( احمد رضا)
سہارنپور// قانون داں محمد علی ایڈوکیٹ نے مسلم آبادی کے خلاف بڑھتے ہوئے حملوں پر اپنے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے ہلدوانی فساد کی جانچ کرانے کی مانگ کر تے ہوئے کہا عمر خالد ، گلفشا ں فاطمہ ،شرجیل امام کے بعد مفتی قمر غنی اور مفتی محمد ازہری جیسے ہونہار اور بے قصور افراد بغیر گناہ کئے ہوئے جیل کی مشقت برداشت کرنے کو مجبور ہیں وہیں ہندو شدت پسند گروہ کی نفرت انگیز حرکات وطن کی سالمیت،ترقی،امن و استحکام میں بڑی رکاوٹ پیدا کر رہی ہیں، ایڈوکیٹ محمد علی نے کہا کہ مہذب اور جمہوری ملک میں حسد اور نفرت کے سبب مسلم افراد پر تشدد ڈھانا اور انکا مزاق بنانا جمہوری نظام کیلئے بیحد مضر اگر جلد ہی دہشت پھیلانے والے افراد پر ایکشن نہی لیا گیا تو ملک میں بد امنی کا خطرہ لاحق ہو جائیگا! سینئر ایڈوکیٹ محمد علی نے کہا کہ کھلے عام گالی گلو چ اور مارپیٹ کرنے کے بعد بھی ہندو شدت پسند افراد کے خلاف کوئی کارروائی نہی کی گئی جس وجہ سے ظالموں کے حوصلہ کافی بلند ہو چکے ہیں! آپکو بتاتے چلیں کہ ہدوانی کے بن پھول پورا علاقہ میں نفرت کے باعث ضلع مجسٹریٹ وندنا سنگھ اور نگم کے کمشنر کا جو تعصب سے لبالب چہرہ دنیا کے سامنے آیا اس کی جس قدر بھی مزمت کی جائے وہ کم ہے آپ کچھ بھی بولیں ، کریں یا کرائیں ہمکو یا کسی کو آپسے کچھ بھی مطلب نہیں ہم صبر اور ضبط کا مظاہرہ کر رہے ہیں مانتے ہیں کہ آج ملک میں قاعدے قوانین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے آپ کو سب کچھ بولنے اور کرگزر نے کی پوری چھوٹ حاصل ہے مگر یاد رکھیں سچّائی یہ ہے کہ ملک کے 35 کروڑ مسلم طبقہ کے افراد کو بھی یہاں وہی حقوق اور آزادی دستور ہند کے مطابق حاصل ہے ہمکو بھی اپنی جان اور مال کی حفاظت کرنے کی مکمل آزادی حاصل ہے مگر مسلم طبقہ کے افراد قانون کے تحت اپنی زندگی بسر کرنے میں یقین رکھتے ہیں یہ سچ ہے کہ مسلم افراد دنگا فساد سے بچ کر زندگی کو پر امن طریقے سے گزر بسر کر نا چاہتا ہے مگر نہ جانے کیوں خاص طبقہ کے افراد یہاں لگاتار ایک پلاننگ کے تحت مسلم لوگوں کو نشانہ بنانے کی جابرانہ اور شاطرانہ کوششیں کر رہے ہیں جو کسی بھی صورت برداشت کرنے کے قابل نہیں ہیں بلاوجہ حملے اور بے قصور افراد کی گرفتاریو ں نے حالات کو بد سے بد بنادیا ہے مظلومین کی جانب سے اس شرمناک حرکت کی مخالفت ہونا ضروری ہے واضع رہے کہ آج” بابری مسجد کو شہید کر تے ہوئے مسجد کے مقام پر آستھا کے نام پر زور زبر دستی سے بنائے گئے رام مندر کے افتتاح کے بعد سے دیکھا جا رہا ہے کہ یہاں من ما نے ڈھنگ سے ہونے والی مندر کی تعمیر سے ہندو شدت پسند گروپ میں حد سے زیادہ جوش و خروش دیکھا جا رہا ہے دیگر اقوامِ کو یہ لوگ چڑانے اور اکسانے پر بضد ہیں اتنا ہی نہیں بلکہ یہ گروہ بند افراد اپنی خوشی اور جوش کا اظہار مسلم طبقہ کے افراد کو گالیاں بکنے کے ساتھ ساتھ ان سے بلاوجہ مار پیٹ کرنے کی نیچ حرکتوں پر اتر آئے ہیں غور کریں کہ اب تو جبریہ طور سے گیان وا پی مسجد میں بھی پوجا پا ٹھ کی جانے لگے ہیں پورا ملک اس دہشت گرد ی کو کھلی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے! ایڈوکیٹ محمد علی نے صاف صاف کہا کہ لگاتار مسلم آبادی کے ووٹ سے اعلیٰ عہدوں پر فائز ہونے والے سیاست داں مسلم اقوامِ کی بے عزتِی ، حق تلفی اور جانی مالی نقصان پر خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں عدلیہ میں بھی مسلم فرقہ کے متاثرین افراد کو راحت نہی مل رہی ہے مسلم آبادی کی حالت زار پر ہندو شدت پسند لوگ مظلوم مسلمانوں کی مزاق اڑا رہے ہیں گندے گندے نعروں اور جملوں سے چڑا چڑا کر مسجد وں کے باہر بھگوا جھنڈے لہرا کر اور مسلم آبادی سے جے شری رام کے نعرہ لگوا رہے ہیں قانوں آنکھیں بند کئے ہوئے ہیں سرکاری مشینری ہندو شدت پسند افراد کی پشت پناہی کر رہی ہے صرفِ چھ ماہ کے دوران مسلم افراد کے ساتھ ریلوے اسٹیشن بس اڈوں ریل کے ڈبوں اور بسوں کے اندر ہریانہ ، ہماچل ، ہردوار , دہرادون ،کیرانہ ، شاملی ، غازی آباد ،میرٹھ اور مظفر نگر کے ساتھ ساتھ مرادآباد ، بریلی ،کانپور اور لکھنؤ میں دوسو سے زیادہ اس طرح کی شرمناک حرکتیں ہو چکی ہے شکایات کے بعد آج تک بھی ایک بھگوا کارکن جیل نہی گیا جبکہ فرضی شکایات کی بناء پر دہلی ، اترپردیش اور مدھیہ پردیش میں ہے ایک ہزار سے زیادہ مسلم افراد سالہا سال سے جیل کی مشقتیں برادشت کرنے کو مجبور ہیں اب تو بات یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ کہیں بھی مسلم مرد یا عورت کو دیکھتے ہی یہ بھگوا بریگیڈ کے دہشت گرد اور زہریلے افراد اچانک بھجن کیرتن کرنے لگتے ہیں جے شری رام کانعرہ دینے لگتے ہیں مسلم برقعہ پوش خواتین ، ٹوپی کرتے والے اور دا ڈ هی والے افراد بے بسی کے عالم میں شرمندہ ہو کر رہ جاتے ہیں بھگوا بریگیڈ کے اہلکار مسلم طبقہ کے افراد کے خلاف اشتعال انگیز جملہ کشی اور بھدے بھدے نعروں کی بوجھار کرنے سے قطعی گریز نہیں کرتے انکی حکمت عملی میں بھی لگاتار بلا کی تیز ی نظر آ تی جا رہی ہے جو ایک خطرناک رحجان کی جانب اشارہ ہے! وقت رہتے اس طرح کے بیان دینے والے افراد کے خلاف فوری طور سے سخت قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے یہ ملک سبھی کا ہے ملک میں سبھی کے حقوق برابر ہیں ایک فرقہ کو بات بات پر د با نا آور نفرت کا نشانہ بنانا ہر صورت قابل مزمت عمل ہے اس طرح کے معاملات میں سرکار اور سرکاری مشینری کی خاموشی بہت سے سوال پیدا کر تی ہے! سینئر ایڈوکیٹ محمد علی نے حالات حاضرہ پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں مسلسل پچہلے دس سال سے مسلم آبادی ، مدارس اسلامیہ اور مساجد کو نشانہ بنایا جا رہا ہے مرکزی سرکار اور ریاستی سرکار کے بڑے عہدیدار ایسی شرمناک حرکتوں پر خاموش رہکر وقت بہ وقت ہندو شدت پسند افراد کی حوصلہ افزائی کرتے رہتے ہیں جس وجہ سے ملک کی تیس کروڑ سے زائد مسلم آبادی خون کے گھونٹ پی کر رہ جاتے ہیں! ہم بار بار کہ چکے ہیں کہ ان غیر قانونی حرکات اور بیان بازی کرنے والے شدت پسند افراد کے خلاف سخت کارروائی کی جائے تاکہ ملک کا امن و سکون محفوظ رہ سکے مگر دیکھنے میں آیا ہے کہ جب جب مسلم طبقہ کے افراد نے اس غیر قانونی اور خلاف دستور کار کر دگی پر اپنے غم اور غصہ کا اظہار کیا تب تب پولیس اور سرکاری مشینری نے الٹے مسلم افراد کے خلاف ہی مقدمات قائم کر کے مسلم طبقہ کو ہی ٹارچر کیا اور انکے خلاف فوجداری مقدمات قائم کر د ئے ایسی سیکڑوں مثالیں ملک بھر میں موجود ہیں جس وجہ سے آجتک شرجیل امام اور عمر خالد جیسے مہذب نوجوان سرکاری مشینری کا عتاب برداشت کرنے پر مجبور ہیں جبکہ ہندو مذہب کے شاطر ملزمان اور سزا یافتہ افراد باہر عیش و عشرت کی زندگی گزار رہے ہیں سرکار کے اس طرح کے من مانی کرنے کے عمل سے ہندو شدت پسند افراد کے حوصلہ آسمان کو چھونے لگے ہیں اور مسلم آبادی کے شریف افراد ایسے موقعے پر شرمندہ ہو کر رہ جاتے ہیں اس ناز یبہ کارکردگی کے چلتے اب بات یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ اندنوں ہمارے با عظمت با وقار دینی تعلیمی ادارہ دار العلوم کو نشانہ بنایا جا رہا ہے!