میٹھی سلیس پیاری اردو زباں ہماری سبکو سمجھ میں آئے اردو میں لکھ رہاہوں

0
0

 

 

ڈاکٹر قاضی سراج اظہر

آج میں اردو داں طبقے سے عاجزی و انکساری سے مخاطب ہوں اور ہماری زبان اردو کے تعلق سے نہایت ہی اہم بات واضح کرنا چاہونگا۔ میری بات پر اہلِ اردو دل لگا کر غور کریں۔ کیا ہندوستان میں ہماری موجودہ نسل اردو کی آخری نسل ہوگی؟ سوچتا ہوں اگر ہم نے اس کے لئے فوراً کچھ نہ کیا توافسوس، صد افسوس اتنی ترقی یافتہ زبان جس نے صدیوں تک ہمارے تشخص کو برقرار رکھا ہے دم توڑ دے گی۔ میں تو کہوں گا ہر اردوداں کو کمر باندھ کر جی جان سے اردو کی ترقی و ترویج میں حصہ لینا چاہئے ورنہ یہ اردو کا سفر اختتام پذیر ہوجائیگا۔ اسی لئے میں بار بار کہتا رہتا ہوں اردو کو حالاتِ حاضرہ کے جدید عصری تقاضوں سے مزین کرئیے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ کیجئے۔ اردو لکھئیے پڑھئے اور بولئیے۔ اردو میں تعلیم حاصل کیجئے۔ صرف اردو کا ایک مضمون سیکھنے سے اردو کا بول بالا نہیں ہوگا۔ اردو بولنے والے معاشیات کے ماہرین بھی پیدا کیجئے جیسے ہمارے ہندوستان کے سابق وزیرِ اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ ہیں جن کی تعلیم اردو میں ہوء جو اردو لکھتے پڑھتے اور بولتے ہیں۔ اردو بولنے والے سائنسداں پیدا کیجئے مثلاً نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر عبدالسلام جو ماہرِ طبیعات تھے۔ اْن کو اردو ادب سے اتنا گہرا لگاؤ تھا کہ انہوں نے غالب پر کء اردو مضامین بھی لکھے۔ اردو میں وہ تمام صلاحیتیں موجود ہیں جو دنیا کے کسی بھی ترقی یافتہ زبان میں ہو سکتی ہیں۔ اس کا اپنا رسم الخط ہے۔ اس کا اپنا تشخص ہے۔ اس کا اپنا ادب ہے۔ یہ عالمگیر حیثیت کی مالکہ ہے اور یہ بلاشبہ تخلیقی کار ہائے نمایاں سر انجام دینے کی طاقت و قوت رکھتی ہے۔
اگر ہم کسی مسجد میں جائیں تو معلوم ہوگا جمعہ اور عیدین کے خطبے اردو میں ہوتے ہیں۔ ذرا سوچیں آخر یہ انگریزی میں کیوں نہیں ہوتے؟ اس کے علاوہ جہاں کہیں بھی دینی دروس دئیے جاتے ہیں تو خطاب اردو میں ہی کیوں ہوتا ہے۔ یہاں تک کے مسلمان علاقوں میں سیاسی تقریریں بھی اردو میں ہی ہوتی ہیں۔ آخر اس کی کیا وجہ ہے؟ مطلب ظاہر ہے ملتِ مسلمہ کو جو بات سمجھاء جارہی ہے اْن کو سمجھ آئے۔ یہ تو بالغ افراد کی بات ہوئ۔ اب آپ ہی بتائیے، جب معصوم بچوں کو سارا تعلیمی نصاب ایک غیر ملکی اور اجنبی زبان میں دیا جائے تو اس کے کیا نتائج نکلیں گے۔ ہونا تو اس کا اْلٹ تھا یعنی ایک مضمون انگریزی زبان کا رکھا جاتا اور دوسرے تمام مضامین اردو میں سیکھائے جاتے تاکہ اْنہیں بنیادی علم اچھی طرح سے سمجھ آجاتا۔ یہ یاد رکھیں کہ بچے اپنی مادری زبان سے غیرملکی زبان کو سمجھتے ہیں۔ اگر مادری زبان ہی کمزور ہوتو اجنبی زبان (انگریزی) کا تو اللہ ہی حافظ۔ یقین جانئیے ان بچوں کا پیدائشی ذہن انگریزی نہیں ہے جبکہ ان کے ذہنوں میں انگریزی ٹھوسی جا رہی ہے جہاں سارا ماحول اردو کا ہے۔ افسوس یہ ہے والدین اور دانشورانِ ملت اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ ہم بڑے فخر سے تو کہتے ہیں بچے کا پہلا مدرسہ ماں کی گود ہے لیکن یہ بات بھول جاتے ہیں کہ اْس مدرسے میں بچے کو ماں کی زبان میں تعلیم دی جاتی ہے۔ اصل میں اس تعلیم کی ابتدا ماں کے شکم سے ہی شروع ہوجاتی ہے۔ آئندہ چھ سال تک بچہ اسی مادری زبان (اردو)کے ماحول میں پنپتا ہے۔ بچے کو اِس اردو فہمی کے ماحول سے نکال کر ایک اجنبی زبان کی بھْول بھْلیوں میں گْم کرنا کہاں کی عقلمندی ہے۔ بچہ تو یہی کہے گا
تْو جانتا ہے ساری زبانیں تو کیا ہْوا !
اردو میری زباں ہے اردو میں بات کر
تعلیم کا مقصد بچوں کو اپنی مادری زبان (اردو) میں تعلیم دینا ہوتا ہے، تاکہ وہ بنیادی علوم کو سمجھ سکیں۔ ان میں تحقیقی، تخلیقی و تنقیدی قابلیتیں پیدا ہوں جن سے وہ آنے والے وقت کی ضرورتوں اور مسائل کو دانشمندی سے حل کرسکیں۔ تاریخ شاہد ہے جس نے اپنی مادری زبان میں بنیادی تعلیم حاصل کی اْن کا اعلی تعلیمی سفر ہمیشہ شاندار رہا ہے۔ میں اساتذہ سے اکثر کہتا رہتا ہوں، اردو بولنے والے سائنسداں، موجد، اور ہرفن کے ماہرین بنائیے۔ عصرِ حاضر کے مختلف جدید شعب علوم میں ہْنر مند پیدا کیجئے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی کا سیدھا اثر صنعت و حرفت، تجارت و زراعت اور معاشی و اقتصادی ترقی سے منسلک ہوتا ہے۔ جب اردو خواندہ معاشرہ معاشی طور پر خودکفیل اور خوشحال ہوگا تو خود بخود اردو زندہ رہے گی۔ اردو کے شاعر و نثر نگار بھی پیدا ہوتے رہینگے۔ اْن کو داد و تحسین کے مواقع بھی ملیں گے۔ ظاہر ہے اس سے تشنگانِ اردو بھی سیراب ہوتے رہیں گے۔ اسی معاشی ترقی کی بدولت لسانی ادب بھی زندہ رہے گا اور اس کا مستقبل تابناک ہوگا۔ یہ اْسی وقت ممکن ہے جب اردو جدید ترقی کی ہمسر رہے گی۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہم اپنے رسم الخط کو رومن کردیں اور اپنی لسانی قابلیت کو انگریزی میں ضم کردیں۔ آپ کو ایسی بیسیوں مثالیں مل جائینگی جو اعلی پیمانے کے اردو نثر نگار اور شاعر تھے لیکن انگریزی ادبیات (English literature) کے پروفیسر تھے۔ ایسی ہی ایک مثال رگھو پتی سہائے فراق گورکھپوری کی ہے جو اردو شاعری میں عہد ساز شخصیت رہے۔ ہمیں علامہ اقبال کی جاوید کے نام نصیحت کو یاد رکھنا ہوگا۔ ہمیں ہماری زبان اردو سے نئے زمانے نئے صبح و شام پیدا کرنے ہوں گے۔ آہ علامہ نے کیا بات کہی ہے! اْٹھا نہ شیشہ گرانِ فرنگ کے احساں۔ سفالِ ہند سے مینا و جام پیدا کر۔
دیارِ عشق میں اپنا مقام پیدا کر
نیا زمانہ نئے صبح و شام پیدا کر
خدا اگر دل فطرت شناس دے تجھ کو
سکوتِ لالہ و گل سے کلام پیدا کر
اٹھا نہ شیشہ گران فرنگ کے احساں
سفالِ ہند سے مینا و جام پیدا کر
مرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر
جب میں ہندوستان سے امریکہ آیا تو صرف ایک اردو کی کتاب اپنے ساتھ لایا تھا۔ اس کی چھپاء لیتھو پریس کی تھی۔ وہ آج بھی میرے کتب خانہ کی زینت ہے۔ آپ نے صحیح اندازہ لگایا۔ یہ ‘‘کلیاتِ اقبال’’ ہی ہے۔ اسی کتاب نے مجھے یوروپ کی چکا چوند دنیا میں مشرق و مغرب کے فرق کو سمجھایا۔ جب بھی موقعہ ملا اسی کتاب سے اردو کی شیرینی کے مزے لْوٹتا رہا۔ اس کتاب کے طفیل سے میں نے شاعری میں آہنگ و عروض کے قاعدے سمجھے۔ اسی کتاب سے میں نے اشعار کی تقطیع بھی سیکھی۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے میرا کتب خانہ اردو کے اعلی معیاری عصری اور دینی ادبیات کا مخزن بن گیا۔ یقیناً اردو نے مجھے انگریزی زبان کے فہم کو بھی جِلا بخشی ہے۔ اب مجھے پتا چلا جدید تعلیمی تحقیق کیوں مادری زبان میں بنیادی تعلیم کو اہمیت دیتی ہے۔ جب بنیادی تعلیم مادری زبان میں ہوگی تو ایسے بچوں کو غیرملکی زبان سیکھنے میں بھی خوب عبور حاصل ہوگا۔ یہی وجہ ہے علامہ اقبال جیسی بلند پایہ اردو داں ہستیاں غیر ملکی زبانوں مثلاً انگریزی، جرمنی، فارسی، عربی وغیرہ میں کافی عبور رکھتی تھیں۔
آخر میں بس میں سو بات کی ایک بات کہتے ہوئے بات پوری کرنا چاہوں گا۔ اگر ہمیں ملّی شخصیت اور اردو کے بقائ کی فکر ہے تو اردو ذریعہ تعلیم کے تعلیمی اداروں کو ختم ہونے سے بچالیں۔ ان اداروں کو عصرِ حاضر کے تقاضوں سے لیس کر دیں۔ اردو اکیڈمیز اور اقلیتی فلاح و بہبودی کے ادارے جن کو کروڑوں کی حکومت سے مالی امداد ملتی ہے، اس سے اردو مدارس کو معیاری بنائیں، اردو میں نصابی کْتب نہ ملنے کی ہمیشہ شکایت رہتی ہے، اس کی بھر پاء کریں۔ اردو اساتذہ کی مخلوعہ جائدادوں کی بھرپاء کریں۔ اردو ذریعہ تعلیم سے امتیازی کامیابی حاصل کرنے والے طلبا کیلئے جو غریب ہیں اور جن کا سرکاری میڈیکل اور انجنیرنگ میں داخلہ مل چْکا ہے مگر سرکاری فیس دینے کے قابل نہیں ہیں اْنکے لئے وظائف مقرر کئے جائیں۔ اردو ہماری مادری زبان ہے جس کے ذریعہ تعلیم حاصل کرنے کا ہمیں پورا دستوری حق ہے اور نء تعلیمی پالیسی بھی اس بات کی بھر پور تائد کرتی ہے۔
اردو زبان نے اس ملک کو بہت کچھ دیا ہے، اس میں کوء شک نہیں اور یہ تاریخ گواہ ہے کہ اگر اردو کو ترقی ملی تو ملک کو بھی ترقی ملے گی۔ ملک معاشی اور اقتصادی بحران سے نکل پائیگا۔ یاد رکھیں جو قوم اپنی زبان، تہذیب و تمدن اور اپنی روایات کو فراموش کرتی ہے اْس کے لئے ترقی کے راستے محدود ہوجاتے ہیں اور اْن کا نام و نشان مٹ جاتا ہے۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا