آصفہ قتل کیس ‘

0
52

چشم پوشی سے قاتلوں اور بدکاروں کے حوصلے بلند ہوگئے ہیں۔۔۔!

  • وادی میں جوظلم و تشددہے وہ اپنی جگہ پر لیکن اس طرح کی وارداتیں بھی پنپ رہی ہیں بلکہ کہنا یہ چاہئے کہ اپنے قدم جما رہی ہیں جو انتہائی تشویشناک ہیں ۔عام طور پر یہ خیال ہے کہ ایسی کسی بھی گھنائونی واردات میں گرفتاری میں وقت لگنے سے سمجھ لینا چاہئے کہ اس ضرور سلامتی دستوں کے اہلکار ملوث ہیں ۔کیونکہ ایسے کئی واقعات شاہد ہیں کہ جن جرائم میں عام جرائم پیشہ ملوث ہوتے ہیں پولس بغیر کسی دبائو کے ایک دو روز میں فعالیت کا ثبوت دیتے ہوئے مجرم کو قانون کے حوالے کردیتی ہے ۔ عصمت دری اور قتل کی وارداتوں میں دن بہ دن اضافہ ہونا یقینا تشویشناک ہے ۔اس سلسلے میں حکومت اور عوام دونوں کو نوٹس لینے کی ضرورت ہے ۔ایسے گھنائونے جرائم کے مرتکب ملزمین کو سخت سزائیں جیسے پھانسی دی جاتی تو آج ماحول اس قدر خراب نہیں ہوتا۔لیکن اس جانب سے چشم پوشی کا انجام ہی ہے کہ مجرموں اور بدکاروں کے حوصلے کافی بلند ہو گئے ہیں اور وہ معصوم بچیوں کیلئے خطرہ بن گئے ہیں ۔یہی سبب ہے کہ وادی میں بھی اس طرح کی وارداتیں رونما ہونے لگی ہیں ۔حال ہی میں آٹھ سالہ آصفہ نامی مسلم بچی سے بدفعلی کے بعد اس کے اس کے گھر والوں پر گویا قیامت ٹوٹ پڑی۔پولیس نے شکایت ملنے کے بعد بروقت کارروائی کرنے کی بجائے ٹال مٹولاور تساہلی سے کام لیا جو کہ اب ان کے کردار کا حصہ بن گیا ہے ۔ ایک طرف تو معصوم آصفہ کی موت اور اس کے ساتھ شیطان کو بھی شرمسار کردینے والا معاملہ پیش آیا اور دوسری جانب اب اس سانحہ پر بھی سیاست گرما گئی ہے ۔پولیں کی تساہلی اور کیس میں عدم دلچسپی کے سبب ایک طرف عوام ملزمین کو سخت سزا دینے کیلئے احتجاج کررہے ہیں تووہیں بی جے پی کے کارکنان ملزمین کو بچانے کیلئے احتجاج کررہے ہیں۔ملزم کی حمایت میں احتجاج کرنے والے ہندو ایکتا منچ کے افراد ہیں ۔یہ ایک شدت پسند گروہ ہے اور جیسا کہ سبھی اس بات سے واقف ہیں کہ ایسی کسی بھی ہندوئوں کی شدت پسندتنظیم کو بی جے پی کی سرپرستی اور حمایت حاصل ہوتی ہے ۔جہاں بی جے پی کھل کر سامنے نہیں آسکتی وہاں وہ ایسی تنظیموں کو آگے کردیتی ہے ۔ہندو شدت پسندوں کی جانب سے یہ احتجاج صرف اس لئے ہو رہا ہے کیوں کہ گرفتار ملزم کا نام دیپک کھجوریا ہے اور ایس پی او ہے ۔اس سے ہندو شدت پسندوں کی ذہنی دیوالیہ پن کا پتہ چلتا ہے کہ انہیں اقتدار مل جائے تو یہ کیا گل کھلاتے ہیں ۔یہ دعویٰ تو اچھی اور بہتر حکمرانی کا کرتے ہیں لیکن ان کی حکومت میں غریب ،پسماندہ ، مسلمان اور دلت کی کیا حالت ہوتی ہے اور آئندہ انہیں مزید قوت مل گئی تو کیا حالت کریں گے ۔کیا ایسی ذہنیت رکھنے والوں کو جو گھنائونے جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو مذہب کی عینک سے دیکھنے کے عادی ہوں انسان کہا جاسکتا ہے ؟جواب یقینی طور پر نفی میں ہوگا کہ ایسے لوگ انسانیت کا کلنک تو ہو سکتے ہیں انسان نہیں !واضح ہو کہ آٹھ سالہ معصوم بچی مسلمان ہی ایک پسماندہ طبقہ سے بھی تعلق رکھتی ہے ۔افسوس کا مقام یہ ہے کہ جو لوگ ایسے گھنائونے جرائم کے مرتکب کی محض اس بنیاد پر حمایت کررہے ہیں کہ متاثرہ بچی مسلمان اور ملزم ہندو ہے انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ وہ آگ سے کھیل رہے ہیں ۔ان کی جانب سے اس بنیاد پر کہ ملزم ہندو ہے حمایت کرکے اسے سزا سے بچا دیا تو جنسی درندہ کل ان کی ماں بہن کی کے ساتھ بھی یہی سلوک کرے گا ۔اس لئے مجرم کوصرف اس کے جرم کی پہچان سے جانا جائے اس کے مذہب سے نہیں ،آج اگرمسلم بچی کے ساتھ ایسا ہوا کل ہندو یا سکھ بچی کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے ۔یہ سانحہ قوم کا سانحہ ہے ۔اس پر سبھی مذاہب کے لوگوں کو ایک زبان ہو کر صف آرا ہو نا چاہئے اور ہر ممکن طریقہ سے مجرم کو اس کے بدکاری کے سبب سخت سے سخت سزائیں دلوانے میں مدد کیلئے ایک دوسرے کا ہاتھ تھامنا چاہئے ۔کاش ہماری انتظامیہ اور عدلیہ ایسے جنسی درندوں کو اسلام کے مطابق سزائے موت دے کر سعودی عرب جیسی مثال پیش کردیں تو بہت حد تک مجرم کے دلوں میں خوف پیدا ہو گا اور وہ جرم کرنے سے پہلے اس کے بارے میں سو بار سوچیں گے ۔ خواتین کے خلاف دیگر جرائم کی بڑھتی تعداد سے ہمیں ہوش کے ناخن لینا چاہئے کہ اس سے پہلے کہ وقت ہمارے ہاتھوں سے نکل جائے ہم سنجیدہ ہو کر معاشرے کو صحیح راہ پر چلانے کی کوشش کریں ۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا