نگاہیںروہنگیاپہ نشانہ اقلیتوں پہ ؟

0
53
  •  ’میڈیاپرحملہ‘واویلاایساجیسے پھرہواہو’سنجواں جیسا فدائیں حملہ‘،پولیس تھانہ تریکوٹہ نگرکے باہرمیڈیا،سیاسی لیڈران، جموں کے ٹھیکہ داروں کاتانتابندھ گیا، ہنگامہ مچاتھاکہ روہنگیامسلمانوں نے ’قومی میڈیا‘کے صحافیوں پرجانلیواحملہ کردیا،کہاگیاکہ حملہ اُس وقت ہواجب یہ ’میڈیا کرمی‘روہنگیامسلمانوں سے متعلق ایک مقامی آرٹی آئی کارکن کی جانب سے حاصل کردہ سنسنی خیزمعلومات بارے ’سنسنی خیزسٹوری‘ کرکے پورے ملک میں تہلکہ مچادیناچاہتے تھے!دن بھرکے شورشرابے کے غبارے کی ہوااُس وقت نکلی جب ایس ایس پی جموں نے حملے میں روہنگیامسلمانوں کے ملوث ہونے سے دوٹوک الفاظ میں انکارکردیااوربتایاکہ جھگڑاگاڑی ہٹانے کولیکرہواہے، ابھی دونوجوان جومقامی ہیں‘کوگرفتار کیاگیاہے، تحقیقات ابتدائی مراحل میں ہے، جب ایس ایس پی صحافیوں کیساتھ بات کررہے تھے جوحسبِ روایت جموں نشین صحافی حضرات اُن کے منہ سے زبردستی روہنگیامسلمانوں کانام اُگلواناچاہتے تھے لیکن ایک ذمہ دارپولیس آفیسرجوضلع کے پولیس چیف ہیں‘نے انتہائی دانشمندانہ اندازمیں حقائق بیان کئے اور صاف کیاکہ روہنگیامسلمانوں نے کسی پرکوئی حملہ نہیں کیا،اس سے صاف ظاہرہوتاہے کہ حملہ نہیں بلکہ کسی معمولی بات پرتوتومیں میں نے مارپیٹ کارُخ اختیارکرلیا، اورنوجوانوں کے گرم خون میں اُبال آگیااور دھکامکی ہوگئی!لیکن پھرجوہنگامہ کھڑاکیاگیا، پولیس تھانہ تریکوٹہ نگرکی طرف ہرکوئی کوچ کرنے لگا،روہنگیامسلمانوں کی ملک بدری کیلئے مہم چلانے والی تمام سیاسی ودیگرتنظیموں کے لیڈران پولیس تھانے کے باہر جمع ہونے لگے اوربیان بازیاں شروع ہوگئیں،سوشل میڈیاپربھی خوب زہراُگلاجانے لگا،خیرجوبھی ہواصحافیوں کاسماج میں ملک میں اہم کردار ہوتاہے،وہ جمہوریت کے چوتھے ستون کے سپاہی ہوتے ہیں، ان کااحترام کیاجاناچاہئے،یہ الگ بات ہے کہ صحافیوں اوران کے چینلوں نے خود کوایک خاص سوچ کاغلام بناتے ہوئے صحافت کے اصولوں کودائوپہ لگادیاہے،صحافت کم اور سیاسی وفرقہ پرست جماعتوں؍تنظیموں کی نمائندگی زیادہ ہوتی جارہی ہے،اب کل کے واقعے پرجھوٹ کامنہ کالاہوایعنی روہنگیاکے آڑمیں مقامی مسلم بستی کوٹارگیٹ کرنے اور مقامی مسلم بستیوں کی آڑمیں روہنگیامسلمانوں کوٹارگیٹ کرنے کی کوششیں ٹھیک ویسی ثابت ہوئیں جیسے جھوٹ کے پائوں نہیں ہوتے، روہنگیامسلمان یہاں کے کوئی پشتنی باشندے نہیں، وہ مصیبت کے مارے یہاں پناہ لئے ہوئے ہیں،ان کی ملک بدری سے متعلق ملک کی عظیم عدالت سپریم کورٹ میں معاملہ زیرسماعت ہے،ملک کے قوانین ،عدلیہ اورمرکزی حکومت پہ اعتمادرکھناچاہئے،اب جموں کی مسلم بستیوں کوروہنگیائوں کاہمدردقراردیکرنفرت کے بیج بونے سے کیاحاصل ہوگا؟میڈیاکاایک مخصوص طبقہ ایک مخصوص سوچ کی ترجمانی کے بجائے صحافت کے اصولوں کی پاسداری کرے، مختلف طبقات کومتحدکرنے، پیارومحبت، بھائی چارے کومستحکم کرنے کاکام کرے، تقسیم وتفریق کاکام سیاسی روٹیاں سیکنے والوں کاشیوہ ہے، یہ صحافیوں کوشبہ نہیں دیتا۔مسلم بستیوں کے مکینوں کوروہنگیائوں کاہمدردقراردینے،قبائلی مسلمانوں کوناجائزقابضین قرار دینے سے نفرت اور تفریق ہی بڑھ سکتی ہے ، ریاست ، ملک اورجموں کابھلاہرگزنہیں ہوسکتا،ماناکہ روہنگیاغیرملکی ہیں لیکن گوجربکروال خانہ بدوش توہندوستانی ہیں، اور پکے ہندوستانی ہیں، ملک کی سلامتی سے جڑی سوراخ رساں اِدارے اس بات کی ضمانت دیتے ہیں کہ گوجربکروال سچے ہندوستانی ہیں، پھرانہیں نشانہ بنائے جانے کی وجہ صرف اور صرف انکامسلمان ہوناہے؟ انہیں بے دخل کرنے کے مطالبات کرنے سے بہترہے انسانیت کے ناطے اس اکیسویں صدی میں ان کیلئے بھی بہترزندگی کی وکالت کی جائے،ا نکی بازآبادکاری کی بات کی جائے، ان کیلئے کالونیاں بنائے جانے کی بات کی جائے، تاکہ جموں کی اقتصادی حالت کوسدھارنے میں یہ طبقہ بھی اپناکردار اداکرسکے، تعمیر ِ وطن میں ان کی صلاحیتیں بھی بروئے کار لائی جاسکیں۔جب علیحدگی پسندان کی زبوں حالی پرلب کشائی کرتی ہے تویہی منافرت پھیلانے والے عناصرگوجروں کے سچے ہندوستانی ہونے کی دہائی دیتے ہیں اورعلیحدگی پسندوں کی ان کیساتھ ہمدردی سے گھبراہٹ محسوس کرتے ہیں لیکن دوہرامعیارافسوسناک ہے،اپناتے بھی نہیں اورچھوڑبھی نہیں سکتے، یہ کیسی مجبوری میں پھنس گئے ہیں، اس مجبوری سے نکلنے کاایک ہی راستہ ہے اپنی سوچ کووسعت دیجئے، ہندو۔مسلم ۔سکھ۔عیسائی اتحادکوزندہ باد کہئے تبھی ہندوستان زندہ باد کے معنی سمجھ آئیں گے۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا