نابالغ بھی نشے کی لت کا شکار ہو رہے ہیں

0
0
بھاونا راول
گڑوڑ، اتراکھنڈ
ؔ”میرے اسکول کے کچھ لڑکے اکثر نشے میں سکول آتے ہیں اور اپنے ساتھ کوئی نشہ آور چیز بھی لا کر دوسرے لڑکوں کو دیتے ہیں، جب ٹیچرز انہیں سمجھاتے ہیں اور پڑھائی کے لیے کہتے ہیں تو وہ ان کی بات بھی نہیں مانتے۔ اکثر وہ ٹیچر سے دھمکی آمیز الفاظ میں بات کرتے ہیں۔ اس وجہ سے ہمیں بہت ڈر لگتا ہے۔ بہت سی لڑکیوں کے والدین انہیں اسکول جانے کی اجازت نہیں دیتے اور گھر پر ہی رہنے کو کہتے ہیں۔لیکن ان کی اس حرکت سے پورے اسکول میں خوف و ہراس کا ماحول ہے۔ہمیں اس بات کا خدثہ ہے کہ ان کی یہ بڑی حرکت اسکول کے دوسرے بچوں کو متاثر کرنا شروع کر سکتی ہیں۔“ یہ بات 11 ویں کلاس میں پڑھنے والی 17 سالہ انیتا (نام تبدیل) کا ہے، جو اتراکھنڈ کے دور دراز کے گنی گاؤں کی رہنے والی ہے۔نہ صرف اسکول بلکہ انیتا کے گاؤں کے اندر بھی روزانہ کئی بچے، نوجوان اور بوڑھے لوگ کسی نہ کسی طرح کے نشے کی لت میں مبتلا ہوتے ہیں۔ جس کے بعد ان کا گھر میں جھگڑا اور لڑائی بھی ہو جاتی ہے۔ یہ صرف ایک انیتا کے گاؤں کی حقیقت نہیں ہے، بلکہ اتراکھنڈ کے کئی گاؤں ایسے ہیں جہاں نشہ عام ہو گئی ہے اور اب یہ آہستہ آہستہ نابالغ بچوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے۔ اسی گاؤں کی44 سالہ دیوکی (نام بدلا ہوا) کہتی ہیں،”جب ہمارے لڑکے اسکول جاتے تھے تو ہمیں امید تھی کہ وہ تعلیم حاصل کر کے کچھ بنیں گے، لیکن ایسا نہیں ہو رہا ہے۔ وہ اپنا مستقبل منشیات میں برباد کر رہے ہیں۔ ان کی زندگیاں برباد کر رہے ہیں۔ ماحول بھی خراب ہو رہا ہے، اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو وہ کیا پڑھیں گے اور انہیں روزگار کیسے ملے گا؟“دیوکی کی طرح، ایک اور خاتون، رادھا (نام تبدیل) کہتی ہیں،”میں نہیں جانتی کہ میرا بیٹا اپنے اسکول کے دنوں سے ہی منشیات کا عادی کیسے ہو گیا؟اس کی وجہ سے اس نے آہستہ آہستہ اپنی پڑھائی چھوڑ دی۔ اب وہ کام پر جاتا ہے۔ لیکن وہ ہر روز نشے میں گھر آتا ہے، اس لیے ہم اس بری عادت سے چھٹکارا پانے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔“
گنی گاؤں اتراکھنڈکے باگیشور ضلع سے 54 کلومیٹر اور گروڈ بلاک سے 32 کلومیٹر کے فاصلے پر خوبصورت پہاڑوں کے درمیان واقع ہے۔ بلاک میں درج اعداد و شمار کے مطابق یہاں کی آبادی تقریباً 1746 ہے۔ 2011 کی مردم شماری کے مطابق، اعلیٰ ذاتوں کے غلبہ والے اس گاؤں میں 55 فیصد مرد اور تقریباً 45 فیصد خواتین خواندہ ہیں۔ یہاں نہ صرف نوجوان نسل بلکہ بچے بھی منشیات کی زد سے نہیں بچ پائے ہیں۔وہ اب ا سکول جانے اور تعلیم حاصل کرنے کے بجائے طرح طرح کی نشہ کرنے لگے ہیں۔جس سے ان کی پڑھائی متاثر ہو رہی ہے۔ اس حوالے سے 55 سالہ مالتی دیوی (نام تبدیل) کا کہنا ہے کہ ”پہلے اس کا شوہر اس برائی میں ملوث تھا اور گھر آنے کے بعد اسے مارتا تھا، جس کی وجہ سے گھر کا ماحول ہمیشہ کشیدہ رہتا تھا۔ اب میرے بیٹے بھی ا سکول جانے کے نام پر نشہ کرنے لگے ہیں۔ میں نے اسے اس عادت سے باز رکھنے کی کئی بار کوشش کی لیکن اب بھی وہ اس برائی کا عادی ہے۔ کئی بار گھر سے پیسے چرانے لگتا ہے۔ اگر اس مسئلے پر جلد قابو نہ پایا گیا تو گاؤں کا ہر بچہ آہستہ آہستہ نشہ کے جال میں پھنس جائے گا اور پورے گاؤں کی نئی نسل کا مستقبل تاریک ہو جائے گا۔“
گانی گاؤں میں منشیات کے بڑھتے ہوئے رجحان پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے گاؤں کی سرپنچ ہیما دیوی کہتی ہیں،”گاؤں میں منشیات کی کھپت تیزی سے بڑھنے لگی ہے۔ لوگ بھنگ بیچ رہے ہیں۔ وہ گھر میں کیمیکل سے بھری کچی شراب بنا رہے ہیں۔ اس سے بہت نقصان ہو رہا ہے۔ اس کے باوجود لوگ شراب پینا نہیں چھوڑ رہے ہیں۔شراب کی وجہ سے وہ گھر میں پیسے بھی نہیں دیتے ہیں۔جس کی وجہ سے خواتین کو اپنی گھریلو ضروریات پوری کرنے کے لیے دوسروں کے کھیتوں میں کام کرنی پڑتی ہے۔“وہیں سماجی کارکن نیلم گرانڈی کا کہنا ہے کہ ”منشیات کا بڑھتا ہوا رجحان ایک خطرناک علامت ہے جو پہلے صرف بزرگ ہی استعمال کرتے تھے۔ اب بہت سے اسکول کے بچے منشیات کا استعمال کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔اس کے خلاف بڑے پیمانے پر مہم چلانے کی ضرورت ہے۔ لیکن اس کی ذمہ داری صرف حکومت یا انتظامیہ پر عائد نہیں ہوتی ہے، بلکہ اس کے خاتمے کے لیے سماجی سطح پر مہم چلانے کی ضرورت ہے۔ اس کی شروعات گاؤں کے بزرگوں کو کرنی ہوگی۔ جب وہ اس برائی کو ترک کر دیں گے تو نئی نسل کو اس جال سے نجات مل سکتی ہے۔اتراکھنڈ کو منشیات سے پاک بنانے کے لیے حکومتی اور انتظامی سطح پر ایک جامع مہم چلائی جا رہی ہے۔
جہاں ریاستی حکومت اتراکھنڈ کو 2025 تک منشیات سے پاک بنانے کی کوشش کر رہی ہے، وہیں انتظامی سطح پر اس کے خلاف مہم چلائی جا رہی ہے۔ 2019سے2023 کی مدت کے دوران، باگیشور ضلع میں 89 معاملات میں 119 کلو گرام سے زیادہ چرس ضبط کی گئی ہے۔ سمیک اسمگلنگ کے 58 کیسز سامنے آئے۔ اس سال بھی انتظامیہ کی چوکسی کی وجہ سے چرس سمگلنگ کے کیسز مسلسل سامنے آ رہے ہیں۔ 5 جنوری کو ہی بیجناتھ میں 5.305 کلو گرام چرس پکڑی گئی تھی، جبکہ فروری کے آخری ہفتے میں 43 گرام چرس پکڑی گئی تھی۔ یہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ انتظامی سطح پر نوجوانوں اور بچوں کو اس برائی سے بچانے کی بہت کوششیں کی جا رہی ہیں۔ اب یہ سماج کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کے خلاف مہم چلائے تاکہ نابالغ بچوں کو اس برائی سے بچا کر اتراکھنڈ کے مستقبل کو روشن بنایا جاسکے۔ (چرخہ فیچرس)

 

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا