سائرہ بانو
موہن پہلی بار اپنے دوستوں کے ساتھ شہر گھومنے جا رہا تھا۔ ریچو نے موہن سے کہا، بھیا، میرے لئے شہر سے چھاتا لے کر آنا۔ موہن نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔ ضرور لاؤں گا بہنا۔ تبھی ماں بولی:’’موہن بیٹا! شہر میں چیزوں کے دام دوگنے بتائے جاتے ہیں، جو کچھ بھی خریدنا مول بھاؤ کر کے خریدنا۔‘‘
موہن بہت ہی سیدھا تھا۔ ماں اسے جیسا کہتی وہ ویسا ہی کرتا۔ شہر پہنچ کروہ اپنے دوستوں کے ساتھ بازار گیا۔ وہاں اس نے بہت سی چیزیں دیکھیں اورایک چھاتا بھی دیکھا۔ چھاتا اسے بہت پسند آیا۔ اس نے دکاندار سے اس کی قیمت پوچھی: ’’یہ چھاتا کتنے کا ہے؟‘‘
دکاندار نے موہن کو پہلے اوپر سے نیچے غور سے دیکھا اور بولا،’’یہ 200روپے کاہے۔‘‘
تبھی موہن کو ماں کی بات یاد آئی کہ شہر میں چیزوں کے دام دوگنے ہوتے ہیں۔ اس نے کچھ سوچتے ہوئے کہا،’’بھئی ، تم اس کی قیمت زیادہ لگا رہے ہو،اگر 100 روپے میں دینا ہے تو بتاؤ؟‘‘
دکاندار نے ایک بار پھر موہن کو غور سے دیکھا اور بولا،’’ 100روپے تو بہت کم ہیں، لیکن صرف تمہارے لئے 150روپے میں دے دوں گا۔‘‘
موہن جلدی سے بولا،’’اب تو میں 75 روپے میں ہی لوں گا۔‘‘
دکاندار کو بڑی حیرت ہوئی پھر بھی وہ بولا،’’ٹھیک ہے75 تو نہیں، چلو 100 روپے میں لے لو۔‘‘
موہن کو اپنی ماں کی بات اچھی طرح سے یاد تھی۔ وہ دھوکہ کھانے والا نہیں تھا۔ اس نے فوراً کہا، ’’اب تو میں 50 روپے ہی دوں گا! ‘‘
دکاندار جھلاّتے ہوئے بولا،’’مفت میں لے گا کیا؟‘‘
موہن نے بڑی معصومیت سے کہا،’’ہاں، مفت میں، لیکن دو چھتریاں دینی پڑیں گی!‘‘