ٓٓٓٓٓاسلام میں حفظان صحت کی اہمیت

0
0

دین اسلام ایک آفاقی مذہب ہے، جو پوری انسانیت کے ہر شعبے میں مکمل رہنمائی کرتا ہے. اسلام کی پاکیزہ تعلیمات جہاں عقائد و عبادات، معاشرت و معاملات اور اخلاق و آداب کے جملہ گوشوں کی جامع ہے وہیں حفظان صحت اور تندرستی کے سلسلے میں بھی اسلام کی بے شمار ہدایات موجود ہیں، جن پر عمل پیرا ہو کر نہ صرف ہم صحت مند زندگی گزار سکتے ہیں بلکہ وہیں لا تعداد مہلک امراض سے بھی بآسانی محفوظ ہو سکتے ہیں۔
پیغمبر اسلام(ﷺ) نے انسانی صحت سے متعلق اپنی ایسی تعلیمات دیں جس کی مثال دیگر مذاہب میں ملنا نہایت مشکل ہے۔ آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا:” دو نعمتیں ایسی ہیں کہ ان کے معاملے میں بہت سے لوگ فریب میں ہیں اور وہ دونوں نعمتیں تندرستی اور خالی وقت ہیں”. (صحیح بخاری، حدیث:6412) حدیث پاک میں یہاں تک کہ فرمایا گیا کہ تندرست اور طاقت بندہ بارگاہ الہی میں محبوب اور پیارا ہے،آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا:” طاقتور بندہ اللہ کی بارگاہ میں کمزور بندے سے زیادہ بہتر اور پیارا ہے. ”(صحیح مسلم حدیث:6774)
یہ حدیث اس بات پر زور دیتی ہے کہ مسلمانوں کو اپنے صحت کی اچھی طرح نگرانی کرنی اور ہمیشہ صحت مند رہنے کی کوشش کرنی چاہیے۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ صحت محض بیماری اور ضعف کی عدم موجودگی کا نام نہیں بلکہ مکمل طور سے جسمانی ذہنی اور سماجی آسودگی کا نام صحت ہے۔ جس طرح اسلام میں صحت کی اہمیت و افادیت کو نظر انداز نہیں کیااسی طرح اس نے صحت کی حفاظت کو بھی نظر انداز نہیں کیا بلکہ اس کے متعلق بے شمار اصول بیان کئے، اس لیے اسلام علاج سے زیادہ حفظان صحت اور احتیاطی تدابیر کی تاکید کرتا ہے۔ اسلام کی جملہ تعلیمات کا اغاز طہارت یعنی پاکی سے ہوتا ہے اور حفظان صحت کے اصول میں پہلا اور اہم اصول طہارت ہے۔ طہارت کے متعلق نبی رحمت ﷺفرماتے ہیں:” پاکی ایمان کا حصہ ہے.” (صحیح مسلم، حدیث:534)
اور طہارت کے باب میں ان ان مقامات سے طہارت کی ابتدا ہوتی ہے جہاں سے فضلات خارج ہوتے ہیں، اس لیے کہ یہ طہارت کا پہلا اصول ہے اور ہر مسلمان اس سے بخوبی واقف ہے کہ اس کے بغیر تو طہارت کا تصور ممکن ہی نہیں۔یہی وجہ ہے کہ اسلام نے اس کے متعلق مفصل باب قائم کر کر اس کی اہمیت کو مزید اجاگر کر دیا.
آج کے اس ترقی یافتہ دور میں مغربی تہذیب سے متاثر ہو کر لوگوں نے پانی سے طہارت کے حصول کے لیے اس فطری طریقے کو چھوڑ کر ٹشو پیپر سے طہارت حاصل کرنے کا رواج عام ہو گیا حالانکہ اس طرح ٹشو پیپر سے طہارت حاصل کرنے سے کئی طرح کی بیماریاں جنم لیتی ہیں. میڈیکل سائنس کے مطابق جو لوگ استنجا کے بعد طہارت کی بجائے ٹشو پیپر کا استعمال کرتے ہیں انہیں مندرجہ ذیل بیماریاں لاحق ہونے کا امکان رہتا ہے:
(۱)Pilondiol sinus: یہ ایک بالدار پھوڑا ہے جو پاخانے کی جگہ کے قریب ہو جاتا ہے اور اس کا علاج بغیر آپریشن کے ممکن نہیں۔
(۲) Pyelonephritis: پیشاب کے راستوں اور گردوں میں پیپ کا پیدا ہو جانا، بالخصوص عورتوں میں پاخانے کے جراثیم پیشاب کی نالی میں آسانی سے داخل ہو کر سوزش اور پیپ پیدا کر دیتے ہیں اور اس سے آہستہ آہستہ گردوں کی مہلک بیماری لاحق ہو جاتی ہے. (اسلام اور جدید سائنس، صفحہ578)
اس کے علاوہ اسلام نے حفظان صحت کے لیے وضو جیسا زبردست نسخہ کیمیا عطا کر کے ہمارے بدن کو خطرناک جراثیم سے حفاظت کی جسے ہر مسلمان دن میں پانچ بار اپنا کر اپنے بدن کی حفاظت کرتا ہے،ہمارا بدن ایک قلع کے مانند ہے جس پر ہر جانب سے خطرناک جراثیم مسلط رہتے ہیں،خصوصا یہ بدن کے کھلے حصے اور بدن کے سوراخ ناک اور منہ وغیرہ میں بآسانی داخل ہو جاتے ہیں۔اگر ہم روزانہ پانچ بار وضو نہ کریں تو ہمارا بدن بے شمار بیماریوں کی آماجگاہ بن جائے لہذا وضو حفظانِ صحت کے لیے نہایت مفید اور ضرر رساں جراثیم کے خلاف ایک زبردست آلۂ کار ہے۔
نیز اس کے ساتھ ہی منہ اور دانتوں کی صفائی اور پاکیزگی کے لیے اسلام نے حد درجہ تاکید کی ہے۔آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا:”اگر مجھے اپنی امت یا لوگوں پر مشقت کا خوف نہ ہوتا تو میں انہیں ہر نماز کے وقت مسواک کرنے کا حکم دیتا(صحیح البخاری 887,)
آقا علیہ السلام نے مسواک کو منہ کی طہارت کا ذریعہ قرار دیا سرکار علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں:” مسواک منہ کی صفائی اور رب کی رضا ہے.” آقا علیہ السلام خود بھی اس پر مداومت فرماتے تھے اور اپنے صحابہ کو بھی اس پر عمل کرنے کی تلقین فرمایا کرتے تھے۔ میڈیکل سائنس کے مطابق منہ اور دانت کی صفائی نہ ہونے کے سبب دانتوں میں پائریا اور کیوٹی جیسی مہلک بیماریاں لاحق ہو سکتی ہیں، لیکن تاجدار کائنات ﷺ نے پہلی سے ہی اپنی امت کو مسواک کی تعلیم فرما کر اس مہلک بیماری کے خدشے کا ازالہ کردیا۔ عصر حاضر میں برش اور پیسٹ کا استعمال نئی تہذیب کی اختراع ہے۔یہ برش اور پیسٹ سادہ مسواک جیسے فوائد سے خالی ہے بلکہ بہت سارے نقصانات کی حامل ہے۔ اس نئی تہذیب کی چمک دمک سے مرعوب لوگ سستی اور آسان مفید چیز مسواک کو ترک کر کے متعدد امراض میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ اگر رسول ﷺکی سنت مبارکہ کی کما حقہ پیروی کی جاتی تو دنیا میں دانتوں کی بیماریاں اور ڈینٹل سرجنز کی ضرورت قطعاً پیش نہ آتی۔
حفظان صحت کے نقطہ نظر سے برتن میں سانس لینے سے برتن میں جراثیم کے منتقل ہونے کا خدشہ رہتا ہے اور اگر سانس لینے والا مریض ہے تو عین ممکن ہے اس کے جراثیم برتن میں منتقل ہو جائیں اور پھر کوئی دوسرا اس برتن کو استعمال کرے تو اس کے مرض میں مبتلا ہونے کا قوی امکان رہتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنی امتیوں کو اس عمل سے باز رہنے کا حکم فرمایا. حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کہتے کہ نبی پاک صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے برتن کے اندر سانس لینے اور اس نے پھونک مارنے سے منع فرمایا. (الترمذی ،1997)
اسی طرح سرکار علیہ والسلام کا یہ عمل تھا کہ آپ کسی خورد نوش کے اشیاء میں نہ کبھی سانس لیتے اور نہ ہی اس میں ٹھنڈا کرنے کے لیے پھونک مارتے تھے،تاکہ آپ کی امت آپ کے فرمودات پر عمل پیرا ہو کر ضرر رساں بیماریوں سے محفوظ رہ سکے۔
حفظان صحت کے اصولوں میں سے خوراک ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔متوازن خوراک اور معتدل غذا سے انسان کی صحت برقرار رہتی ہے. وہ مناسب طور پر نشو نما پاتا رہتا ہے، اس لیے یہ امر مصدق و مسلم ہے کہ انسان اور ہر قسم کے جانداروں، بشمول وحشی درندوں کے ان سب کی زندگی کا دار و مدار صحیح و متوازن خوراک پر ہے کیونکہ خوراک سے خون بنتا ہے جو ہمارے جسم میں ایندھن کی حیثیت رکھتا ہے. قران کریم افراط و تفریط سے پاک اور متوازن غذا کھانے کا حکم صادر فرماتا ہے.
مفہوم قرآن ہے:”کھاؤ اور پیو اور حد سے نہ بڑھو بے. شک وہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں فرماتا.” (سورۂ اعراف 7:31)
علماے کرام فرماتے ہیں:” اللہ تعالی نے ان تین کلمات میں علم طب کو جمع فرما دیا.” مذکورہ آیت میں اللہ تعالی نے کھانے پینے میں حد سے بڑھنے سے منع فرمایا ہے، اس لیے زیادہ تر بیماریاں معدے سے ہی جنم لیتی ہیں، اگر انسان بسیار خوری کا عادی ہے تو اکثر و بیشتر بیماریوں میں گھر رہتا ہے، اس کے برعکس متوازن غذا پر اکتفا کرنے والا شخص صحت مند و تندرست اور چاق و چوبند نظر آتا ہے۔
تاجدار کائنات نے بسیار خوری کی سختی سے مذمت فرمائی اور اپنے معاشرے سے حتی الامکان اس کا خاتمہ کرنے کی کوشش فرمائی
نبی پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا :”بے شک اللہ تعالی بھوک سے زیادہ کھانے والے پر غضب فرماتا ہے.” (کنز الاعمال 74029)
بلا شبہ کثرت طعام بہت ساری بیماریوں کا پیش خیمہ ہے، اس کا علاج صرف بصرف سنت رسول کے مطابق متوازن نظام میں ہے، جو ہمیں بہت ساری بیماریوں سے بچا کر ہماری صحت کی حفاظت و صیانت کرتی ہے.
قابل توجہ بات یہ ہے کہ حضور ﷺ نے کس میڈیکل کالج میں پڑھا، آپ کا رب آپ کو امی کہہ کر خطاب فرما رہا ہے.
یقینا آپ کی تعلیم کا مبتدا و سرچشمہ اللہ تعالی کی مقدس ذات ہے۔
آقا ﷺ کے دیئے گئے حفظان صحت کے اصول پر آج سائنسداں تحقیقات کر کے آپ کو دنیا کا عظیم رہنما ماننے پر مجبور ہو رہے ہیں اور جن کی اہمیت و افادیت کو دیکھ کر عقل و فہم حیران و ششدر ہے تو آخر اس عظیم بارگاہ میں ہمارے سر و چشم کیوں نہ جھکیں کہ جس نے بغیر کسی میڈیکل سائنس کی مدد سے ساڑھے چودہ سو سال قبل ہمیں وہ اصول فراہم کر دیے کہ جس پر عمل کر کے آج دنیا والے اپنی حیات کو خوشگوار بنا رہے ہیں اور اس کے ذریعے بے شمار مہلک بیماریاں اور خطرناک جراثیم سے محفوظ ہو رہے ہیں۔
مختصر یہ ہے کہ نبی پاک ﷺکے عطا کردہ اصول و ضوابط ایک طرف ہماری زندگی کو بیماریوں سے پاک و صاف رکھتے ہیں اور دوسری طرف ہماری زندگی کو مہذب و معطر کرتے ہیں، کیونکہ نبی کریم ﷺ صرف پیغمبر یا نبی ہی نہیں تھے، بلکہ ایک طبیب ربانی تھے، جنہوں نے انسانی زندگی کو ہر رخ سے پاکیزہ بنا دیا اور صحت سے بھرپور معاشرہ اور قوم کی تشکیل فرمائی۔ اب یہ ہم پر ہے کہ ہم آپ کے اصول و ضوابط پر عمل کرتے ہوئے اپنی زندگی کو بہترین نقوش پر گامزن کر لیں۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا