ریتیکا
گڑوڑ، اتراکھنڈ
اکیسویں صدی کو سائنس اور ٹیکنالوجی کا دور کہا جاتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود کچھ مسائل ایسے ہیں جو آج بھی انسانی تہذیب کے لیے ایک بدنما داغ سے کم نہیں ہیں۔ اس میں سب سے بڑا مسئلہ نسل پرستی کا ہے۔ امریکہ اور یورپ جیسے ترقی یافتہ ممالک بھی چمڑی اور رنگ کی بنیاد پر انسانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کی تنگ نظری سے آزاد نہیں ہو سکے۔ یہ سوچ اور امتیاز ہندوستان میں بھی نظر آتا ہے ۔خاص طور پر ملک کے بیشتر دیہی علاقوں میں ذات پات، برادری، رنگ اور چمڑی کی بنیاد پر امتیاز برتا جاتا ہے۔ حالانکہ ہندوستان کے آئین میں اس کے خلاف سخت قوانین بنائے گئے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود رنگ کی بنیاد پر امتیازی سلوک ختم نہیں ہوا ہے۔ اس کا سب سے زیادہ منفی اثر نوعمر لڑکیوں کی زندگیوں پر پڑتا ہے، جن کے ساتھ روزمرہ کی زندگی میں مردوں کے مقابلے بہت زیادہ امتیاز برتا جاتا ہے۔اس کی ایک مثال اتراکھنڈ کے باگیشور ضلع میں واقع گروڈ بلاک کا چورسؤ گاؤں ہے۔ جہاں نوعمر لڑکیاں اور خواتین نسل پرستی کے ظلم سے پریشان ہیں۔ اس گاؤں کی مجموعی آبادی 3403 افراد پر مشتمل ہے۔ اس میں درج فہرست ذات برادری کی سب سے زیادہ تعداد ہے۔ نسل پرستی سے پریشان، گاؤں کی ایک 15 سالہ نوعمر کماری ونیتا آریہ، جو 10ویں جماعت کی طالبہ ہے، کہتی ہیں کہ سیاہ فام لوگوں کو ہمیشہ نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ میں خود محسوس کرتی ہوں کہ میری سیاہ رنگت کی وجہ سے لوگوں نے مجھے انسان سمجھنا چھوڑ دیا ہے۔ جبکہ میں بھی انسان ہوں۔ میرا دل بھی ہے اور جذبات بھی۔ مجھے بھی دکھ ہوتا ہے جب لوگ مجھے میرے ٹیلنٹ سے نہیں بلکہ میرے رنگ سے پہچانتے ہیں۔ جب میرا موازنہ سفید فام لڑکیوں سے کیا جاتا ہے تو مجھے بہت تکلیف ہوتی ہے۔نویں جماعت میں پڑھنے والے ایک اور نوجوان گنو کا کہنا ہے کہ سیاہ رنگت ہماری زندگی میں ایک لعنت کی طرح بن گئی ہے کیونکہ میری رنگت دوسری لڑکیوں جیسی نہیں ہے اور یہاں سیاہ رنگت والے لوگوں کو خوبصورت نہیں سمجھا جاتا۔ اگر وہ اپنی پسند کا کوئی لباس پہننا چاہتی ہے تو ہر کوئی اس کی سیاہ رنگت کی وجہ سے اس کا مذاق اڑانے لگتا ہے۔ جس کی وجہ سے ہم احساس کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ہم ذہنی طور پر اتنے پریشان ہو جاتے ہیں کہ ہم اپنی صلاحیتوں کا مکمل اظہار نہیں کر پاتے۔
گاؤں کی ایک خاتون 55 سالہ روشننی دیوی کا کہنا ہے کہ بچپن سے ہی میری رنگت بہت سیاہ تھی۔ جس کی وجہ سے میں سب کے درمیان مذاق بن گئی تھی۔ا سکول سے لے کر گھر والوں تک میرا مذاق اڑایا کرتے تھے۔ جس کی وجہ سے میں ہمیشہ ذہنی دباؤ میں رہتی تھی۔ 65 سالہ ریٹائرڈ خاتون وملا دیوی کا کہنا ہے کہ میں نے اپنی زندگی میں ایسی بہت سی تبدیلیاں دیکھی ہیں اور بہت قریب سے محسوس بھی کی ہیں، جہاں لڑکیوں اور خاص طور پر بہوؤں کو نسل پرستی کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ میں نے اپنی ملازمت کے دوران ایسے کئی کیسز دیکھے ہیں جن میں والدین اپنی لڑکی کو صرف اس لیے بھاری جہیز دیتے ہیں کہ ان کی بیٹی کا رنگ سیاہ ہے۔ جبکہ اگر کسی لڑکے کی رنگت اتنی سیاہ ہو تو معاشرے کو اس سے کوئی پریشانی نہیں ہوتی ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ رنگ کی بنیاد پر لڑکیوں کو ہی کیوں ہراساں کیا جاتا ہے؟ بھونا دیوی کہتی ہیں کہ آج بھی دیہی معاشرے میں گورے رنگ کے لوگوں کو سیاہ لوگوں سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ لوگوں کی یہ سوچ ہوتی ہے کہ گوری رنگت والے لوگ نہ صرف سیاہ جلد والوں کے مقابلے خوبصورت نظر آتے ہیں بلکہ ان میں زیادہ ٹیلنٹ بھی ہوتا ہے۔ جبکہ یہ سراسر بے بنیاد سوچ ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ سیاہ رنگت کی وجہ سے میری شادی میں کئی مسائل تھے۔ شادی کے بعد مجھے اپنی رنگت کی وجہ سے سسرال میں بہت طعنے سننے پڑے۔ آج مجھے ڈر ہے کہ میری بیٹی کی سیاہ رنگت کی وجہ سے اسے مستقبل میں معاشرے میں امتیازی سلوک کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔
اس حوالے سے سماجی کارکن نیلم گرانڈی کا کہنا ہے کہ ہندوستان کے دیہی معاشرے میں آج بھی نسل پرستی ایک بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے۔ اگر نسل پرستی اور صنفی امتیاز کو ایک ساتھ دیکھا جائے تو دونوں برابر ہیں۔ لڑکیاں ان دونوں کا شکار ہوتی ہیں۔ لڑکے کی رنگت بہت سیاہ ہو تو بھی گھر اور معاشرے میں کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن یہ چیزیں لڑکی کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ بن جاتی ہیں۔ اسے لوگوں میں ہنسی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ یہ معاشرے کی تنگ نظری کی عکاسی کرتا ہے، جس سے کنارہ کشی کی ضرورت ہے۔ یہ نسل پرستی کی پالیسی انسانی وسائل کو نقصان پہنچا کر بطور معاشرہ ہمیں کمزور کرتی ہے۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اس سوچ کو ترک کریں تاکہ مستقبل میں ایک ایسا ترقی یافتہ معاشرہ تشکیل دیا جا سکے جہاں رنگ و جنس سے بالاتر ہو کر صرف ٹیلنٹ کا احترام کیا جائے۔ ہندوستان کی صدر محترمہ دروپدی مرمو اور امریکہ کی نائب صدر کملا ہیرس اس کی سب سے بڑی مثال ہیں۔ (چرخہ فیچر)