از: انور ظہیر رہبر، برلن جرمنی
آج کل یورپ، امریکہ اور دنیا کے دوسرے علاقوں میں موسم سرما نے اپنا پڑاؤ ڈالنا شروع کردیا ہے۔ جہاں انسان اپنےجسم کو سردی سے بچانے کے لیے اسے گرم کپڑوں سے ڈھانپ رہا ہے وہیں پرندوں نے بھی ہجرت کرنا شروع کردی ہے ۔ پہلے ایک طرف موسم خزاں درختوں سے پتوں کو جدا کرتا ہے اور زمین کو ان پتوں سے بھر دیتاہے تو دوسری طرف آگے چل کر موسم سرما میں یہ زمین برف سے ڈھک جاتی ہے ۔ ایسے میں پرندوں کو خوراک کی کمی ہو جاتی ہے اور یہ پرندے خوراک کی تلاش میں اپنے سفر پر روانہ ہوجاتے ہیں – کچھ نقل مکانی کرنے والے پرندوں کی نسلیں اگست میں ہی نقل مکانی شروع کردیتی ہیں تو کچھ اکتوبر میں یا اس کے بعد بھی ہجرت کرتے نظر آتی ہیں ۔ بہار کا موسم آتے ہی وہ مارچ اور مئی کے درمیان اپنی پرانی جگہ یعنی جہاں اُن پرندوں کی نسل کی افزائش ہوتی ہے، وہ انہی علاقوں میں واپس لوٹ آتے ہیں۔ یہاں یہ سوال ہمارے ذہنوں میں ضرور آتا ہے کہ ہجرت انسانوں میں ہو یا پرندوں میں کیا اس کی وجہ بھوک ہی ہے؟
آج کل اگر آپ نے آسمان پرچہچہاتے اور شور مچاتے بہت سے پرندوں کے غول دیکھے ہوں گے تو آپ نے یہ بات ضرور نوٹ کی ہوگی کہ یہ پرندے انگریزی حروف وی کی شکل میں آسمان پر اڑتے ہوئے کسی سمت ہجرت کررہے ہوتےہیں۔ وہ جنوب سے سردیوں کی وجہ سے پرواز کرتے ہیں اور جہاں زیادہ گرمی ہوتی ہے، جیسے اسپین یا مراکش کی طرف سفر کرتے ہیں۔ پرندے اس طرف اسی لیے جاتے ہیں کیونکہ انہیں وہاں وہی خوراک ملتی ہے جو انہیں زندہ رہنے کےلیے درکارہوتی ہے۔
کچھ نقل مکانی کرنے والے پرندے اپنے سفر میں ہزاروں کلومیٹر کا سفر طے کرتے ہیں۔ ان میں سب سے طویل سفر کرنے والا آرکٹک ٹرن ہے جوتقریباً 17,000 کلومیٹر کی دوری کا سفرکرتا ہے۔ یہ آرکٹک کے شمال میں، گرین لینڈ یا الاسکا سے اپنا سفرشروع کرتا ہے۔ اس کی منزل دنیا کی بالکل دوسری طرف ہوتی ہے یعنی انٹارکٹیکا، جہاں یہ کالونیوں کی شکل میں پرورش پاتا ہے۔
پرندوں کی تمام اقسام میں ایک اندازے کے مطابق تقریباً تین چوتھائی ہجرت کرنے والے پرندے ہیں۔ جرمنی میں رہنے والے پرندوں کی نسلوں میں سے صرف دس فیصد ایسے ہیں جو سردی برداشت کرکے اپنی نسل کی افزائش کرسکتے ہیں۔ باقی سب سردیوں میں جنوب کی طرف چلےجاتے ہیں۔ اگر آپ دنیا میں پرندوں کی نقل مکانی کے تمام راستوں کا سراغ لگا لیں تو آپ دیکھیں گے کہ یہ تمام راستے ایک گھنے نیٹ ورک کی طرح پھیلے ہوئے ہیں۔ ہر موسم بہار میں، تقریباً 500 ملین پرندے صرف افریقہ سے یورپ اور ایشیا میں گرم مہینے گزارنے کے لیے واپس آتے ہیں۔
پرندے خوراک حاصل کرنے کے لیے ہجرت کرتے ہیں۔ خاص طور پر کیڑے کھانے والے ان جگہوں کی طرف کھینچے جاتے ہیں جہاں پرانہیں اپنی غذا والے کیڑے کافی تعداد میں دستیاب ہوتے ہیں۔ یورپ میں موسم سرما گزارنے کا مطلب بہت سی نسلوں کے لیے فاقہ کشی ہے۔ اس وقت شاید ہی کوئی حشرات الارض گونجتا ہوا یا رینگتا ہوا نظر آتا ہے۔ مثال کے طور پر جو پرندے مغربی افریقہ جاتے ہیں، انہیں وہاں کافی خوراک ملتی ہے۔ لیکن اگر جنوب میں زندگی اتنی اچھی ہے تو ہجرت کرنے والے پرندے وہاں کیوں نہیں ٹھہرتے؟ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ جو پرندے ہجرت کرکے یہاں آتے ہیں انہیں اپنی غذا وہاں کے مقامی پرندوں سے بچ جانے کے بعد ہی مل پاتی ہے، اسطرح ایک مشترک عمل کرنا پڑتا ہے اور جو بھی کھانے کی میز پر بچتا ہے اُسی میں گزارا کرنا پڑتا ہے -سردی میں تو یہ کسی نہ کسی طرح گزارا کرلیتے ہیں لیکن موسم میں بہتری آتے ہی وہ واپسی کا عمل شروع کردیتے ہیں تاکہ اپنے ہی علاقے میں رہ کر سیر ہوکر غذا حاصل کرسکیں۔
نہ تو نویگیشن ،نہ ہی گوگل کے نقشہ جات اور نہ کوئی دوسری طرح کی مدد۔ نقل مکانی کرنے والے پرندے بغیر اس طرح کی امداد کے اُڑتے ہیں۔ بہت سے ہجرت کرنے والے پرندے اپنی جان پہچان کی جگہوں پر ہی جاتے ہیں۔ وہ زمین کے مقناطیسی میدان سے مدد لیتے ہیں۔ ان کے دماغ کا بصری مرکز تاروں سے جڑا ہوا دکھائی دیتا ہے تاکہ وہ زمین کے مقناطیسی میدان کو دیکھ سکیں، یونیورسٹی آف الینوائے سے تعلق رکھنے والے بائیو فزیکسٹ کلاؤس شلٹن جیسے محققین کو شبہ ہے کہ ہجرت کرنے والے پرندوں کا مقناطیسی کمپاس تمام جانوروں میں سب سے زیادہ مقناطیسی میدان کو پہنچانے میں حساس ہوتاہے۔ کلاؤس نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر 2010 میں یورپی فزیکل جرنل میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں اس بات کی نشاندہی کی تھی ۔
محققین کے مطابق پرندے اپنے آپ کو ایک سمت کی جانب توجہ رکھنے کے لیے دو طریقے استعمال کرتے ہیں۔ ایک طرف، پرندے زمین کے مقناطیسی میدان اور افق کے درمیان جھکاؤ کے زاویے کو بہت آسانی سے سمجھ پاتے ہیں ،جس کا تعین کرنے کے لیے طیاروں کو دن کی روشنی کی ضرورت ہوتی ہے۔ دوسری بات یہ کہ اگر کوئی پرندہ جنوب کی طرف اڑتا ہےتو وہ اپنی بصارت کے زاویے میں تاریکی کے باوجود دیکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
پہلے تحقیق کرنے والوں کا خیال تھا کہ پرندوں کی چونچ میں ہلکا آزاد کمپاس ہو تا ہے۔ لیکن یہ نظریہ اب متنازعہ ہوچکا ہے۔2012 میں، ویانا یونیورسٹی کے سائنسدان ڈیوڈ کیز کی قیادت میں ایک ٹیم نے سائنس میگزین نیچر میں ایک مطالعہ شائع کیا جو اس نظریے کو چیلنج کرتا ہے۔ کیز اور اس کے گروپ نے تقریباً 200 کبوتروں کی چونچوں کا معائنہ کیاتو وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ پرندوں کی چونچ میں کوئی عصبی خلیے نہیں ہوتے جن میں آئرن کی پرت ہو ، یہاں صرف سفید خون کے خلیے ہوتے ہیں، جنہیں کسی سمت کی واقفیت کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا ہے ۔
ارسطو، قدیم یونان کا سب سے مشہور فلاسفر، وہ پہلا شخص تھا جس نے آرنیتھولوجی ( پرندوں کے علم )کو سائنس کا درجہ دیا، حالانکہ اس کا مفروضہ آج کے نقطہ نظر سے بالکل بھی سائنسی نہیں لگتا۔ اُس کا خیال تھا کہ پرندے دوسرے جانوروں کی طرح سردیوں میں سوتے ہیں۔ اپنی "ٹرانسمیوٹیشن” تھیوری میں اُس نے کہا تھا کہ پرندے کے سینے پر سرخ رنگ سردیوں میں اس کی دم کی طرف چلا جاتا ہے اور گرمیوں میں دوبارہ واپس آجاتا ہے۔ ارسطو نے یقیناً پرندوں کی دو مختلف اقسام کا مشاہدہ کیا ہوگا ایک رابن، جو سردیوں میں جنوب میں پایا جاتاہے لیکن جن کی افزائش کا علاقہ اسکینڈینیویا کے ممالک ہیں اور دوسری طرف ریڈ سٹارٹ، جو گرمیوں میں یونان میں بھی پایا جاتا ہے۔اول الذکر کے سینے پر سرخ رنگ ہوتا ہے اور دوسرے کے دُم پر ۔لگتا ہے کہ ارسطو ان دونوں پرندوں کو الگ الگ نہ کرسکا۔
ویانا میں 1884 میں پرندوں کے سائنسدانوں کی پہلی بین الاقوامی کانفرنس منعقد ہوئی۔ 17 سال بعد، پرندوں کی نقل مکانی کو منظم طریقے سے ریکارڈ کرنے کے لیے دنیا کا پہلا آرنیتھولوجیکل بیولوجیکل ریسرچ اسٹیشن قائم کیا گیا۔
ڈنمارک میں 1899 میں سائنسدان مورٹریزن نے سارس اور کوّے کی ٹانگوں میں دھاتی انگوٹھی پہنانی شروع کی جس پر اُس نے اپنا پتہ اور ایک ترتیب وار نمبر کھرچا اور جب یہ انگوٹھی پہنی پرندہ دوسرے مقام پر پایا گیا تو اس طرح سائنسدانوں کو پہلی بار پرندوں کی نقل مکانی کے راستوں کو مکمل طورپرسمجھنے کا موقع ملا۔
طویل نقل مکانی کرنے والے پرندے آخر انگریزی کے حروف وی کی شکل میں ہی کیوں سفر کرتے ہیں آج کے اس کالم کا مقصد دراصل یہی جاننا ہے ۔
وی شکل کے سفر میں سب سے آگے جو پرندہ ہوتا ہے وہ اس گروپ کا سردار ہوتا ہے اور اپنے پھڑپھڑاتے پروں کے ساتھ ایک خاص علاقے کو کور کرتا ہے جسے انگریزی میں ویَک ورٹیکس کہتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے پیچھے تمام پرندے اسی کور کردہ علاقے میں خود کوگھسیٹتے ہوئے اڑان بھرتے ہیں۔ محققین نے یہ دریافت کیاہے کہ اس طرح سے یہ پرندے اپنی توانائی کا پانچواں حصہ بچاتے ہیں۔ توانائی کی یہ بچت خاص طور پر طویل سفر کے لیے انتہائی اہم ہوتی ہے۔ تاہم، گروپ کو لیڈ کرنے والا پرندہ چونکہ سب سے آگے ہوتا ہے اس لیے اُس پر جو ہوا کا دباؤ ہوتا اُسے برداشت کرنا طاقت کا ایک حقیقی کارنامہ ہے۔ لہذا اڑان میں سردار کے بعد سب سے زیادہ تجربہ رکھنے والے پرندہ اُس کے پیچھے ہوتا ہے اور لیڈ کرنے والے کی تھکن پر فوراً اُس کی پوزیشن کو سنبھالیتا ہے اور یہ سلسلہ مستقل چلتا رہتا ہے۔یوں پرندوں کے اس سفر سے بھی منظم ہونے کا ایک درس ملتا ہے کہ ہزاروں میل کے سفر میں یہ کس خوبصورتی سے اور بنا کسی جھگڑے کے اپنی اپنی پوزیشن تبدیل کرتے ہوئے پرندوں کے غول کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانا ہے جو وہ بہترین طریقے سے کرتے ہیں ۔ شاید اللہ تعالی نے اسی لیے فرمایا ہے کہ “ بہت نشانیاں ہیں اس زمین و آسماں میں انہیں دیکھو، سمجھو اور پہچانو”۔