہے۔
اس سلسلے میں بلاک ترقیاتی کونسلر کاہرہ چودھری فاطمہ نے بتایا کہ محکمہ کو چاہیے کہ وہ ان علاقہ جات کا جائزہ لے کر فوری طور پر ایک کمیٹی تشکیل دے جو علاقہ میں لگائے جانے والے پولوں کا اندازہ کر سکے اور آنے والے وقت میں ان کھمبوں اور تاروں کو لوگوں کے لیے فائدہ مند قرار دے۔انتظامیہ کو اس سلسلے میں سوچنا چاہیے اور ان تمام مقامات پر جہاں لکڑی کے کھمبوں اور سرسبز درختوں کے ساتھ تاریں لگی ہوئی ہے ان مقامات پر مضبوط تاروں اور کھمبوں کا بندوبست کیا جانا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ لوگوں کو اس سلسلے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جبکہ کئی مرتبہ مقامی لوگوں نے ضلعی انتظامیہ اور گورنر انتظامیہ کے سامنے بھی اس طرح کی شکایت درج کرائی لیکن ابھی تک کوہی بھی ازالہ نہ ہوسکا۔ فاطمہ نے مزید بات کرتے ہوئے کہا کہ اس ڈیجیٹل دور میں جہاں تیز آندھی آنے کی وجہ سے بجلی کی تاریں زمین بوس ہوتی ہیں وہیں دوسری جانب کبھی بھی اسکولی بچے ان تاروں کی زد میں آکر نقصان کا شکار ہو سکتے ہیں۔ ماصوف نے ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ کئی مقامات پر سکولوں کے اوپر سے تاریں لگی ہوئی ہیں۔ان میں سے کئی تاریں کافی کمزور اور پرانی ہو چکی ہیں جنہیں جلد تبدیل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ آنے والے وقت میں علاقہ کے لوگ کسی بھی نقصان کا شکار نہ ہو سکیں۔اس سلسلے میں سماجی کارکن شہنواز میر نے بتایا کہ چناب ویلی میں آج قدیم زمانے کی طرح لوگ بجلی جیسی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ جن علاقوں میں بجلی کی فراہمی کا بندوبست نہ کیا ہو ان علاقوں میں فوری طور پر بجلی کا کام شروع کیا جانا چاہیے تاکہ آنے والے وقت میں طلباء کو تعلیم حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ بجلی کی مکمل سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے بے روزگاری میں بھی آئے روز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ جس سے لوگوں کو بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
اس سلسلے میں ضلع ترقیاتی کونسلر مہراج ملک نے کہا کہ ہر سال محکمہ کے پاس کروڑوں روپے کی لاگت صرف بجلی کے نظام کی مرمت کے لئے واہگزار ہوتے ہیں۔ ان کروڑوں روپیہ کو زمینی سطح پر لگایا جائے تو یہ پول آسانی سے تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ اگر جموں و کشمیر کے ان مقامات پر فوری طور پر بجلی کے مکمل بحالی نہ کی گئی تو آنے والے وقت میں لوگ احتجاج کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔انہوں نے کہا کہ اگرچہ مقامی لوگ اس طرح کی شکایت کرتے ہیں تو انتظامیہ کو فوری طور پر ان لوگوں کی شکایات درج کر کے ان کا ازالہ کرنا چاہے۔پہاڑی علاقہ کے لوگوں کو بھی اس طرح کی سہولیات سے محروم نہ کیا جائے۔ موصوف نے حالیہ کونسل میں اس بات پر زور دیا کہ محکمہ ابھی تک جن علاقوں میں مکمل بجلی کی فراہمی کا بندوبست نہ کر پایا ان علاقوں میں فوری طور بجلی کا معقول انتظام کیا جانا چاہیے۔بجلی کا نظام بہتر نہ ہونے کے ساتھ ساتھ لوگوں سے اگر چہ کرایا وصول کرنے کی بات کی جاتی ہے تو وہاں بھی سراسر نا انصافی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ادھر منظور احمد نامی ایک غریب شخص نے بات کرتے ہوئے کہا کہ میرے پاس صرف ایک کمرے کا مکان ہے جس میں صرف ایک بلب کا استعمال ہوتا ہے اور ایک بلب کے استعمال کرنے پر مجھ سے ہر سال ہزاروں روپے کا مزید کرایا وصول کیا جاتا ہے۔آخر ایک غریب کے ساتھ اس طرح کا ظلم کیوں؟
اس سلسلے میں جب ہم نے محکمہ کے اے ڈبل ای ٹھاٹھری مہراج سے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ ان مقامات کی فہرست بنائی گئی ہے جہاں ابھی تک بجلی کا معقول انتظام نہیں کیا گیا ہے۔ آنے والے وقت میں علاقہ کے لیے بجلی اور تار سیکشن ہوچکی ہے اور ٹنڈرینگ باقی ہے۔ ان کے علاوہ جب ہم نے محکمہ ڈی ای کشتوار الطاف حسین سے بات کی تو انہوں نے بھی یقین دہانی کرائی کہ آنے والے کچھ ہفتوں میں بجلی کے تار اور جہاں جہاں لکڑی کے کھمبے لگے ہوئے ہیں ان تمام کو تبدیل کر کے لوہے کے کھمبوں کا انتظام کیا جائے گا۔لیکن سوال یہ بھی تو بنتا ہے کہ ٓاخر محکمہ کا عوام کے ساتھ وعدہ وفا ہوگا۔جس کو لے کر انتظامیہ نے کافی کوشش کی اور ٹھیکداروں سے بات بھی کی اور آنے والے وقت میں علاقہ کے لوگوں کو راحت فراہم کرنے کا کام شروع کیا جائے گا۔لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ آزادی کے سات دہائی بعد بھی پہاڑی علاقوں کے لوگ آخر بجلی جیسی بنیادی ضرورت سے محروم کیوں تھے؟(چرخہ فیچرس)