’میرے ساتھ یہ پہلی بار نہیں ہوا ہے‘

0
62
  • میں نے کئی بار یہ مصیبتیں جھیلی ہیں، دیش کو مطمئن کرنے کیلئے استعفیٰ دیا: چودھری لال سنگھ
    لازوال ڈیسک
  • جموں؍؍ جموں وکشمیر کی کابینہ سے مستعفی ہونے والے بی جے پی لیڈر چودھری لال سنگھ نے کہا کہ انہیں اپنے سیاسی کیریئر میں کئی بار مصیبتیں جھیلنی پڑی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میرے بارے میں پورے ملک میں ایک غلط تاثر پیدا کیا گیا اور ملکی عوام کو مطمئن کرنے کے لئے ہی میں نے کابینہ سے استعفیٰ دیا ہے۔ بتادیں کہ ریاستی پی ڈی پی بی جے پی مخلوط حکومت میں شامل دو بھاجپا وزراء چندر پرکاش گنگا اور چودھری لال سنگھ نے گذشتہ شام اپنے استعفیٰ نامے پارٹی کے ریاستی صدر ست شرما کو سونپ دیے۔ بی جے پی کے اِن دو وزراء نے یکم مارچ کو ضلع کٹھوعہ میں آصفہ عصمت دری و قتل کیس کے ملزمان کے حق میں ہندو ایکتا منچ کے بینر تلے منعقد ہونے والے ایک جلسہ میں شرکت کرکے سول و پولیس انتظامیہ کے عہدیداروں کو گرفتاریاں عمل میں نہ لانے کی ہدایات دی تھیں۔ نیشنل کانفرنس کے کارگذار صدر عمر عبداللہ، ریاستی کانگریس، سول سوسائٹی اور دیگر تنظیموں نے ریاستی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی سے مانگ کی تھی کہ بھاجپا کے ان دو وزراء کو وزارتی کونسل سے باہر کردیا جائے۔ تاہم دونوں وزراء نے پارٹی کے کہنے پر خود ہی اپنا استعفیٰ پیش کیا۔ چودھری لال سنگھ نے گذشتہ رات یہاں اپنی رہائش گاہ پر نامہ نگاروں کو بتایا کہ مصیبت کا سامنا کرنا ان کے لئے کوئی نئی بات نہیں ہے۔ انہوں نے کہا ’میں نے کئی بار یہ مصیبتیں جھیلی ہیں۔ کبھی میری کوئی ٹکٹ چھین لیتا ہے۔ میں 2004 میں منسٹر تھا تو مجھے ہٹایا گیا۔ کبھی مجھے منسٹری سے ہٹاکر ایم پی بنا دیا جاتا ہے۔ کبھی میں ایم پی رہتا ہوں تو وہاں سے ہٹا دیا جاتا ہوں۔ کبھی میں منسٹر بنتا ہوں تو دس ماہ بعد میری منسٹری تبدیل کی جاتی ہے۔ میرے ساتھ یہ پہلی بار نہیں ہوا ہے۔ اس ملک کے لئے میری اگر قربانی لگ سکتی ہے تو ہمیشہ تیار ہوں‘۔ انہوں نے کہا ’پہلے نمبر پر دیش اور دوسرے نمبر پر پارٹی آتی ہے۔ اگر آخر میں کوئی آتا ہے تو وہ ہم لوگ ہیں۔ دیش میں اگر غلط تاثر پیدا ہوجائے تو دیش کو مطمئن کرنے کے لئے اگر استعفیٰ دینا پڑتا ہے تو کوئی بڑی بات نہیں ہے‘۔ لال سنگھ نے کہا کہ انہیں پارٹی کی طرف سے کٹھوعہ بھیجا گیا تھا۔ انہوںنے کہا ’ہم صرف دو لوگ وہاں نہیں گئے تھے بلکہ پارٹی کے متعدد عہدیدار ہمارے ساتھ تھے۔ ہمیں پارٹی کی طرف سے وہاں بھیجا گیا تھا۔ وہاں سے لوگوں نے ہجرت کی تھی۔ ہم نے ہجرت کرنے والے اور دیگر لوگوں کو وہاں سنا۔ وہاں سے واپسی پر ہم نے پارٹی کو باضابطہ رپورٹ پیش کی۔ جلسہ کے دوران کسی نے ملزمان کے حق میں بات نہیں کی۔ ان کا مطالبہ تھا کہ واقعہ کی سی بی آئی سے انکوائری کرائی جائے۔ ہم نے ان سے کہا کہ ہم پارٹی سے بات کریں گے اور پارٹی اپنی اتحادی جماعت (پی ڈی پی) سے بات کرے گی۔ جو فیصلہ ہوگا ہم آپ کو بتائیں گے‘۔ لال سنگھ نے کہا کہ نام نہاد سیاستدان کشمیری علیحدگی پسندوں کو ناراض نہیں کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا ’ہم سے پہلے گیلانی نے کہہ دیا کہ سی بی آئی انکوائری نہیں ہوگی۔ یہ جو نام نہاد سیاستدان ہیںان میں دم ہی نہیں ہے۔ ان کو تکلیف ہوگئی کہ اگر گیلانی اور دوسرے علیحدگی پسند ناراض ہوگئے تو پتہ نہیں کشمیر میں کیا ہوگا‘۔ انہوں نے کہا ’اگر آج اترپردیش میں وہاں کے وزیر اعلیٰ اپنے ایم ایل اے کی سچائی جاننے کے لئے سی بی آئی انکوائری کراسکتے ہیں تو ان کو بیماری تھی کیا‘۔ انہوں نے کہا ’چودھری لال سنگھ کو دنیا جانتی ہے۔ ہمیںپتہ ہے کہ ان لوگوں کی تکلیفیں کہاں ہیں، دردیں کہاں ہیں اور اٹھ کہاں سے رہی ہیں یہ میں اور جموں وکشمیر کے لوگ بہتر جانتے ہیں‘۔ لال سنگھ نے بقول ان کے ملک میں غلط تاثر پیدا کرنے کے لئے کشمیری صحافیوں کو ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے کہا ’کشمیر کے نام نہاد میڈیا نے آلتو فالتو بکواس کی۔ چار سو کلو میٹر کے فرق کے باوجود ان کو سب خبر ہوتی تھی۔ جموں میں رہنے والے میڈیا کو کوئی خبر نہیں‘۔ یہ پوچھے جانے پر کیا انہوں نے دباؤ میں آکر اپنا استعفیٰ دیا ہے تو ان کا کہنا تھا ’دباؤ تو دیش پر بنا ہی تھا۔ ہمارے بڑے بڑے (صحافیوں)، بھائیوں اور دیوتاؤں نے پورے ملک کے اندر ایک عجیب تاثر پیدا کیا تھا‘۔ لال سنگھ نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ آصفہ کے قاتلوں کو سخت سے سخت سزا ملے ۔ انہوں نے کہا ’ کشمیر کی جتنی بچیاں ہیں ہماری بچیاں ہیں۔ کشمیر کے جتنے لوگ ہیں ہمارے لوگ ہیں۔ ان چند لوگوں کے نہیں جو ٹھیکہ دار بن گئے ہیں۔ کشمیر کے 60 ہزار لوگوں کو میں نے مکانات بنانے کے لئے لکڑی دی۔ کبھی کسی کشمیری (منسٹر) نے دی اتنی لوگوں کو۔ میرے لئے ریاست میں رہنے والے سب لوگ برابر ہیں‘۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا