نفرت انگیز اور فرقہ وارانہ سیاست ملک کی بربادی کی اہم وجہ۔ سنجے سنگھ

0
0

یو این آئی

نئی دہلی٭// نفرت انگیز اور فرقہ وارانہ سیاست کو ملک کی بربادی کی وجہ قرار دیتے ہوئے عام آدمی پارٹی کے رکن پارلیمنٹ راجیہ سبھا سنجے سنگھ نے کہاکہ اگر یہی فرقہ وارانہ اور نفرت انگیز جاری رہی تو ملک کو تباہی سے کوئی نہیں بچاسکتا۔ کل شام یہاں منعقدہ جیوتی باپھولے کی 129ویں برسی پر منعقدہ ایک پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے یہ بات کہی۔انہوں نے موجودہ سیاسی پس منظر کی اشارہ کرتے ہوئے کہاکہ مہاتما جیوتی با پھولے نے سماج میں عدم مساوات، چھوا چھوت، سخت گیری اور سب کو یکساں احترام کے لئے آواز اٹھائی تھی۔ ہمیں اس فلسفے کو نہ صرف زندہ کرنا ہے بلکہ موجودہ سماجی تانے بانے کو پٹری پر لانے کے لئے اس پرعمل کرنا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ جو لوگ یہاں جمع ہوئے ہیں وہ ایک آواز ہیں اور یہ آواز معاشرے میں انقلاب پربا کرے گی۔ مسٹر سنجے سنگھ نے کہاکہ ملک اور سماج کو سخت گیریت اور انتہا پسندانہ سوچ نے برباد کیا ہے اور انہوں نے تمام شرکاء سے یہ عہد کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہاکہ ہمیں اپنے ملک اور اپنے سماج میں موجود سخت گیریت اور انتہا پسندی کے خلاف ہمیں میدان میں اترنا ہوگا خواہ وہ انتہا پسندی اپنے فرقہ میں ہی کیوں نہ ہو۔مشہور سماجی کارکن اور لاء کالج لکھنو کے اسسٹنٹ پروفیسر عبدالحفیظ گاندھی نے جیوتی باپھولے کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ سماجی ناآہنگی اور عدم مساوات کے خلاف جنگ چھیڑنے والے جیوتی با پھولے نے سب سے پہلے پسماندہ اور نچلے طبقے کے خلاف انگریزی حکومت سے ریزرویشن کا مطالبہ کیا تھا اور اس کے لئے لڑائی بھی لڑی تھی۔ انہوں نے کہاکہ اگرچہ انگریزی حکومت نے جیوتی با پھولے کی مانگ ٹکرادی تھی اس کے باوجود ان کی جدوجہد جاری رہی تھی جس کانتیجہ آزادی کے ریزرویشن کی شکل آیا۔اے ایم یو اسٹوڈینٹ یونین کے سابق صدر نے کہا کہ جیوباپھولے کی تعلیمی کوشش کبھی بارآور نہیں ہوتی اگر عثمان شیخ اور فاطمہ شیخ نے اپنی زمین اور تن دھن سے مدد نہ کی ہوتی۔ ان کی تعلیمی خدمات کو ناقابل فراموش قرار دیتے ہوئے مسٹر گاندھی نے کہاکہ اس دور میں جب کہ تعلیم کا تصور عام نہیں تھا خاص طور پر خواتین کی تعلیم کا، اس دور میں لڑکیوں کے لئے اسکول کھولنا بہت بڑا کارنامہ تھا۔ انہوں نے کہاکہ موجودہ حکومت پر حملہ کرتے ہوئے کہاکہ جامعہ ملیہ، اسلامیہ اور جواہر لال نہرو میں جو کچھ ہورہا ہے ، اس کا ایک ہی مقصد ہے کہ غریب کے بچے تعلیم حاصل نہ کرسکیں۔ نیوسوسیو اکنومک ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ کے چیرمین اور اس تقریب کے منتظم محمد کیف نے موجودہ دور میں جیوتی با پھولے کی اہمیت اور معنویت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ معاشرے میں بڑے پیمانے پر موجود عدم مساوات کو ختم کرنے کے لئے ہمیں جیوتی با پھولے کے نظریات کو اپنانا چاہئے ۔ انہوں نے کہاکہ ان کا مقصد اس طرح کے پروگرام کرنے کا یہ ہے کہ ہم اپنے ملک کے جدید معمارکو یاد کریں اورنئی نسل کو ان کارنامے سے آگاہ کرسکیں۔جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر ویرامنی نے ملک کے سرمایہ کاروں کے ہاتھوں میں جانے کا اشارہ کرتے ہوئے کہاکہ اس وقت دو کے ہاتھ کے ملک کا 40 فیصد جی ڈی پی ہے اوراس میں کسی طرح کا مساوات نہیں ہے ۔ سماجی کارکن اقبال احمد خاں نے کہاکہ جن لوگوں نے تعلیمی میدان میں کام کئے ہیں اس طرح کے حالات کم و بیش سب کے ساتھ پیش آچکے ہیں لیکن اسی میں راستہ نکلتا ہے ۔دہلی کے کونسلر آل اقبال نے اس موقع پر کہا کہ جیوتی با پھولے کے نظریہ پر دس فیصد پر عمل کیا جائے گا تو معاشرے کو بہتر بنایا جاسکتا ہے اور ہمیں اس نظریات کے خلاف لڑنا ہوگا جو ملک پر حاوی ہے ۔سروجنی نائیڈو ویمن اسٹڈییز کی ایوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر فردوس عظمت صدیقی نے ہندوستانی مسلمانوں میں عدم مساوات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں میں مساوات صرف مسجد تک محدود ہے اور مسجد باہر نکلتے ہی سب سید، پٹھان، شیخ،انصاری اور دیگر ذات پات ہوجاتے ہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے کہاکہ مسلمانوں کے پاس لیڈر نہیں ہیں جو ان کی رہنمائی کرسکے ۔انکم ٹیکس کمشنر اور بہوجن سمیک سنگھٹن کی قومی صدر محترمہ پریتا ہرت نے دعوی کیا کہ سب سے پہلے دلت لفظ جیوتی با بھولے نے اختیار کیا گیا تھا، جس کے معنی ٹوٹا ہوا، بکھرا ہوا،سمجھا گیا۔انہوں نے کہاکہ خواتین میں تعلیمی روشنی پھیلانے والے انگریزی مشنری کے بعد جیوتی با پھولے ہی تھے ۔ انہوں نے کہاکہ ان کے خیالات اور سوچ کتنی اس وقت کتنی بلند تھی کہ انہوں نے تعلیم کے توسط سے سماج کو بدلنے کی ٹھانی۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا