نڈر

0
0

 

 

 

 

 

 

ایم۔یونس،کمرہٹی
(کولکاتا)

وہ لڑکا فلسطین جھنڈا اپنے کندھے پر لئے دیوانوں کی طرح بھاگا جا رہا تھا۔ اس کے پیچھے پچاسوں بچے بھی اسی گلی نما سڑک پر ساتھ ساتھ دوڑ رہے تھے۔ سب کے ماتھے پر سیاہ پٹی بندھی ہوئی تھی۔ کسی پر ’لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘ کسی پر ’فلسطین زندہ باد‘ لکھا ہوا تھا۔ وہ نڈر بچہ کا ناف سے اوپر کا جسم بالکل ننگا تھا۔ کمرپر سفید پائجامہ کا ستر تھا۔ وہ چیخ چیخ کر نعرہ لگا رہا تھا۔’ فلسطین کے مجاہدوں زندہ باد‘، ’ فلسطینی شہید بچے ، تمہیں یہ درجہ مبارک ہو۔۔۔۔۔مبارک ہو‘، سارے بچے اس ننھے میر کارواں کی آواز سے آواز ملا کر ایک ساتھ یہی نعرہ لگا رہے تھے۔بچوں کے اس انوکھا جلوس کو راستے پر کھڑے ہر مسلمان بھائی ، بہن مائیں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھ رہی تھیں۔ ایسا لگتا تھا کہ یہ جلوس پہاڑ کے سینے کو چیر کر نکلا ہو۔ یہ جنونی جلوس ابابیلوں کی طرح پنکھ پھیلائے اڑتا جا رہا تھا۔
بچوں کے اس پُر جوش جلوس کو دیکھ کر گلی، کوچوں میں کھڑے نوجوان چھوکروں کی اناکیوں کر طیش میں نہ آتی۔ اب یہ بچے آگے آگے ان کے پیچھے نوجوانوں کی جماعت شامل ہو گئی تھی۔ ’اللہ اکبر‘ کے نعروں سے یہ جلوس ہوائوں پر تیر رہا تھا۔ اس بڑھتے ہوئے جلوس میں طرح طرح کے نعرے بلند ہو رہے تھے۔ ’فسلطینی شہیدوں تمہیں یہ جام شہادت مبارک ہو‘، ’ العہلی ہسپتال کے شہیدوں تمہیں یہ جام شہادت مبارک ہو‘، ’ جبالیاکیمپ کے مظلوم شہیدوں تمہیں یہ جام شہادر مبارک ہو‘، ’ الفوجہ کیمپ کے شہیدوں تمہیں یہ شہادت مبارک ہو‘ ،’شہیدہ بنیلہ نوفل زندہ بعد۔۔۔زندہ باد‘ ان نعروں سے سارا فلک فگار بنا ہوا تھا۔ اس ننھے سے جلوس پر آسمان بھی خون کی بارش سے رو رہا تھا ۔ یہ جلتا ہوا سورج ان ننھے مجاہدوں کے جسم کو جھلسانے سے قاصر تھا۔ ان سب کے جسم سورج کی تپش کو بلا خوف نگلتا جا رہا تھا۔ یہ ننھے مجاہد ایک نہ پگھلنے والے لوہے کی طرح سخت اور نڈر تھے،۔ وہ قدم سے قدم ملائے راستے پر چلتے جا رہے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ ان کے اس مجاہدانہ بڑھتے ہوئے قدموں کے تلے کی زمین کو کھیچ کر غزہ کے میدان جنگ میں ڈال دے۔ وہ سب اپنے فلسطینی بھائیوں کے ساتھ اس ہولناک جنگ میں شریک ہونا چاہتے تھے۔ ان کے دلوں میں دشمنوں کو تہہ تیغ کرنے کا مصمم ارادہ جاگ اٹھا تھا۔ وہ اپنے دینی بھائیوں کو اس طرح قتل عام ہوتے ہوئے نہیں برداشت کرسکتے تھے۔ سب کی آنکھوں سے خون کے آنسو بہہ رہے تھے۔ اس سخت دھوپ میں نہ کسی کو پیاس لگ رہی تھی اور نہ کسی کے چہرے پر تھکاوٹ کا شائبہ تھا۔ وہ آبادی کے سارے راستے پر جلوس لئے چکر لگا رہے تھے۔ ان کی آنکھوں کے سامنے فلسطین کی قیامت خیز میدان جنگ کا منظر ناچ رہا تھا۔ اب ان کا جلوس نکڑ پر پہنچنے والا تھا جہاں بڑی شاہراہ ملتی تھی۔
وہ ننھا سپاہی اب بھی ایک بندوق بردار کی طرح شان سے جھنڈا کو اپنے کاندھا پر اسی طرح رکھا ہوا تھا۔ جیسے سمندر کے لہروں پر وھیل مچھلیاں ایک شایان شان بادشاہ کی طرح اپنی طاقتوں کا مظاہرہ پانی کی سطح آب پر اچھل اچھل کر کرتی ہیں۔ وہ بہادر نڈر لڑکا بڑی شاہراہ کے نکڑ پر اپنے جلوس کو روک دیا۔ وہ سب صیہونی درندوں کی دہشت گردی کی پُر زور مذمت کرنا چاہتے تھے جس کے خونی ہاتھوں سے ان تیس دنوں میں دس ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے تھے۔شہید ہونے والوں میں بچوں کی تعداد چار ہزار کے قریب اور خواتین کی تعداد ڈھائی ہزار سے بھی زیادہ ہے۔ وہ درندے آج بھی غزہ کی گھنی آبادی پر توپ کے گولے چھوڑ رہے تھے۔ وہ سب مسلمان دشمن ممالک کے خلاف ان کی سر زنش کرنا چاہتے تھے جو اس حیوان نما انسانی طاقتوں کا اندھا سپورٹ کر رہے تھے ۔جنہیں اس مظلوم فلسطینیوں کے قتل عام پر کوئی ترس نہیں کھارہا تھا۔ ساری دنیا کے انصاف و انسانیت پرست ممالک اس جنگ کو بند کرنے کی اپیل کر رہے تھے۔ مگر انتہا پسند طاقتیں، اپنی خون ریزی سے باز نہیں آرہی تھیں۔ہر روز مظلوم فلسطینیوں کے خون سے ہولی کھیلی جا رہی تھی۔ دنیا کی حالت اب تیسری عالمی جنگ کے پس پردہ پر آکھڑی ہوئی تھی۔ وہ جلوس بڑی شاہراہ کے موڑ پر آکھڑا ہوا تھا۔ اختتامی کاروائی کو انجام دینے کے لئے وہ لڑکا ایک معصوم شہید بچے کا علامتی کفن اپنے پائجامہ کی پاکٹ سے نکالا اور اسے جنازہ کی طرح سڑک پر رکھ دیا۔ جلوس میں رہ رہ کر پُر جوش نعرے بلند ہو رہے تھے۔ اتنے میں پولیس دستوں کا ایک ٹولا وہاں آپہنچا۔ پولیس والوں کے ہاتھوں میں ڈنڈے، جالی نما ڈھال اور آنسو گیس گولے تھے۔ انہوں نے جلوس کو چاروں طرف سے گھیر لیا۔ وہ قانون کے رکھوالے اپنے ہائنڈ مائیک سے اعلان کر رہے تھے۔ ’’ آپ سب اپنے گھروں کو واپس چلے جائیں، اس ملک میں آپ غیرقانونی کام کر رہے ہیں، یہاں کی سرکار کی طرف سے ایسے جلوس اور جلسوں پر پابندی عائد ہے، یہ فلسطین نہیں ہے، یہ ایک جمہوری ملک ہے، یہاں کے آئین اور قانون پر عمل کیجئے ورنہ آپ سب کو اسی وقت حراست میں لے لیا جائے گا، یہ سرکار کی طرف سے حکم نامہ ہے۔
اب یہ جلوس بچوں کے حوصلوں کو دیکھ کر ایک بڑی سیلابی بھیڑ میں تبدیل ہو چکی تھی۔ اس میں ہر درجہ کے عمر کے لوگ شامل ہو چکے تھے ۔ پولیس کے اعلان کے باوجود لوگ ان صیہونی اور فسطائی طاقتوں کے خلاف اپنے پُر جوش نعروں کا مظاہرے کرتے رہے۔ ہر طرف سے فلسطین زندہ باد۔۔۔۔فلسطین زندہ باد، کا نعرہ بلند ہو رہا تھا۔اتنے میں پولیس والے آپے سے باہر ہو گئے۔ اس نے اس مجاہد بچہ کے ہاتھوں سے جھنڈا چھین لیا۔ کچھ پولیس والوں نے کئی بچوں کے ماتھے سے پٹیاں بھی چھین لیں۔ علامتی کفن کو اٹھا کر جلوس سے باہر پھینک دیا۔ مگرجلوس کا رنگ اور بھی گہرا ہوتا گیا۔ پولیس اپنے غیض و غضب کی خصومت نکالنے پر اتر آئی۔ جلوس میں شریک ہر فرد پر ڈنڈوں کی بارش ہونے لگی۔ چند ساعتوںمیں جلوس تِر بتّر ہو گیا مگر نعرہ کی بازگشت اب بھی سنائی دے رہی تھی۔ وہ لڑکا جو ننگے بدن تھا۔ وہ جنون میں ایک پولیس والا کے سامنے ڈھیٹ کی طرح کھڑا ہو گیا۔ وہ پولیس والا صیہنیوں کی طرح ظالم تھا۔ اس نے بے رحمی سے بچہ کو ڈنڈے سے پیٹنا شروع کر دیا۔ وہ لڑکا اپنے ایمان اور عزم میں نڈر تھا۔ وہ مار کھاتا رہا۔
اس کا جذبہ ایمان یہی کہتا رہا’’میں فلسطین ہوں‘‘ ، میں اپنے ملک کی کھلی آزادی چاہتا ہوں، چاہے تم مجھے جتنا تباہ و برباد کردو۔ میری نسلوں کو ختم کر دو، پھر بھی میں زندہ رہوں گا اس لئے کہ میرے پاس اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا ایمان کی دولت ہے، جہاد کا عظیم خزانہ عامرہ ہے۔ جسے کوئی نہیں مٹا سکتا ہے سوائے اس باری تعالیٰ کہ جو سب کا مالک کل ہے۔ دوسری طرف فضا میں یہ عظیم نعرہ اب بھی ترشح تھا۔ مظلوم فلسطینیوں، تمہیں شہدا ہونا مبارک ہو۔۔۔۔تمہیں شہدا ہونا مبارک ہو
9903651585‘

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا