از قلم : محمد شبیر کھٹانہ
رابطہ نمبر : 9906241250
تمام ٹین پلس ٹو لیکچرر کے لئے اس اعظیم اور شاندار عہدے کی ہسٹری جاننا لازمی ھے کہ یہ شاندار عہدہ کس طرح وجود میں لایا گیا تھا اور کن قوانین کے تحت اس شاندار عہدے پر کام۔ کرنے کے لئے لیکچرر کی تعائناتی عمل میں لائی جاتی ھے ایس آر او 350 کے عمل آور ہونے سے قبل گیارویں اور بارہویں جماعتوں کے طلبا کو سینیر ماسٹر پڑھاتے تھے اس زمرے میں وہ ماسٹر آتے تھے جنہوں نے کسی یو جی سی کی مانتا شدہ یونیورسٹی سے ایم یا ایم ایس سی ڈگری حاصل کی ہوئی تھی ان تمام سینیر ماسٹر کی تعیناتی ایس آر او 700 مورخہ یکم نومبر انیس سو اٹھتر کے تحت عمل میں لائی جاتی تھی ایک وقت ایسا آیا کہ اس وقت کام۔ کرنے والے سینیر ماسٹر مرحوم راجہ رام شرما صاحب کی سربراہی میں اسوقت کے چیف منسٹر صاحب سے ملاقات کر کے سینیر ماسٹر کے عہدے کو جنیر لیکچرر (Junior Lecturer) بنانے کی مانگ کی چیف منسٹر صاحب نے اپنی کابینا وزرا کے ساتھ بات چیت کرنے کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ سینیر ماسٹر کے عہدے کو جونیر لیکچر کے بجاۓ ٹین پلس ٹو لیکچرر(10+2) کا عہدہ کریٹ کرنے کا فیصلہ کیا اور اس طرح ایس آر او زیر نمر 350 مورخہ اکیس اگست انیس سو بیاسی کو جاری کیا گیا جس کے تحت سینیر ماسٹر کو ٹین پلس ٹو (10+2) لیکچرر کے عہدے میں بدلا گیا اس طرح ٹین پلس ٹو آفیسرز کے زمرے میں ٹین پلس ٹو لیکچرر کا شاندار عہدہ کریٹ کیا گیا یا شامل ہوا
اس کے بعد ایس آر او 83 مورخہ سات اپریل انس سو بانوے جاری کیا گیا جس کے تحت لیکچرر ٹین پلس ٹو کی تقرری عمل میں لائی جاتی تھی پھر ایک اور ایس آر او زیر نمبر 481 مورخہ تیس دسمبر دو ھزار دس جاری کیا گیا یہ دونوں ایس آر اوز ایجوکیشن گزٹیڈ ریکروٹمنٹ رول تشکیل دیتے ہیں انتیس دسمبر دو ھزار دس تک ایس آر او 83 عمل آور تھا اور اس کے بعد 481 عمل آور کیا گیا جو اج بھی عمل آور ھے
اب اگر ایس آر او 481 کی کلاز III(D) شڈول -II کے مطابق 50 فی صد لیکچرز کی پوسٹیں ان امید واروں سے پر کی جائیں گی جنہوں نے یو جی سی کی مانتا رکھنے والی یونیورسٹی سے متعلقہ مضون میں ماسٹر ڈگری حاصل کی ہو گی باقی پچاس فی صد پوسٹیں ماسٹر گریڈ میں کام کرنے والے ان ماسٹروں کو پرموشن دے کر بھری جائیں گی جہنوں نے یو جی کی مانتا رکھنے والی یونیورسٹی سے ماسٹر ڈگری حاصل کی ہو گی اور اگر کسی مضمون میں ماسٹر گریڈ میں کام کرنے والے افراد دستیاب نہ ہو تو پھر وہ ٹیچر جہنوں نے ماسٹر ڈگری کے ساتھ ساتھ کم از کم تین سال بطور ٹیچر کام کیا ہو گا ان کو بطور لیکچرر پرموشن دی جائے گی ثابت ہوتا ھے کہ ایک وہ ٹیچر جس نے ماسٹر ڈگری حاصل کی ہو گی اور کم ازکم تین سال لگاتار کام کرنے کے بعد لیکچرر پرموشن کا حق دار بن جاتا ھے اب پبلک سروس کمیشن اور سروس سلیکشن بورڈ میں سلیکشن کرنے والی کمیٹیوں پر اگر غور کی جائے تو اس میں صرف سبجیکٹ ایکسپرٹ کا فرق ہوتا ھے جو پبلک سروس کی طرف سے انٹرویوں لیتا ھے لیکن دوسری طرف ایک ٹیچر نے کم از کم تین سال بطور ٹیچر کام کرنے کا تجربہ بھی حاصل کیا ہوتا ھے اور کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا کہ جو تجربہ ایک ٹیچر ایک دن میں حاصل کر لے شاید دو دن بعد آنے والا ساری سروس کے دوران اتنا تجربی حاصل نہ کر سکے پھر ہر ایک ٹیچر یا لیکچرر یونیک قابلیت کا مالک ہو سکتا ھے جب ایک سے زیادہ لیکچرر مل کر کام۔ کریں تو قابلیت میں کئی گنا اضافہ ہوتا ھے
یہ بات قابل غور ھے کہ دوسرے کی قابلیت کو دیکھنے کے لئے بھی ایک قابلیت درکار ھے قابل شخص کسی کی نا قابلیت پر نظر اس غرض سے نہیں رکھتا کہ وہ اس نا قابلیت کو شمار کر سکے بلکہ قابل شخص وہ ہوتا ھے جو دوسرے کو بھی قابل بنانے کی کوشش کرے یا پھر دوسرے کو قابل بنے میں مدد کرے قابل وہ ہوتا ھے جو اس بات کا تعین کر سکے کہ ایک شخص کو قابل بننے کے لئے مزید کیا سیکھنے کی ضرورت ھے اور وہ تمام لکھ کر ایک ڈاکومنٹ مرتب کر سکتا ھے جو بھی دوسرے کو سیکھا کر قابل اور لائق بنانا چاہتا ھے اس کو خود بھی اس تمام پر پوری محارت حاصل ہوتی ھے اور جب ﷲ تبارک تعالی اس معیار کی قابلیت سے کسی بھی شخص کو نواز دیتا ھے تو اس شخص کو اس بات کی پوری سمجھ ہوتی ھے کہ یہ قابلیت اس کو ﷲ تبارک تعالی نے اپنی کرم نوازی کی بدولت ہی نوازی ھے اور پھرایسے شخص کو ہر دوسرا شخص اپنے آپ سے زیادہ قابل اور لائق نظر آتا ھے اور وہ ہمیشہ اتنی محنت کرتا رہتا کہ وہ اپنی قابلیت کو سب سے زیادہ برقرار رکھتا ھے قابل اور لائق شخص کبھی بھی کسی دوسرے کو کبھی بھی نالائق تصور نہیں کرتا اور نہ ہی نالائق کہتا ھے کیونکہ اس کو اس بات کا پورا علم ہوتا ھے کہ جس ذات نے اسے قابلیت سے نوازا ھے وہ ذات قابلیت واپس بھی لے سکتی ھے اور اگر وہ ذات قابلیت واپس لینے پر آ جائے تو صرف آنکھ جھپکنے سے بھی کم وقت لگتا ھے ﷲ ہم سب کو معاف کرے اور اس تمام حقیقت کو اچھی طرح سمجھنے کی پوری توفیق بخشے تا کہ ہم اپنے ساتھ اور پھر دیگر سب کے ساتھ پورا انصاف کر سکیں۔
محکمہ تعلیم کی اہمیت کو مد نطر رکھتے ہوئے اس میں کام کرنے والے تمام ٹی چینگ عملا سے تعلق رکھے والے ملازمیں کا بے شمار خوبیوں کا مالک ہونا ضروری ھے جن میں صبر برداشت نظر انداز کرنا دوسرے کو سننا اپنی بات سنانے کی خوبی دوسروں سے مدد حاصل کرنے کی صلاحیت دوسروں کی مدد کرنے کی صلاحیت اپنے سے چھوٹے کے ساتھ شفقت سے پیش آنا برابر عمر والے تمام کے ساتھ ہمدردی کرنا اور اپنے آپ سے تمام بڑوں کی عزت کرنا
اب ہمدردی کی بات کی جائے تو اس میں اگر دوسرے کو رول ( Rule) یا قانون کم آتا ھے تو اس کو سیکھانا ہمدردی ھے اگر کوئی بھی دوسرا ملازم محنت لگن اور ایمانداری سے کام۔ نہیں کرتا تو اس کو محنت لگن اور ایمانداری سے کام کرنے کی نصیحت کرنا بھی ہمدردی ھے اگر دوسرے کو یہ معلوم نہیں کہ ﷲ تبارک تعالی نے ایک شاندار عہدہ اس کو کیوں نوازا ھے تو اس کویہ سب سمجھانا بھی ہمدردی ھے اگر دوسرے کو پیشے کی اہمیت کی پوری جانکاری نہیں تو اس کو جانکاری دینا ہمدردی ھے
اب کم سے کم سولہ اور زیادہ سے زیادہ ستائیس سال سروس کے بعد جب ایک ملازم آفیسر بنتا ھے تو اس کے پاس کام کرنے کا بے شمار تجربہ ہوتا ھے بشرطیکہ اس نے اپنی سروس کے دوران سیکھا ہو گا اس نے اس طرح سیکھا ہو گا کہ ہر روز اس نے مسائل کے حل کے لئے ایک نیا تجربہ حاصل کیا ہو گااور پھر اپنی پوری سروس کے دوران حاصل شدہ تجربات یاد رکھے ہوں گے تو انشا ﷲ وہ ایک تجربہ کار آفیسر ہو گااور پھر وہ ایڈمنسٹریشن ایک شاندار طریقے سے چلانے کی صلاحیت رکھتا ہو گا اور اس کو ایڈمنسٹریشن چلانے میں کسی بھی قسم کی کوئی بھی دشواری یا پریشانی درپیش نہ ہو گی
ان تمام تجربات کی پختگی کے لئے اس کو تمام رولز یا قانون کی پوری جانکاری ہونا لازمی ھے جس کے لئے اس نے کم از کم۔ دس گیارہ کتابیں پڑھی ہو گی اور پھر گورنمنٹ آڈر سرکیولر وغیرہ کی بھی اس کو پوری جانکاری ہونا لازمی ھے تا کہ اس کے پاس ایڈمنسٹریشن کے پورے سرکیولرز موجود ہوں جس افیسر میں اچھی طرح سوچنے کی صلاحیت دوسرے کو سننے کی صلاحیت دوسری کو مدعو کرنے کی صلاحیت دوسرے کو برداشت کرنے کی صلاحیت اور اپنے سے اعلی کے ساتھ مدد کرنے کا جزبہ وغیرہ وغیرہ شامل ہیں وہ ہمیشہ ایک قابل لائق اور تجربہ آفیسر شمار ہو گا
اب ہر ایک پلس ٹو لیکچرر کے لئے پلانینگ کا ماہر ہونا لازمی ھے تا کہ ایک ھائر اسکینڈری میں کام کرنے والے تمام پلس ٹو لیکچرر مل کر اپنے اسکول کے پرنسپل کو اسکول کی ایڈمنسٹریشن اچھی سے اچھی طرح چلانے میں اپنا اہم رول ادا کر سکیں تعلیم کے اعتبار سے اگر دیکھاجائے تو تمام لیکچرر نے متعلقہ مضمون میں کم از ماسٹر ڈگری حاصل کی ہوتی ھے اور ماسٹر ڈگری کافی اعلی تعلیم ھے اب اتنی اعلی تعلیم رکھنے والے ہر آفیسر کے لئے بے شمار خوبیوں اور صلاحیتوں کا مالک ہونا لازمی ھے ورنہ اس اعلی تعلیم سے متعلق حاصل کی گئی ڈگری پر ایک سوالیہ نشان لگتا ھے اس تعلیم کے ساتھ ساتھ اگر مذہبی تعلیم کو بھی دیکھا جائے اور پھر مذہبی اصولوں میں زندگی گزارنے کے لئے درکار سب سے اہم اصول پر نظر پر دھیان دیا جائے جو ہر پلس ٹو لیکچرر کے نالج کے لئے حسب ذیل تحریر کیا جاتا ھے
” ہمیشہ ہر دوسرے انسان یا فرد کے ساتھ اچھا کرنے کی کوشش کرو اگر آپ اچھا نہیں کر سکتے تو ایسا کوئی بھی کام کرنا ہر انسان کے لئے منع ھے جس سے دوسرے کو ایک ذرہ کے برابر بھی نقصان ہو” اس اصول کو مد نظر رکھتے ہوئے اور پلس ٹو لیکچرر کی اعلی تعلیم اور تعلیم سے پیدا ہونے والی تمام خوبیوں اور صلاحیتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے تمام ھائر اسیکنڈری اسکولوں کے اندر تعلیم کی مناسبت سے ایک شاندار ماحول کا ہونا ضروری ھے یہ سب اس، وقت ممکن ہو سکتا ھے جب سبھی پلس ٹو لیکچرر کے درمیان اتفاق اور بھائی چارہ ہو گا
ایک اور پہلوں تحریر کرنا ضروری ہو گا وہ یہ کہ دیگر کچھ محکمہ جات کے اندر پلس ٹو لیکچرر سے جونیر افیسر کا اپنے ملازمین پر اتنا شاندار کنٹرول اور کمانڈ ہوتا ھے کہ ان کے ماتحت یا پھر ان سے جونیر کوئی بھی ملازم کسی بھی حالت میں ان کے حکم کی حکم عدولی نہیں کرتا اور ہر گھڑی میں اپنے ساتھ کام۔ کرنے والوں کی مدد کرتا ھے اب سوال پیدا یہ ہوتا کہ گریڈ کے لحاظ سے جب ایک ھائر اسیکنڈری اسکول کے اندر اتنے اعلی عہدے پر کام کرنے والے آفیسر موجود ہیں تو وہاں ماحول تعلیم کے لئے غیر مناسب آخر کیوں؟
اس کا مختصر جواب یہ ھے کہ ان تمام۔ آفیسرز کو اپنے عہدے کی اہمیت کو اچھی طرح سے سمجھنا ضروری ھے اپنے مذہب کے اصولوں کی جانکاری ہونا ہر ایک کے لئے لازمی ھے ہر ایک کے دل میں ﷲ کا خوف ہونا ضروری ھے گورنمنٹ کی طرف سے مرتب کئے گے تمام قواعد ضوابط کا جاننا ہر ایک کے لئے لازمی ھے جب ہر ایک لیکچرر دوسروں کی مدد کرنے کی کوشش کرے گا ایک دوسرے کے ساتھ اپنے تجربات کو شیر کر کے دوسروں کی قابلیت میں اضافہ کرنے کی کوشش کرے گا تو پھر انشا ﷲ ہمارے تمام ھائر اسیکنڈری اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کے لئے تمام لیکچرر مل کر ایک کنجیل اٹماسفیر ( congenial atmosphere ) تیار کرنے میں کوئی بھی دشواری پیش نہیں آئے گی
اس آرٹٹکل کو پڑھنے سے اس کے لکھنے کا مقصد اچھی طرح واضح ہو جاتا ھے اس ذی عزت اخبار کا سماج کے اوپر ایک بہت بڑا احسان ہو گا جب یہ اخبار اس ارٹیکل کو پبلش کرے کے سماج کی خدمت میں اپنا مناسب رول ادا کرے گا