نوم چومسکی کے سیاسی افکار

0
0
محمد اکرام
(نئی دہلی)
موجودہ عہد کے عظیم دانشور، فلسفی، مورخ، ایک نڈر باغی سیاست داں اور جدید لسانیات کے بانی نوم چومسکی کے نام سے علم و ادب کا حلقہ مکمل طور پر واقف ہے۔ ادب اور سیاست دونوں میدانوں میں ان کی ایسی لازوال اور بیش بہا خدمات ہیں جن کا اعتراف بہرحال ضروری ہے۔ چومسکی کے نظریات اور افکار نے علمی اور تحقیقی دنیا کے کئی میدانوں کو متاثر ہی نہیں کیا بلکہ ایک انقلاب آفریں رخ دیا ہے۔
نوم چومسکی کا پورا نام ایورام نوم چومسکی ہے۔ 7 دسمبر 1928 کو امریکی شہر فلاڈیلفیا میں ان کی پیدائش ہوئی۔ چامسکی کے والد ولیم زیوچامسکی (William Zev Chomsky) عبرانی زبان کے عالم تھے، ماں ایلسی (Elsie Simonofsky) بھی تعلیم یافتہ خاتون تھیں۔ نوم چومسکی نے 1945 میں پنسلوانیا یونیورسٹی میں داخلہ لیا ، جہاں انھوں نے 1949 میں لسانیات میں بیچلر کی ڈگری  اور 1951 میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی۔ ایم اے میں ان کے مقالے کا عنوان”The Morphophonemics of Modern Hebrew” تھا۔  1955 میں ہیئتی تبدیلی کے تجزیاتی مطالعے (Transformational Analysis) جیسے موضوع پر مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔
نوم چومسکی کیلسانی نظریات جہاں پوری دنیا میں قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں وہیں ان کے سیاسی نظریات کو بھی بڑی اہمیت حاصل ہے۔
نوم چومسکی امریکی حکومت، اس کی خارجہ پالیسی ، سرمایہ دارانہ نظام اور میڈیا پر تنقید کی وجہ سے پوری دنیا میں معروف ہیں۔ امریکہ کی کمیونسٹ پارٹی میں انھیں کلیدی دانشور تسلیم کیا جاتا ہے۔ چامسکی نے حکمرانوں اور سرمایہ داروں کی ان تمام پالیسیوں پر اپنا سخت موقف درج کرایا جس میں عوام کے حقوق کا استحصال ہو۔ امریکہ کی ان بین الاقوامی پالیسیوں کو تو خاص طور پر نشانہ بنایا، جن کی وجہ سے کئی ممالک کو معاشی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ نوم چومسکی نے ویت نام میں امریکی حملے کو استعمار سے تعبیر کیا۔  انھوں نے ویت نام جنگ پر The Responsibility of Intellectuals(خرد مندوں کی ذمہ داری) اور For Reasons of State (اسباب ریاست  کے لیے) جیسی کتاب تصنیف کی، جس کے بعد چامسکی بین الاقوامی سطح پر میڈیا کے سخت ناقد اور سیاست کے ایک بڑے ماہر کے طور پر پہچانے جانے لگے۔ انگریزی کی مشہور ہندوستانی ادیبہ اوردانش ور محترمہ اروندھتی رائے نے چومسکی کی امریکی پالیسی کی تنقید کے متعلق اپنی رائے ظاہر کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ’’ چومسکی جیسا امریکی شہری ہی امریکہ کے ہر نوع کے غیراخلاقی اقدامات کی بہتر طریقے سے تنقید کر سکتا ہے۔ وہ اس بات کی پیش گوئی بھی کرتی ہیں کہ جب امریکہ کا زوال ہوجائے گا تب بھی چومسکی کاعلمی کارنامہ اپنی تابناکی کے ساتھ موجود ہوگا۔‘‘   (نوم چومسکی کی کتاب ’فور ریزنس آف اسٹیٹ‘ ، معراج رعنا، موشوعہ، ایک روزن، 31 اکتوبر 2017)
نوم چومسکی خود کو بنیادی طور پر Radical Anarchistاور Libertarian مانتے ہیں۔ چامسکی نیویارک آمد کے دوران یاڈیش (Yiddish) انارکسٹ سے متعارف ہوئے۔ چومسکی نے روڈالف راکر (Rudolf Rocker)کی تصنیف (The tragedy of Spain) کا کم عمری میں مطالعہ کیا تھا جنھوں نے انارکسٹ (انتشاریت) اور کلاسیک ازم کے درمیان تعلق کو متعارف کروایا۔ اس ضمن میں دوسرے سیاسی مفکرین جن کو نوم چومسکی نے اپنے مطالعے کا محور بنایا ان میںانارکسٹ Diego Abad de Santillan جمہوری اشتراکیت پسند جارج آرویل (Georg Orwell)، برٹرنڈرسل (Bertrand Russell) اور ڈوائٹ میکڈونلڈ (Dwight Mocdonald) شامل تھے۔ ان کی تحریروں سے چومسکی اس حد تک متاثر ہوئے کہ انھیں کہنا پڑا کہ انارکسٹ معاشرے کی ضرورت ہیں۔
نوم چامسکی فرد کی آزادی میں مداخلت کو قطعی برداشت نہیں کرتے۔ وہ چاہتے ہیں کہ خطہ ارض پر رہنے والے انسان  اپنے تمام حقوق کے تئیں آزاد وخود مختار رہیں۔ انھوں نے دنیا کے کئی ممالک کا سفر کیا۔جہاں بھی انھیں محسوس ہوا کہ عوام کو حکومت کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے پریشانیاں لاحق ہیں تو انھیں متنبہ کرنے کے ساتھ یہ ذہن نشیں کرایا کہ کوئی ملک اسی وقت ترقی یافتہ ہوسکتا ہے جب وہاں کی رعایا خوش حال ہو۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ چومسکی کے الفاظ اہم نہیں ہوتے بلکہ اہم ہوتے ہیں وہ مسائل جو دنیا کے مختلف ممالک سے متعلق ہوتے ہیں، اور وہی مسائل ان کی تحریر و تقریر کے بنیادی موضوعات ہوتے ہیں۔ 2020 میں پاکستان کی کراچی یونیورسٹی میں ان کے دیے لیکچر کو وہاں کی حکومت اور عوام کئی دہائیوں تک یاد رکھے گی۔ جب انھوں نے ان کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھتے ہوئے حکومت اور مذہب کے ٹھیکیداروں پر سخت تنقید کی اور انھیں ان کے تابناک ماضی کی یاد دلائی:
پاکستان سائنس اور سائنسی فکر سے دور ہٹتا جارہا ہے اور وہ توہمات کی زد میں آچکا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ پاکستان ہی تھا جہاں نوبل انعام پانے والے سائنس داں پیدا ہورہے تھے اور اب ان کی جگہ توہمات نے لے لی ہے۔‘‘ (روزنامہ ’دنیا‘ 12 دسمبر 2020، کالم: نوم چومسکی کی باتیں: مسعود اشعر)
نوم چومسکی ویتنام پر امریکہ کے بیجا ظلم اور حملے کے سخت خلاف تھے۔  چومسکی کے مطابق ’’ویت نام کے اندرونی معاملات میں امریکہ کی مداخلت کی بنیاد وہاں کے سیاسی عدم استحکام کودور کرنا نہیں تھا بلکہ اس کا اصل محرک کمیونزم کی مخالفت اور آزادی عوام کے نام پر امریکی طرزِ جمہوریت کی بحالی تھی۔ ایک ایساجمہوری نظام جس کے قیام کے لیے لاکھوں لوگوں کو ہلاک کردیاگیا اور فصلیں اورصنعتیں برباد کردی گئیں۔ ‘‘ (نوم چومسکی کی کتاب ’فور ریزنس آف اسٹیٹ‘ ، معراج رعنا، موشوعہ، ایک روزن، 31 اکتوبر 2017)
ویتنام پر امریکی حملے سے نوم چومسکی اس قدر دل برداشتہ ہوئے کہ انھوں نے ویتنام کی حمایت میں آکسفورڈ یونیورسٹی میں جان لاک میموریل لکچرپیش کیا۔ اسے سننے کے لیے اساتذہ اور طلبا کی ایک بڑی تعداد اکٹھا ہوئی۔ دانشوران کا کہنا ہے کہ ایسی جم غفیر برٹرنڈرسل کے بعد پہلی بار کسی کا لیکچر سننے کے لیے جمع ہوئی تھی۔ اس لیکچر کا مقصد عوام کا اعتبار حاصل کرنا تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ ویتنام پر امریکہ کی بربریت کے خلاف لوگ ان کے ساتھ آئیں، شاید اس کے ذریعے کوئی مثبت نتیجہ سامنے آئے۔ چومسکی اپنے ملک امریکہ کی استعماریت پر ہمیشہ سوال اٹھاتے رہے ہیں۔ کبھی دبی آواز میں، تو کبھی ببانگ دہل۔ پہلے تو انھوں نے اس جنگ کے خلاف آواز بلند کی مگر جب بات نہیں بنی تو عملی طور پر مزاحمتی تحریکوں اور احتجاجی ریلیوں میں شریک ہوئے۔ امریکی اسٹیبلشمنٹ کے فیصلوں کو چیلنج کرنے کی خاطر انھیں جیل بھی جانا پڑا، پھر بھی وہ حق کو حق اور باطل کو باطل کہتے رہے۔
ان کا یہ مشہور جملہ بھلا کون بھول سکتا ہے کہ ’’میں جب بھی واشنگٹن آتا ہوں مجھے یہاں آنسو گیس کی بو آنے لگتی ہے‘‘نوم چومسکی کا ماننا ہے کہ ہر ملک کے اپنے اصول، اپنے قاعدے و ضوابط اور اپنی پالیسیاں ہوتی ہیں، اگر وہاں کا حکمراں ان کی توقعات کے برعکس کرتا ہے تو اسے سبق سکھانے کے لیے وہاں کی عوام ہی کافی ہے، کسی دوسرے ملک کی بے جا مداخلت کو وہ قطعی برداشت نہیں کرتے ۔ کاش دنیا کو آئینہ دکھانے والے نام نہاد حکمراں یہ سمجھ پاتے تو آج کئی ممالک ان کے عتاب سے بچ جاتے اور بے گناہوں، معصوم انسانو ںکی جانیں نہ جاتیں۔
 نوم چومسکی کا نظریہمیڈیا خاص کر امریکن میڈیا کے خلاف رہا ہے، ان کے خیال میں میڈیا اپنی ذمے داریوں سے بھاگ رہا ہے، وہ کسی نہ کسی طرح حکومت اور کارپوریٹ محکمے کا غلام بن گیا ہے
۔ نوم چومسکی نے میڈیا کے اس کردار پر بہت جم کر لکھا ہے۔ وہ مسلسل امریکہ کی قومی میڈیا کو اپنی شدید تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں اور اس موضوع پر ان کی کئی کتابیں بھی منظر عام پر آ چکی ہیں۔ چومسکی کے خیال میں ’’امریکن میڈیا اشرافیہ کا ترجمان ہے، سی بی ایس اور نیو یارک ٹائمز وغیرہ ملک کے بڑے کارپوریشنوں میں سے ہیں۔ ان کے لیے امریکن عوام اتنے اہم نہیں جتنے ’’جنرل موٹرز‘ وغیرہ اہم ہیں۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ امریکہ میں عوام اور میڈیا بالکل متضاد سمتوں میں چلتے ہیں۔  (بحوالہ: ماہنامہ ’افکارِ ملی‘ دہلی، شمارہ: جون 2008)
نوم چومسکی نے امریکہ اور برطانیہ کی خارجہ پالیسیوں اورچالبازیوں پر کھل کر بات کی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ کئی صدیوں سے برطانیہ نے اپنی مکاریوں اور چالبازیوں سے کتنے ممالک پر حکمرانی کی، اور وہاں کی بھولی بھالی جنتا کا اعتماد حاصل کرنے کی کوشش کی۔ ادھر کئی دہائیوں سے امریکہ بھی یہی کرتا آرہا ہے۔ وہ اپنے فیصلے کمزور ممالک پر زبردستی تھوپنے کی کوشش کرتا رہا ہے۔ امریکہ کی سیاسی روایت یہ بھی رہی ہے کہ امریکہ یورپ سے الگ تھلگ رہ کر ’جزیرۂ قوت‘ بنا رہے۔  ایشیا اور یورپ کے اتحاد کے تئیں بھی امریکہ کے نظریات منفی ہیں۔ امریکہ مانتا ہے کہ اگر ایشیا اور یورپ متحد ہوگئے تو امریکہ کی طاقت کمزور پڑ جائے گی۔ اسی طرح برطانیہ نے بھی اپنی سیاسی حکمت عملی کے تحت یورپ سے دوری بنائے رکھی، برطانیہ کی ہمیشہ یہی کوشش رہی ہے اور رہتی ہے کہ کسی طرح یورپ کے آپسی اتحاد کو روکے۔ اگر یورپ متحد ہوگیا تو برطانیہ کی طاقت بے معنی ہوجائے گی۔
امریکہ اور برطانیہ نے اقوام متحدہ (UNO) جیسی طاقت کو بھی بے معنی کردیا ہے۔ اقوام متحدہ اگر کسی ملک کے لیے کوئی اہم کام کرنا چاہے بھی، تو امریکہ اور برطانیہ کی مرضی کے بغیر ممکن نہیں۔ دراصل سلامتی کونسل میں جو پانچ طاقتیں امریکہ، برطانیہ، فرانس، روس اور چین ہیں اگر ان میں کسی نے بھی ویٹو کردیا تو وہ فیصلہ نافذ نہیں ہوگا۔ ویسے تو سلامتی کونسل میں 15 سیٹیںہوتی ہیں، مگر مذکورہ پانچ مستقل ممبرا ن ہی اہم ہوتے ہیں۔بقیہ 10 غیرمستقل ممبران کا کوئی خاص کردار نہیں ہوتا ہے ۔نوم چومسکی اس تعلق کہتے ہیں  کہ ’’بڑی طاقتیں سلامتی کونسل یا ویٹو پاور کو ختم ہونے نہیں دیں گی کیونکہ وہ اپنے معاملات میں کوئی مداخلت برداشت نہیں کرتیں۔ مثلاً امریکہ کی مثال لیجیے جو 1970سے لے کر اب تک سلامتی کونسل کی قرار دادوں کو ویٹو کرنے میں سب سے آگے رہا ہے۔ اقوام متحدہ کوئی اقدام کرنا چاہے اور امریکہ اسے پسند نہ کرتا ہو تو امریکہ اس سے سرد مہری برتے گا، نتیجہ یہ ہو گا کہ وہ کام نہ ہو سکے گا کہ اقوام متحدہ خود سے کچھ نہیں کر سکتا۔‘‘
(بحوالہ: ماہنامہ ’افکارِ ملی‘ دہلی، شمارہ: جون 2008)
ویٹو کے سلسلے میں امریکہ کے ذریعے اپنی ناجائز طاقت کے استعمال پر 1986  میں اس کے خلاف ایک قانون بھی پاس ہوا۔ اس کا مقصد نکاراگوا کے خلاف ناجائز معاشی جنگ بندی کا خاتمہ تھا۔
مگر ورلڈ کورٹ کے ذریعے پاس کرائے اس قانون کو بے معنی کرنے کے لیے امریکہ مختلف ہتھکنڈے استعمال کرتا رہا۔محض ایک ہفتہ بعد ہی امریکی کانگریس نے نکارا گوا میں (امریکہ کے حمایت یافتہ) باغیوں کی امداد میں مزید 100 ملین ڈالر کا اضافہ کر دیا اور ایک بار پھر امریکہ کا میڈیا نیو یارک ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ اور بین الاقوامی قانون کے بڑے بڑے ماہرین اتفاق رائے سے یہ راگ الاپنے لگے کہ ورلڈ کورٹ کو کوئی اختیار نہیں ہے کہ وہ امریکہ کے خلاف فیصلہ دے، ایسا کرکے اس نے خود اپنی امیج کو مجروح کیا ہے۔ اس لیے ورلڈ کورٹ کے اس فیصلے پر عمل کی قطعا ضرورت نہیں ہے۔ امریکہ اپنی بادشاہت قائم کرنے کے لیے ہمیشہ سے پروپیگنڈے پھیلاتا رہا ہے، اس کا یہ عمل آج بھی جاری ہے۔
ادھر کچھ دہائیوں میں امریکہ اور اس کے اتحادی اپنے جھوٹے پروپیگنڈے کے ذریعے کئی ممالک کونشانہ بنا چکے ہیں۔ ان ممالک میں ان کے ذریعے تباہی اور بربادی کے نقوش آج بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔
نوم چومسکی ایسے موقعے پر خاموش نہیں بیٹھتے ہیں بلکہ امریکی جابریت اور بربریت پر اپنے سخت موقف کا اظہار کرتے ہیں۔ شاید اسی لییامریکہ کی سیاست میں نوم چومسکی آج بھی ایک متحرک دانشور کے طور پر جانے اور پہچانے جاتے ہیں۔  نوم چومسکی کایہ خیال کہ ’’انسان فطرتاً تخلیقی حیوان ہے‘‘ ان کے لسانی اصولوں کے مطابق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے یہاں لسانیاتی اور سیاسی دونوں میدان میں ایک نقطۂ اشتراک نظر آتا ہے۔
نوم چومسکی لسانیات، سیاست کے علاوہ کئی اور میدانوں میں اپنی بیش بہا خدمات کی وجہ سے عالمگیر شہرت کے حامل بن چکے ہیں۔ کئی ممالک میں ان کے دیے گئے لیکچرز سامعین کئی دہائیوں تک یاد رکھیں گے۔ نوم چومسکی کے لازوال کارناموں کے عوض دنیا کی کئی مشہور یونیورسٹیز، اداروں اور تنظیموں نے انھیں اعلیٰ اعزازات و انعامات سے بھی نوازا ہے۔ کئی ممالک میں ان کے نام پرانسٹی ٹیوٹ اور ادارے بھی قائم ہیں۔ دہلی کے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ایک کامپلیکس Noam Chomsky Complexکے نام  سے منسوب ہے۔ نوم چومسکی اب 94برس کے ہوچکے ہیں۔ مگر آج بھی ان کا علمی اور احتجاجی سفر اپنی توانائی و تابانی کے ساتھ جاری ہے۔ واقعی نوم چومسکی آج کی دوغلی اور مصنوعی دنیا میں سچائی کا چہرہ ہیں۔ ان کا صلح و آشتی اور بھائی چارے کا پیغام کمزوروں اور مجبوروں کے لیے کسی اکسیر سے کم نہیں۔ مجھے امید ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ان کی قدر و منزلت میں مزید اضافہ ہوگا۔
FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا